Meri Har Kami Ko Hai Tu Lazmi by Huria Malik Complete pdf

 


Urdu Nonvillains is a platform for all social media writers. Here you find variety of novels having different plot and concept about life of a human being who faces difficulties in every walk of life. 

Each story has its own moral every story teaches us a new lesson as it contains experience of every human life.

Here you find revenge based, Islamic based, Rude hero, Doctor, Lawyer based with many more exciting tragedies.


Meri Har Kami Ko Hai Tu Lazmi is one of the fabulous novel that get attention by readers after reading it you will love this novel. Download this novel by clicking below the given link.









SNEAK PEAK NO: 1

میں نے نہیں جانا اندر۔۔۔۔میرے کپڑے۔۔۔۔ علیزے نے ڈور کہ پاس پہنچتے بوکھلاتے ہوئے قدم روکے۔۔۔۔۔۔ اور ایک شرمندہ سی نگاہ خود پہ ڈالی( ایسا کب ہو گا کہ یہ سب مجھے سکندر ولا سے لینے آئیں اور میں انسانوں والی ڈریسنگ میں ہوں۔۔۔۔۔) اسنے کراہتے ہوئے دل میں سوچا۔۔۔۔۔۔
شارٹ شرٹ اور ڈریس کی اور پٹیالہ شلوار کسی اور ڈریس کی پہنے وہ گرین اور اورنج کا امتزاج بنی گرے مفلر کو گلے میں لٹکائے وہ آدھے بالوں کو ایک سائیڈ سے کیچر میں جکڑے وہ بلیک چپل پہنے ہوئے کوئی سکول گوئنگ لاپرواہ سی بچی لگ رہی تھی۔۔۔۔
ارے چھوڑیں بھابھی ماں اتنی پیاری لگ رہی ہیں آپ۔۔۔۔۔ معاویہ نے کچھ بھی کہنے سننے کا موقع دیے بغیر اسے گھسیٹتے سب کہ سامنے لے گیا۔۔۔۔۔۔
شآہ مینشن کہ سب افراد یہاں سے سکندر ولا کہ افراد کو ساتھ لیے فارم ہاوس جانے والے تھے جہاں آج اسکا چلہ نہانے اور بچوں کی آمد کا انکے باپ کی موجودگی میں گرینڈ فنکشن ہونا تھا۔۔۔۔
حمین اور زجاح کیساتھ موحد زاویار اور پاپا لوگ فارم ہاوس پہنچ چکے تھے جہاں مہمانوں کی آمد اور تیاریاں جاری تھیں۔۔۔۔۔
اسے دیکھتے ہی مرینہ دانت پیستی آگے بڑھی۔۔۔۔
میں نے آپ کو کہا تھا کہ ریڈی ہو جائیں لیکن آپ یونہی ٹام بوائے بنی پھر رہی ہیں کہاں سے لگ رہا کہ دوبچوں کی اماں ہو آپ۔۔۔۔۔ زچ ہوتے دھیمی آواز میں گھرکا تو وہ روہانسی ہوتی بول اٹھی۔۔۔۔
ابھی میرے زخم میرے اماں ہونے کی نشانی ہیں اور میرے بچے بھی ہیں میرے پاس۔۔۔۔۔ بچوں کو دیکھنے کیلیے اسکی متلاشی نظریں گھومیں جوکہ اب پھوپھپوٶں کی گود میں تھے۔۔۔۔۔
اسکے یوں معصومیت سے کہنے پہ جن کو اسکے الفاظ سنائی دیے سب مسکرا اٹھے۔۔۔۔
وہ ان سے سوری کرتی آگے ہوئی اور سب سے ملنے لگی کہ اب مجبوری تھی۔۔۔۔۔
افففففف بھابھی یو لوکنگ سو کیوٹ۔۔۔۔۔۔۔ مہرو اور تاشے ایک ساتھ بولیں تو معاویہ نے ٹانگ اڑائی۔۔۔۔۔
آہ۔۔۔۔شو ٹیوٹ۔۔۔۔۔ نظر نہ لگانا اور خبردار آج تعریف کا حقدار صرف جے ہے۔۔۔۔۔ انہیں لتاڑتے اسنے جے کو چھیڑا تو اسے دانستا اگنور کرتی علیزے کا دل شدت سے دھڑک اٹھا۔۔۔۔۔۔
