Each story has its own moral every story teaches us a new lesson as it contains experience of every human life.
Here you find revenge based, Islamic based, Rude hero, Doctor, Lawyer based with many more exciting tragedies......
Manzilein Lapata is one of the fabulous novel that get attention by readers after reading it you will love this novel. Download this novel by clicking below the given link.
If you have any queries regarding downloading let us know by commenting below. After reading this novel also leave your precious comments below and let us know about your thoughts and novel selection which type of novels would you like to read????? and which type you want to be posted here we will try to bring novels according to your choice of selection. Thanks for Reading!!!!
Manzilein Lapata By Samreen Sheikh
Download
Sneak Peak No 1:
یہ منظر ایک بڑے اور خوبصورت سے فارم ہاؤس کا تھا جسے نہایت ہی خوبصورت سے دلہن کی طرح سجایا
گیا تھا
زاویار فارم ہاؤس کی چکا چوند دیکھ کر ایک لحمے کو تھم سا گیا تھا اسے نہیں پتا تھا کہ نور حاکم اتنی امیر ہے
خیر اس نے اپنے کورٹ کی پاکٹ سے فون نکال کر نور کو میسج کیا ۔۔۔۔۔
________
حانم برائڈل روم میں بالکل تیار شیار بیٹھی تھی
بیوٹیشن کو کیونکہ ادھر ہی بلا لیا گیا تھا تو ابھی حانم کسی سے نہیں ملی تھی
گھر کے سب لوگ تیاریوں میں مصروف تھے تھوڑی دیر میں جب ساحر نے آنا تھا تب اس کا ساحر کا فوٹو شوٹ تھا پھر رسمیں شروع ہونی تھیں
اپنی بوریت دور کرنے کے لیے حانم نے فون اٹھایا تو بیک وقت دو میسج موصول ہوئے
زاویار میر کا میسج
وہ یہاں پہنچ چکا تھا اور اسے بلا رہا تھا ۔۔۔
ساحر سائیں حانم نے چونک کر اس کا میسج کھولا
سب سے پہلے اپنی نور ساحر کو دیکھنے کا حق صرف ساحر سائیں کا
حانم شش و پنج میں مبتلا ہوئی پھر کچھ سوچتے ہوئے انٹریس کی طرف بڑھی جہاں زاویار کھڑا تھا
پانچ منٹ ہی گزرے تھے جب زاویار کی نظر بے دھیانی نے اپنے بائیں طرف بنی راہ داری پر پڑی اور اسے لگا جیسے وقت تھم سا گیا
نور سرخ رنگ کے لہنگے میں بھاری بھرکم زیور پہنے پہنے قدم قدم چلتی اس کے پاس آئی
سرخ خوبصورت جوڑے میں وہ بلا کی حسین لگ رہی تھی مہارت سے کیا گیا میک اپ اس کے نقوش میں نکھار پیدا کرہا تھا ۔۔۔۔
نور۔۔۔۔زاویار مہبوت سا بس یہ ہی کہہ سکا ۔۔۔
Sneak Peak No 2:
ساحر واپس کمرے میں آیا تو حانم زمین پر گرے کانچ کے ٹکڑے اٹھا رہی تھی
مت اٹھاو انہیں تمہے لگ جائیں گے
ساحر نے اسے روکا
اگر میں نے نہیں اٹھائیں تو آپ کو لگ جائیں گے حانم اس کی سرمئی آنکھوں میں دیکھ کر بولی
تو لگ جانے دو ساحر بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا لہجے میں چھپی اذیت حانم کو آپنے دل میں محسوس ہوئی
لگ لینے دیتی اگر آپ سے کوئی رشتہ نہ ہوتا مگر اب آپ سے میرا رشتہ ہے اور میں اپنے رشتوں کے معاملے میں بہت پوزیسو ہوں
کانچ کے ٹکڑے سائیڈ ٹیبل کے پاس پڑی بن میں ڈال کر حانم اس کے پاس سے ہوتی گزر گئی
ساحر نے ایک نظر اس کی پشت کو دیکھا پھر آنکھیں بند کرکے گہرے گہرے سانس لینے لگا
Sneak Peak No 3:
نور حانم میں جانتا ہوں کہ تم ابھی نکاح کے لیے راضی نہیں تھی
تمہارے ساتھ جو ہوا اس وجہ سے تم اتنی جلدی کسی پر بھی اعتبار نہیں کر پاؤ گی مگر ۔۔۔۔۔
آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ اس واقعے کے بعد میں پھر کبھی کسی پر بھی اعتبار نہیں کر پاؤں گی
حانم نے دونوں ہاتھ آگے باندھ کر سنجیدگی سے ساحر کی طرف دیکھا ۔۔۔۔
میں نورِ حانم ہوں ساحر سائیں میں جس کی غلطی ہوتی ہے اسی کو سزا دینے کی قائل ہوں
ہاں میں ابھی نکاح کے لیے دماغی طور پر تیار نہیں تھی مگر اب تو ہوگیا نکاح
بلا وجہ کے چونچلے کرنا مجھے پسند نہیں حانم اتنا کہہ کر کمرے سے باہر نکل گئی
پیچھے ساحر اس کی پشت کو دیکھتا رہ گیا
ہو کیوں بھول جاتا تھا کہ سامنے میروں کی نورِ حانم تھی کوئی عام
لڑکی نہیں
Sneak Peak No 4:
قبول ہے !!!!
