Miley Is Se Jab - Novel By Warisha Jadoon - Complete Pdf


Urdu Nonvillains is a platform for all social media writers. Here you find variety of novels having different plot and concept about life of a human being who faces difficulties in every walk of life. 


Each story has its own moral every story teaches us a new lesson as it contains experience of every human life.


Here you find revenge based, Islamic based, Rude hero, Doctor, Lawyer based with many more exciting tragedies.....


Warisha Jadoon is one of the fabulous novel that get attention by readers after reading it you will love this novel. Download this novel by clicking below the given link.


If you have any queries regarding downloading let us know by commenting below. After reading this novel also leave your precious comments below and let us know about your thoughts and novel selection which type of novels would you like to read????? and which type you want to be posted here we will try to bring novels according to your choice of selection. Thanks for Reading!!!!


Miley Is Se Jab - Novel By Warisha Jadoon - Complete Pdf


CLICK BELOW THE DOWNLOAD BUTTON




Sneak Peak No : 1


 " بب۔۔۔بالی " شاگا نے بمشکل چند الفاظ ادا کیے جنھیں سنتے ہی اکرم نے حیران نظروں سے شاگا کو دیکھا " اکرم بالی کہاں پر ہے " شاگا نے حوش میں آتے ہی کہا ۔

" یہ کیا کہہ رہے ہیں شاگا استاد کیا آپ کو یاد نہیں ہے آپ نے تو اپنے ہاتھوں سے بالی صاحب کو تیر مار کر ان کی جان لی تھی نا  " اکرم اسے یاد کرواتے ہوئے بولا۔

" اوہ ۔۔ ہاں میں ہی وہ بد نصیب ہوں جس نے خود ہی اپنے دوست کو اپنے ہاتھوں سے مار ڈالا ابھی کل ہی کی بات تھی جن ہاتھوں سے سہارا دے کر میں اسے ساتھ لایا تھا انھیں ہاتھوں سے میں نے اسے موت کی نیند سلا دیا " یہ کہتے ہوئے شاگا کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئیں۔

 " اکرم کیا واقعی میں نے غلط کیا بالی کی جان لے کر ، یا میرا یہ فیصلہ درست تھا ؟ " اور پھر کچھ دیرخاموشی کے بعد کسی ننھے بچے کی طرح شاگا نے اکرم سے سوال پوچھا جس پر اکرم نے پہلے ہاں میں سر ہلایا اور پھر نا میں۔

 " نن۔۔ نہیں استاد جو آپکو ٹھیک لگا آپ نے وہ کیا " اکرم نے جواب تو دے دیا مگر وہ خود بھی شاگا کے اس سوال سے کافی حیران ہوا تھا کیونکہ اس سے پہلے شاگا نے کبھی ایسا نہیں کیا تھا شاگا اپنے ہر ٹھیک یا غلط فیصلے سے بالکل مطمئین ہوتا تھا ، وہ جب بھی کوئی فیصلہ لیتا ہمیشہ خود کو درست کہتا تھا مگر آج شاگا کا یہ سوال حیران کُن تھا۔

 " شاید اس بار میں نے غلط فیصلہ لیا ہے " کچھ دیر کی خاموشی کے بعد شاگا خود ہی بولا بنسبت روز کی آج شاگا کی آواز نیچی تھی۔

 " تُم نے کوئی غلط فیصلہ نہیں لیا تم نے صرف ایک غدار کو اس کے اصل ٹھکانے لگا یا ہے اور ہاں آج کے بعد یہ بات یاد رکھنا کہ سردار کبھی غلط فیصلہ نہیں لیتے " اکرم کے کوئی جواب دینے سے پہلے ہی کالیا کی بھاری بھرکم آواز کمرے میں گونجی اس کے الفاظ اس بات کو منہ بولتا ثبوت تھے کہ کالیا شاگا کی بات سن چکا ہے۔ کالیا نے اپنی اسی قسم کی ہی باتوں سے شاگا سے اس کی انسانیت چھین کر اس میں غرور اور حیوانیت بھر دی تھی مگر یہ کیا آج پہلی بار شاگا کو کالیا کے الفاظ دل میں ِتیر کی مانند چبھے تھے وہ آدمی جسے شاگا دوست کہتا تھا کالیا نے اسے اس کے سامنے غدار کے نام سے نوازا تھا ۔

" چچا جان دیکھیے جو ہو گیا سو ہو گیا ، مگر اب آئندہ میرے سامنے یا تو بالی کی بات مت کیجیے گا یا پھر مہربانی فرما کر اس کے لیے ایسے الفاظ مت استعمال کیجیے گا " شاگا ہاتھ کے اشارے سے کالیا کو تنبیہ کرتا بولا اور اس کے الفاظ کالیا کے چہرے کو لال کر گئے تھے ۔ شاگا نے اپنی پوری زندگی میں پہلی بار کالیا سے اس لہجے میں بات کی تھی " خیر چھوڑیے کیا کہنے آئے تھے آپ " جب شاگا کو تھوڑا احساس ہوا کہ وہ کچھ زیادہ ہی بول گیا ہے تو بات کا رخ بدل کر بولا، لیکن کالیا کے تن بدن میں آگ لگ چکی تھی ۔

" شاگا اپنے الفاظ کو تول کر بات کرو میں تمھارا چچا ہی نہیں ۔۔۔۔" ابھی کالیا نے غصے سے کچھ کہنا چاہا تھا جب شاگا نے ٹوکا  ۔

"تمھارے باپ کی جگہ پر بنایاگیا سردار بھی ہوں ، یہی کہنا چاہتے ہیں نا آپ ؟"اب  شاگا نےغصے سے کھڑے ہو کر  خود اس کے جملے کو پورا کیا جبکہ کالیا کا بس نہیں چل رہا تھا وہ شاگا کو جان سے مار دے ۔

" معاف کیجیے گا ٹوکنے کے لیے ۔ہاں ،تو کیا کہہ رہے تھے آپ ؟" شاگا کالیا کے لیے آنکھوں میں نفرت و حقارت لیے بولا۔

 " بدتمیز ! تم کل قسطنطنیہ جا رہے ہو اور پندرہ دنوں کے اندر اندر اس آدمی کو میرے حوالے کرو گے ورنہ " کالیا نہایت غصے کے عالم میں اپنی بات ادھوری چھوڑے کمرے سے جا چکا تھا اکرم حقا بقا انھیں دیکھ رہا تھا کہ وہ شاگا جس نے آج تک کبھی اپنے چچا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کی آج اس نے ایسا لہجہ استعمال کیا ۔ بہر حال جو بھی تھا آج شاگا نے کالیا کو اس کی اوقات یاد دلا دی تھی اور اسے بتا دیا تھا کہ اب وہ مزید اس کی کٹ پتلی بن کر نہیں رہے گا اور اسی بات کا کالیا کو 15 سالوں سے خوف تھا اور آخر وہ دن بھی آہی گیا ،مگر کالیا نے بھی سوچ رکھا تھا کیا کرنا ہے ۔

Post a Comment

Previous Post Next Post