تم میری بات میں مت بولا کرو۔۔۔۔ بھابھی آپ سب کو چھوڑیں ادھر آئیں میں آپ کو ریڈی کرتی پھر آپ نے لالے کو سانگ بھی تو سنانا۔۔۔۔۔۔۔ معاویہ کو جواب دیتی وہ علیزے کو تھامتی سب اسکے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔۔۔۔۔۔
خان۔۔۔۔۔۔ اسنے اسکے سینے سے سر اٹھاتے اسے دیکھا جو آنکھیں موندے پڑا تھا۔۔۔۔۔۔
اوں۔۔۔۔۔۔۔ اسنے ہنکارا بھرا تو اسنے نرمی سے اسکے رخسار پہ ہاتھ پھیرتے کہا۔۔۔۔
چینج کر لو نا پھر سو جانا۔۔۔۔۔۔ اسنے اسکا رخسار سہلاتے اسے کہا کہ وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی فارم ہاوس سے سیدھا اپنے گھر آئے تھے اور وہ آتے ہی ٹانگیں نیچے کو لٹکائے بغیر تکیے کہ چت لیٹتا اسے بھی گرا گیا۔۔۔۔۔
اچھا۔۔۔۔ اسنے آنکھیں کھولتے اسکا روشن گلابی چہرہ دیکھا جو اسکی زندگی کا اثاثہ تھا۔۔۔۔
کیا دیکھ رہے ہو۔۔۔۔۔؟؟ اسنے اسکے نظروں پہ جھینپتے ہوئے کہا تو اسنے مسکراتے ہوئے ایک بازو فولڈ کرتے سر کہ نیچے رکھتے مسکرا کہ اسے دیکھا اور نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔۔
دبیر ایک بات پوچھوں۔۔۔۔؟؟ اسنے سنجیدگی سے کہا تو وہ چونکا کہ وہ دبیر تب ہی کہتی تھی جب بات ضروری ہو۔۔۔۔۔
ہاں ضرور۔۔۔۔ اسنے مسکرا کہ کہا۔۔۔۔
تم۔۔تمہیں برا نہیں لگتا کہ لالے ابھی بھی تمہیں اپنے کام کہتے اور تم یوں ادھر رہتے اور باقی۔۔۔۔۔۔ وہ الجھن سے کہتی بات ادھوری چھوڑی چپ کر گئی تو اسنے گہرا سانس بھرتے اسے دیکھا وہ اسکی بات اور کیفیت سمجھ چکا تھا۔۔۔۔۔ اسی لیے وہ سیدھا بیٹھتا اسکا چہرہ ہاتھوں میں تھام گیا۔۔۔۔۔
تمہیں ایسا کیوں لگا کہ میں ایسا فیل کر سکتا۔۔۔۔ یار میں سر کو سر اس لیے نہیں کہتا کہ وہ میرے باس ہیں میں انہیں اسلیے کہتا کہ میں ان سے انسپائر ہوں انہوں نے ایمان و وطن اور رشتوں کی جنگ میں ایمان و وطن کو چنتے ہوئے مجھے خرید لیا تھا۔۔۔۔۔
اور تمہیں یہ کیسے لگا کہ میں بے مقصد ادھر رہتا۔۔۔میں سر کہ آفس میں جاب کرتا ہوں ہائبرنیشن پیریڈ کہ دوران اور ویسے تمہیں ہمارا کام پتا اور مجھے سر اس کا معاوضہ میری صلاحیت کی بناء پہ دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اور مینشن پہ میں پاپا کا بیٹا بن کہ رہتا کہ سر کہ پاپا نے اپنی پراپرٹی میں سے دس پرسینٹ میرے نام کیے ہیں جسکا علم سب کو ہے۔۔۔۔۔۔۔ اسنے نرمی سے اسے سمجھایا۔۔۔۔
لیکن تم اب کیوں سر کہتے ہو۔۔۔۔،؟؟ وہ الجھن کا شکار تھی یا شاید کمپلیکس کا کہ وہ سب کہ سامنے بھی اسے سر ہی
کہتا تھا۔۔۔۔۔
میں جانتا ہوں مہر کہ اب ہمارا رشتہ بدل چکا لیکن تم یہ بھی جانتی ہو میں اس شادی سے پہلے بھی سب کو رشتوں کہ حساب سے پکارتا تھا ماسوائے سر اور بھابھی میم کو۔۔۔۔۔
لیکن مہر میں انکو چاہ کہ بھی بھائی نہیں بلا سکتا مجھ سے بلایا جائے گا ہی نہیں۔۔۔۔۔ مجھے اس دنیا میں سر اور بھابھی میم سب سے زیادہ معزز اور عزیز ہیں۔۔۔۔ تم کبھی بھی اس بات کو لے کہ پریشان مت ہونا کہ میں اس فیملی کا بیٹا ہوں اور مجھے فخر ہے کہ مجھے صحیح معنوں میں بیٹا سمجھا گیا ہے۔۔۔۔۔ اسکی آنکھوں میں دیکھتے اسنے ہر بات کلیئر کی۔۔۔۔۔۔۔