مائک سے اس کی گھمبیر آواز گونجی
جو زنان خانے تک بھی پہنچی تھی
تیسری دفعہ" قبول ہے" کہتے ہی میر حاکم سائیں نے اپنے پوتے کو گلے لگایا
نکاح بہت بہت مبارک ہو میر زاویار جواد سائیں
میر حاکم سائیں کے چہرے کی چمک اس بات کی گواہ تھی کہ وہ کتنا خوش ہیں اس نکاح پر
مگر ان کے چہرے کی چمک سے کہیں زیادہ چمک میر زاویار کی آنکھوں میں تھی
مگر یہ چمک نکاح کی تو نہیں لگی تھی
یہ چمک عجیب سی تھی
باغی سی!!!!
اپنے وجیہہ چہرے پر جاندار مسکراہٹ کے ساتھ اس نے دوبارہ مائک پکڑا
میں میر زاویار سائیں، میر حاکم سائیں کا پوتا اس خاندان کا پہلا چشم و چراغ ،،،،
اس گاؤں کا ہونے والا سردار ،،،،
اس کی آواز جو ہی گونجی مردان خانے میں خاموشی چھاہ گئی
میر حاکم سائیں نے فخر سے اپنے پوتے کا تحمکانہ انداز دیکھا
جس کا نکاح ۔۔۔۔۔۔۔
آنکھوں کی چمک کچھ اور واضح ہوئی تھی میر حاکم سائیں کو کچھ غلط ہونے کا احساس شدت سے ہوا
جس کے دادا نے جائیداد سے عاق کرنے کی دھمکی پر اپنی پینڈو پوتی سے میرا زبردستی نکاح کردیا مگر ۔۔۔۔
میں بھی انہی کا پوتا ہوں
میں میر زاویار سائیں اپنے پورے ہوش وحواس میں اپنی چند سیکنڈ پہلے کی دلہن کو طلاق دیتا ہوں
زاویار
ثمینہ جواد حاکم چیخی۔۔۔
میں حانم کو
طلاق دیتا ہوں
طلاق دیتا ہوں
دادا سائیں ادھر ہی موجود ہوں میں اب میرا دوبارہ نکاح کروا کر دیکھائیں
ہونٹوں پر دل جلانے والی مسکراہٹ لیے وہ بھرے مجمعے میں ان سے مخاطب ہوا جن کے کندھے کبھی جھکے نہیں تھے
آپ شاہد بھول گئے تھے میں کون ہوں ؟؟؟
تمسخر اڑایا لہجہ
________
کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟؟؟؟
مولوی صاحب کی آواز پر اس نے گھونگھٹ کی آڑ میں چونک کر اپنے دائیں کندھے پر موجود ہاتھ پر دیکھا
وہ ہاتھ اس کی ماں کا تھا جو اسے تسلی دینے کے لیے رکھا گیا تھا بے شک نکاح اس کی مرضی سے ہورہا تھا وہ خوش تھی بلکہ یہ کہنا مناسب تھا کہ مطمئن تھی
مگر جو بھی ہو ان لمحات میں ایموشنل ہونا فطری بات تھی
ق۔قبول ہے
ایک آنسو اس کی نرم و ملائم گال سے پھسل کر تھوڑی سے ہوتے نکاح کے کاغذات پر گڑا
اس کے کندھے پر اس کی ماں کی گرفت بھی مضبوط ہوئی
یقیناً وہ بھی رو رہی ہوں گی
مگر ان کے آنسو بھی خوشی کے ہوگے اپنی بیٹی کے فرض سے سبکدوش ہونے کی خوشی !!!!
لڑکی کی طرف سے نکاح مکمل ہوتے ہی اس کی ماں نے اسے گلے لگایا
ابھی اس کی کزنز اسے مبارک باد دیتیں باہر سے اس کی آتی آواز پر کمرے میں سانپ سونگھ گیا
اور پھر اسے ہر چیز چکراتی نظر آئی
اپنے کانوں میں اپنی دوستوں رشتے داروں کی بہت پہلے کہی گئی آواز سنائیں دیں
کتنے خوش نصیب ہیں ادا سائیں ان کی شادی تم
سے ہورہی ہے ۔۔۔۔۔
میرا زاوی خوش نصیب ہے اس کی قسمت میں
تم ہو ۔۔۔۔۔۔
یاری لالہ اور تمہاری جوری پرفیکٹ ہے ۔۔۔۔۔
تم جیسی نڈر اور بہادر ہی ہمارے شیر پوتے کے
لیے صحیح ہے ۔۔۔۔۔۔
پھر دماغ اور آنکھیں اندھیرے میں کھو گئی
چھوٹی بی بی بے ہوش ہوگئی نورا کی آواز مردان خانے تک گونجی