لیکن کیا سب جانتے کہ لالے نے مرڈر۔۔۔۔۔۔ اسنے جھجھکتے ہوئے بات ادھوری چھوڑی۔۔۔۔۔۔
مہر کچھ چیزوں پہ پردہ رہنا بہت ضروری ہوتا کہ اگر ایک چیز سے پردہ اٹھے تو بہت سی چیزیں بھی آشکار کرنا پڑتی ہیں۔۔۔۔ اگر یہ بتایا گیا کہ سر نے مرڈر کیے ہیں تو یہ بھی بتانا پڑے گا کہ کس کہ کیے اور جو نام سامنے آئے گا وہ کوئی بھی برداشت نہیں کر سکے گا کہ نوجوان ہارٹی میں کوئی بھی نہیں جانتا کہ سر کی مدر کیوں چھوڑ کہ گئیں تھیں۔۔۔۔
لیکن میڈیا۔۔۔؟ وہ آج زہہن کی ساری گرہیں کھولنا چاہتی تھی۔۔۔۔۔
میڈیا میں یہ بتایا جا چکا کہ سر نے واقعی مرڈر کیے لیکن کس کہ کیے یہ نہیں بتایا گیا نہ کبھی بتایا جائیگا اور یہ مرڈر کیوں کیے گئے اسے چیف صاحب کلئیر کر چکے۔۔۔۔۔۔۔
پپا جانتے کہ۔۔۔۔۔؟؟ اسنے جہان کہ پاپا کا پوچھا۔۔۔۔۔
جی معاویہ، پاپا اور دادو بیگم جانتے ساری سچائی کو۔۔۔۔۔ اسنے سنجیدگی سے بتایا۔۔۔۔۔
اور کوئی سوال۔۔۔۔؟ اسنے اسکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا تو وہ جھیپتی نفی میں سر ہلاگئی۔۔۔۔
وہ میری دوست ہے نا زاریہ وہ کہتی کہ تمہارا شوہر تمہارے بھائی کو سر کیوں کہتا۔۔۔۔؟؟ وہ اسکے کندھے پہ سر رکھتے معصومیت سے بولتی گویا اپنے سوالوں کی وضاحت دے رہی تھی۔۔۔۔۔
وہ ابھی تک یونہی پنک پارٹی ویئرمیں ملبوس تھی۔۔۔۔
تو اسے کہنا تھا کہ میرا بھائی میرے شوہر کو ٹیوشن دیتا۔۔۔۔۔
اسنے ماحول بدلنے جو اسے چھیڑا تو اسنے سر اٹھاتے اسے اپنے پرانے سٹائل میں گھورا۔۔۔۔۔
تم نے آج میری تعریف بھی نہیں کی۔۔۔۔۔؟ منہ بسورتے ایک اور شکایت آئی۔۔۔۔۔
تو اسکی نگاہوں میں خمار سا اترنے لگا وہ جو خود پہ کنٹرول کیے بیٹھا تھا ضبط کھو گیا۔۔۔۔
ایکچوئلی یار میں لفظوں سے نہیں عمل سے بتانا چاہتا تھا کہ تم کیسی لگ رہی اسلیے ادھر نہیں کی کہ تم آکورڈ فیل کرتی۔۔۔۔۔ اسے سنجیدگی و شرارت سے کہتے کچھ سمجھنے کا موقع دیے بغیر وہ اسکے چہرے پہ جھکا اور اسکی سانسوں میں اپنی سانسیں اتارنے لگا۔۔۔۔۔
اسکا انداز اسقدر شدت لیے ہوئے تھا کہ اسکی سانسیں الجھنے لگی اور اسے واقعتاً محسوس ہوا کہ وہ اسے آج کیسی لگ رہی تھی۔۔۔۔۔
اسنے اسے یونہی بہکتے خود میں کھوئے دیکھا تو اسکی شرٹ کا کالر جھکڑتے گویا پیچھے ہونے کا اشارہ کیا کہ اب اسکی سانسیں اٹکنے لگیں تھیں۔۔۔۔
کچھ دیر بعد وہ ہلکا سا سیدھا ہوا اور اسکے سرخ چہرے اور بھیگے لبوں پہ گہری نگاہ ڈالی جو گہری سانسیں بھرتے اسے گھورنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔۔
اتنی تعریف کافی ہے یا اور کروں۔۔۔۔۔۔ اسے یوں پزل دیکھ کہ اسنے مزید چھیڑا تو اسکا رنگ سرخ قندھاری سیب کی مانند ہو گیا۔۔۔۔۔۔
تت۔۔تم بہت بے شرم ہو۔۔۔۔۔۔ اسنے چہرے پہ ہاتھ پھیرتے اس فسوں خیز لمحے کہ سحر سے نکلنے کی کوشش کرتے اسے دپٹنے والے انداز میں کہا۔۔۔۔۔
اچھا چلو یہ تو بتاو میں کیسا لگ رہا۔۔۔۔۔۔۔اسکی بھاری آواز میں چھلکتی شرارت پہ اسنے لب دباتے مسکراہٹ کا گلا گھونٹا۔۔۔۔
بہت برے. . اسنے گویا اپنی اس شدت بھری تعریف کا بدلہ لیا تھا۔۔۔۔۔
رئیلی مہر دیبر خان ۔۔۔۔۔۔۔ اسنے بھنویں اچکاتے اسکا رخ بدلتے بے یقینی سے پوچھا تو اسکی مسکراہٹ بے قابو ہونے لگی لیکن اسنے منہ بناتے سر اثبات میں ہلایا۔۔۔۔۔۔
تو مطلب تمہیں مجھ میں کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔۔۔۔؟ اسنے صدمے اور غیر یقینی سے پوچھا تو اسنے مسکراتے ہوئے اسکا چہرہ ہاتھوں میں تھامتے مسکراتی آواز میں کہا۔۔۔۔۔
لگتا ہے نا اچھا۔۔۔۔ مجھے یہ آنکھیں اچھی لگتی ہیں جو مجھے دیکھتی ہیں تو مجھے لگتا ہے کہ میں خوبصورت ہوں۔۔۔۔مجھے یہ ہونٹ اچھے لگتے کہ جب یہ بولتے ہیں مسکراتے تو مجھے لگتا کہ یہ دنیا خوبصورت ہے۔۔۔مجھے یہ چہرا اچھا لگتا جسے روز دیکھتے مجھے لگتا کہ میں خوش قسمت ہوں۔۔۔ اسکے نقوش کو چھوتی وہ اچھوتے الفاظ میں بولتی جا رہی تھی۔۔۔۔
مجھے یہ دل اچھا لگتا جو میرے لیے دھڑکتے مجھے احساس دلاتا کہ میں خاص ہوں۔۔۔۔ اسنے اسکے کشادہ کسرتی سینے پہ لب رکھتے مدہوشی سے کہا۔۔۔۔۔ اور وہ ساکت سا اسکے امرت زدہ الفاظ کو جذب کرتا جا رہا تھا۔۔۔
مجھے پورا دبیر خان پیارا لگتا جو مہرماہ دبیر کو اس فخر میں مبتلا کرتا کہ وہ کسی کیلیے بہت خاص ہے کسی نے اسے دعاوں میں مانگا ہے۔۔۔۔۔۔ ۔ دھیرے سے کہتی وہ اسکے ماتھے پہ نرمی سے لب رکھتی خود کو اسکے سینے میں چھپاتی اپنی بے قابو دھڑکنوں کو سنبھالنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔
تھینک یو میری جان اس خوبصورت احساس کیلیے۔۔۔۔۔ اسے خود میں بھینچتے اسنے جذبات سے چور پرشدت آواز میں کہا۔۔۔۔۔۔
نجانے وہ کب تک اسے یونہی اپنے حصار میں مقید کیے محسوس کرتا رہا جب وہ ہولے سے کسمساتی بولی۔۔۔۔۔۔
خان گھر میں کتنی خاموشی ہے نا اکیلا اکیلا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟ اسنے اس کیفیت سے نکلنے کو اس پرفسوں ماحول کی خاموشی کو محسوس کرتے کہا کہ اسکی نگاہوں سے چھلکتے منہ زور تقاضے اسے بوکھلا رہے تھے۔۔۔۔۔۔
ہاں خاموشی تو ہے اسلیے میں چاہتا کہ کچھ ایسا ہو جائے جیسا میری ماما کی موجودگی میں پررونق ماحول تھا۔۔۔۔۔۔۔ اسنے اسے گھیرے میں لیے سنجیدگی سے کہا تو اسنے اسے دیکھنے کی کوشش کرتے بے ساختہ پوچھا۔۔۔
کیا۔۔۔؟؟
میں چاہتا ہوں ویسا ماحول ہو جب ماما پاپا کیساتھ ہم تینوں بہن بھائی کھیلتے تھے۔۔۔۔۔جب میں چلنے لگتا تو میرے گرنے کہ ڈر سے مجھے جب ماما تھامتی تھیں میں چاہتا کہ وہ ممتا بھرا روپ میں آپ میں دیکھوں۔۔۔۔۔ اسکے سلگتے سنجیدہ لہجے میں پنپتے جذبے اور خواہش نے اسکے لبوں پہ فطری حیا و شرم کا تالا لگا دیا۔۔۔۔۔۔
تو پھر کیا خیال ہے۔۔۔کریں اس اکیلے پن کا حل تلاش۔۔۔۔۔۔؟؟ اسنے جھکتے ہوئے اسکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے زومعنی انداز میں کہا تو اسکا دل سینے پہ ہچکولے کھانے لگا اور رنگت دہکنے لگی۔۔۔
مم۔۔۔میں چینج۔۔۔سونے لگی۔۔۔۔۔ وہ بے ربط سا بولتی اسکے حصار سے نکلنے کو تھی جب وہ نرمی سے اسے تھامتے خود پہ جھکا چکا تھا۔۔۔۔۔۔
اونہوں۔۔۔۔۔ابھی نہیں چینج کرنا کہ میں نے ابھی تفصیل سے بتانا کہ آج تم کتنی خوبصورت لگ رہی۔۔۔۔۔ بھاری خمار آلود لہجے میں کہتا وہ اسکی دھڑکنیں بکھرا گیا۔۔۔۔
نہیں خان مم۔۔میں نہیں سننا چچ۔۔چھوڑو۔۔۔۔میں۔۔میں تمہارا سر . اسکی بات پہ اسکے اوسان خطا ہوئے اور وہ الٹا سیدھا بولتی مزاحمت پہ اترتی اپنی پرانی دھمکی پہ آئی۔۔۔۔
لیکن اسکی پرزور شدت بھری گرفت میں اسکی بے زور سی مزاحمت اور الفاظ دم توڑ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔







SNEAK PEAK NO: 2

کب آئے تم۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟ اسنے فورا پوچھا دل ایک دم دھڑکنے لگا۔۔۔۔۔۔۔
دن ٹائم۔۔۔۔۔۔ وہ بھرپور انداز میں مسکرایا۔۔۔۔۔۔۔
تو ۔۔۔۔ تو وہ تم تھے جس نے ج۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بے ساختہ حیرت سے چلاتی جھجھک کہ رکی۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکا دل دھڑک رہا تھا اسے بے ساختہ اپنے بکھرے بال اور الجھا سراپا یاد آیا۔۔۔۔۔۔۔۔
تت۔۔۔۔تم نے میری نیند کا فائدہ اٹھایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شرم سے ٹوٹتی آواز میں بمشکل وہ بولی۔۔۔۔۔
زیادہ نہیں بس تھوڑا سا کہ سفر پہ جا رہا تھا کچھ حاصل و محصول بھی تو چاہیے تھا۔۔۔۔۔۔۔ وہ شرارتا بولا۔۔۔۔۔
دبیر خان یہ کنفرم ہو چکا ہے کہ تم نے کسی دن میرے ہاتھوں ہی گنجے ہونا ہے۔۔۔۔۔۔۔وہ دانت کچکچاتے بولی۔۔۔۔۔۔۔۔
مہرو بی بی سوچ لیں سہیلیاں ہنسیں گیں کہ شوہر گنجا ہے۔۔۔۔۔۔۔ اسنے شرارت سے اسے اسکی بہت پہلے کہ بات کا حوالہ دیا تو وہ جھینپ گئی۔۔۔۔
آسیہ پھوپھو میں تو گھنے بالوں والے لڑکے سے شادی کروں گی ورنہ دوستیں کہیں گی کہ کس گنجے سے شادی کر لی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پندرہ سالہ مہرو نے جب یہ بات ان سے کہی تو سب ہی وہاں موجود تھے اورتب سے اب تک اسکا ریکاڈ لگتا تھا اس بات پہ۔۔۔۔۔۔
اسی لیے خان نے بھی ابھی اسے اس بات کا حوالہ دیتے جھیپنے پہ مجبور کر دیا۔۔۔۔۔۔
اور پھر بچے بھی کہیں گہ کہ انکا بابا گنجا ہے۔۔۔۔۔۔ اسنے شرارت سے اسے چھیڑا تو اسکا چہرہ خون چھلکانے لگا اور بے ساختہ اسے ٹوک گئی۔۔۔۔۔۔
دبیر پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حجاب کی دبیز چادر نے اس وقت اسے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔۔۔۔۔۔
دبیر کی جان۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکی جذبات سے چور آواز گونجی تو فون اسکے ہاتھ میں لرزا۔۔۔۔۔۔
یہ اسے آج کیا ہوا تھا کیوں وہ اتنا بے باک ہو رہا تھا۔۔۔۔وہ سوچتی بات پلٹنے کو بولی۔۔۔۔۔۔۔
تم نے مجھے آج دیکھا بھی نہیں میں اتنا تیار ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔ منہ بسورتے کہتے وہ وہی پرانی مہرماہ بن گئی۔۔۔۔۔۔
اسنے اپنی بات کے جواب میں حیرت سے بند ہوتے موبائل کو دیکھا اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ سوچتی ویڈیو کال آنے پہ اسکے ہاتھ سے موبائل چھوٹتے چھوٹتے بچا۔۔۔۔۔۔
اسنے دھڑکتے دل کے ساتھ کال پک کی اور آنکھیں جھکا گئی کہ اسے ایسے دیکھنا مشکل تھا۔۔۔۔۔
کافی دیر کی خاموشی سے گھبراتی وہ نگاہیں اٹھا گئی اور ایک موبائل کی سکرین پہ ڈالی تو اسکی آنکھوں میں جزبات کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا اور وہ یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکی نگاہوں کی پرزور لپک پہ وہ گھبراتی کہہ اٹھی۔۔۔۔۔۔
م۔۔۔۔۔مجھے لگتا آج تم نشے میں ہو۔۔۔۔ اسلیے ہوش میں آٶ پھر بات کرتی۔۔۔۔۔۔ کانپتے ہاتھوں سے کال کٹ کرتے وہ تکیے میں چہرہ چھپاتی گویا چہرے پہ بکھرے رنگ چھپانے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچی ڈوریوں ڈوریوں سے مینوں تو باندھ لے
پکی یاریوں یاریوں میں ہوندے نہ فاصلے۔۔۔۔۔
اے ناراضگی کاغزی ساری تیری
میرے سوہنیا سن لے میری
دل دیاں گلاں کراں گے نال نال بے کہ
اکھ نال اکھ نوں ملا کہ۔۔۔۔۔
دل دیاں گلاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل دیاں گلاں کراں گہ روز روز بے کہ
سچیاں محبتاں نبھاہ کہ
دل دیاں گلاں کراں گے نال نال بے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکھ نال اکھ نوں ملا کہ دل دیاں گلاں۔۔۔۔۔
تینوں لکھاں توں چھپا کہ رکھاں
اکھان تے سجا کہ رکھاں
تو اے میری وفا رکھ اپنا بنا کہ
میں تیرے لیاں لیاں یارا
نة پاویں کدی دوریاں۔۔۔۔۔۔۔
میں جینا ہاں تیرا، تو جینا ہے میرا
دس لینا کی نخرہ دکھا کہ۔۔۔۔۔
دل دیاں گلاں کراں گے نال نال بے کہ۔۔۔۔
اکھ نال اکھ نوں ملا کہ۔۔۔۔۔۔ دل دیاں گلاں۔۔۔۔۔
راتاں کالیاں کالیاں کالیاں نے۔۔۔۔میرے دن سانولے۔۔
میرے ہانیا، ہانیاں، ہانیاں جے لگے تو نا گلے۔۔۔۔۔۔
میرا آسماں موسماں دی نا سنے، کوئی خواب ناں پورا بنے۔۔۔۔۔
دل دیاں گلاں کراں گے نال نال بے کہ۔۔۔۔۔
اکھ نال اکھ نوں ملا کہ۔۔۔۔دل دیاں گلاں۔۔۔۔۔۔۔۔
ُتہ ہے مینوں کیوں چھپا کہ دیکھے تو
میرے نام سے نام ملا کہ۔۔۔۔دل دیاں گلاں۔۔۔۔۔۔۔
سرخ چہرے اور لبوں پہ الوہی سا تبسم لیے ، آنکھوں میں خیرہ کن چمک لیے اسکی گھمبیر آواز سنے جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔
اسکے چہرے پہ اس وقت اسکی محبتوں کے اتنے حسین رنگ پھیلے ہوئے تھے کہ اگر اس وقت وہ اسکے سامنے ہوتا تو ضرور حواس کھو بیٹھتا۔۔۔۔۔۔
وہ مسلسل رپیٹ کر کہ سنتی جا رہی تھی۔۔۔ اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے آج پھر سے جہان نے اسے نئے سرے سے اظہار محبت کیا ہو اور عشق کی رمزوں سے متعارف کروایا ہو۔۔۔۔۔۔۔
وہ نجانے کب تک ان خیالوں میں کھوئی رہتی کہ موبائل کی رنگ ٹیوں پہ چونکتی اسکی سکرین پہ نظر ڈال گئی۔۔۔۔۔۔
اسکا دل شدت سے دھڑکا۔۔۔۔۔۔۔"لائف لائن کالنگ" کا بلنگ کرتا نمبر سکا دل دھڑکانے کا باعث بنا تھا۔۔۔۔۔۔ ٙ
اسکی اسلام آباد ملاقات کے دوران ہی پہلی دفعہ اسکا نمبر لیتے دیتے ہوِے جہان نے اسی وقت ہی اسکے موبائل میں اپنا نمبر لائف لائن کے نام سے سیو کیا تھا جو تب سے اب تک موجود تھا۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ۔۔۔جہان اسپیکنگ۔۔۔۔۔ سنجیدہ بھاری لہجہ گونجا۔۔۔۔۔۔۔
وعلیکم السلام ۔۔۔وہ ہولے سے بولی۔۔۔۔۔۔۔
کیسا گزرا فنکشن۔۔۔۔؟؟ اسنے بات کا آغاز کیا۔۔۔۔
بہت اچھا۔۔۔۔۔۔ اسنے مسکراتے جواب دیا۔۔۔۔۔۔۔
مجھے یاد کیا۔۔۔۔۔۔۔؟؟ اسکے پرحدت لہجے پہ اسکا دل ایک دم سکڑا۔۔۔۔۔۔
بلکل بھی نہیں۔۔۔۔۔۔ اسنے شرارت سے لب دانتوں میں دباتے
جواب دیا۔۔۔۔۔۔
رئیلی۔۔۔۔۔۔۔ اسنے ابرو اچکاتے مخصوص انداز میں پوچھا۔۔۔۔۔
بلکل۔۔۔۔۔ اسنے شرارت کو جاری رکھا۔۔۔۔۔۔۔
ہاں ویسے وہ نظر آ رہا تھا بہت خوشی سے ڈانس بھی ہو رہاتھا بھائیوں کیساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ نجانے طنز تھا یا بات برائے بات۔۔۔۔۔۔
ہاں بلکل جیسے آپ کیساتھ تو کبھی ڈانس نہیں کیا میں نے
۔۔۔۔؟؟ اسکے برجستہ جواب پہ وہ محظوظ ہوا۔۔۔۔۔۔۔
جو شاید اسکی بے پناہ محبت اور اعتماد کی بدولت تھا اور ابھی وہ اسکی دوری سے گھبرائی اسکی موجودگی کو محسوس کرنے کو بولتی جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے آپ ڈانس کہتی ہیں۔۔۔۔۔۔؟؟ اسنے اسے وہ منظر یاد دلاتے پوچھا تو وہ ہلکا سا جھینپی۔۔۔۔۔۔۔۔
تھا تو ڈانس نا۔۔۔۔۔۔۔۔وہ زور دیتے بولی۔۔۔۔۔۔۔۔
چلیں مسز اس دفعہ آپکو بتائیں گے کہ ڈانس کسے کہتے۔۔۔۔۔۔؟؟ اسنے زومعنی انداز میں کہا تو اسکا بدن سنسنا اٹھا۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بات کا اثر زائل کرنے کو بولی۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے یاد کیا مجھے۔۔۔۔۔۔؟؟ وہ جھجھکتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔
نہیں بلکل بھی نہیں میں زرا فری نہیں کہ ٹھیک سے مس کر پاتا ابھی بھی کیتھی کیساتھ ڈنر پہ جانے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ اسنے خطرناک سنجیدگی سے کہا تو بھک سے سیدھی ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبردار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ زور سے بولی
خبردار۔۔۔۔۔۔۔ اسنے تنبیہا کہا تو اسنے بھنویں سکیڑ کہ موبائل کو ایک نظر دیکھا۔۔۔۔
مجھے جیلس کرنے کیلیے بھی آپ نے کسی کیتھی کا نام لیا تو میں نے جان کو آ جانا۔۔۔۔۔۔ اسنے معصوم سی دھمکی دی۔۔۔۔۔۔۔
آہم آہم۔۔۔۔۔۔ اسنے چونک کہ موبائل کو دیکھا کہ آواز ادھر سے بلکل نہیں آ رہی تھی۔۔۔اسنے گڑبڑاتے پیچھے دیکھا تو معاویہ دانت نکالتا دروازے میں سر دیے کھڑا تھا۔۔۔۔
آپ ادھر کیا کر رہے۔۔۔۔۔۔؟؟ اسنے پزل ہوتے اسے پوچھا۔۔۔۔
میں یہ چیک کرنے آیا تھا آپ جے سے رومینس کیسے کرتی ہیں مگر آپ تو ادھر دبنگ 3 کی ڈبنگ کر رہی ہیں۔۔۔۔۔ اسنے شرارت سے کہا تو اسنے بمشکل مسکراہٹ ضبط کرتے آنکھیں نکالتے اسے دیکھا۔۔۔۔۔۔
ویسے بھابھو جس انداز میں آپ بولتی ہیں اس انداز میں آپکی ڈانٹ بھی امرت لگے گی ۔۔۔۔ اسنے آنکھیں پٹپٹاتے کہا تو اسکے انداز پہ وہ بے ساختہ کھلکھلاتے ہنس دی۔۔۔۔۔
اس بات سے بے خبر کہ اسکے یہ کھلکھلاتے انداز دور بیٹھے اس شخص کو اتنی ٹینشن میں بھی سکون پہنچا رہے تھے۔۔۔اسکیلیے وہ زخموں پہ مرہم کی مانند تھی وہ آواز۔۔۔۔۔۔
اور جس شخص کہ ساتھ آپ لگیں ہیں اسے تو آپ کچھ بھی کہہ لیں وہ تو آبِ حیات سمجھتے ہوئے گٹاگٹ انہیں پی کہ ہضم کر جائے گا۔۔۔۔۔ شرارت کو طوالت دیتے اسنے مزید کہا تو اسکا رنگ شرم سے سرخ پڑنے لگا۔۔۔۔۔
معاویہ بھائی۔۔۔۔۔۔ اسنے ناراضگی سے دیکھتے اسے پکارا لیکن وہ اس لمحے اپنے بجتے موبائل کیطرف متوجہ تھا۔۔۔۔
لیکن موبائل دیکھنے کے بعد اسنے یوں منہ بنایا گویا کڑوا بادام چبا لیا ہو۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا۔۔۔۔۔۔؟؟ اسنے اسکے تاثرات دیکھتے حیرانگی سے پوچھا۔۔۔۔
موبائل ابھی بھی ہاتھ میں تھا جس پہ اسکی کال آن ائیر تھی۔۔۔۔۔
سمجھا لیں اپنے شوہر کو۔۔۔۔۔ وہ شکایتی انداز میں گویا ہوا تو اسکے لبوں پہ شرارتی مسکان کھلنے لگی۔۔۔۔۔
کیا کیا انہوں نے۔۔۔۔۔؟؟ وہ بےساختہ بولی۔۔۔۔
ڈیڑھ منٹ کے اندر اندر میرے بیوی کے کمرے سے نکلو ورنہ آج رات اپنی بیوی کے کمرے سے بھی محروم رہو گے۔۔۔۔۔۔ اسکے بھیجے گئے میسج کو وہ اتنے جلے کٹے انداز میں سنا گیا کہ وہ خود پہ قابو نہ رکھتی منہ پہ ہاتھ رکھتی ہنس دی۔۔۔۔
میرا ائیر پیس دیں وہی لینے آیا تھا۔۔۔ایک تو بیوی سے بات کروائی اور دوسرا احسان فراموشی۔۔۔۔۔۔ وہ بڑبڑاتے ہوئے سائیڈ ٹیبل سے اپنا ائیر پیس اٹھاتا باہر کو بڑھا تو وہ مسکراتے اسے دیکھتی چونکی۔۔۔۔۔
اور ماتھے پہ ہاتھ مارتے موبائل کو دیکھا اور فورا کان سے لگایا۔۔۔۔۔۔۔
کیا کر رہے۔۔۔۔۔؟؟ اسنے دھیمے لہجے میں کہا۔۔۔۔۔
کیتھی کا ویٹ۔۔۔۔۔ وہی بات پھر سے، وہ کراہ کہ رہ گئی۔۔۔
یہ کیتھی ہے کون اور یہ کونسا کام ہے جس میں آپکو یہ کیتھی مل گئی ڈنر کیلیے۔۔۔۔۔۔؟؟ اسنے تیکھے لہجے میں پوچھا۔۔۔۔
نا محسوس انداز میں اسکے لہجے میں بیویوں والا مان بول رہا تھا جس سے وہ خود بھی بے خبر تھی۔۔۔۔۔
لڑکیوں کا کیا ہے کہیں بھی مل جاتیں۔۔۔۔ اسنے بے پرواہ لہجے میں جواب دیا تو اسکا دل نا چاہتے ہوئے بھی کڑھا۔۔۔۔۔۔
جہان حیدر شاہ۔۔۔۔۔کیتھی کو بھول جائیے وگرنہ میں نے بہت برا کرنا ۔۔۔۔۔۔ اسنے پھر سے دھمکی دی۔۔۔
لیکن مقابل بھی حیدر شاہ تھا جسے ڈرانا ناممکن سی بات تھی۔۔۔۔۔
کیا برا کرنا چاہتی ہیں آپ۔۔۔۔؟؟ اسنے محظوظ ہوتے پوچھا۔۔۔۔
مم۔۔۔میں نے آپکے بابا کو بتانا کہ آپ کام کرنے نہیں ڈیٹنگ کیلیے باہر جاتے، میں کیتھی کو مار ڈالوں گی اور آپکو کبھی اکیلے نہیں جانے دوں گی۔۔۔۔۔۔۔ اسکی دھمکی کے پس منظریات کو سن کے اسکے اندر سے ایک شدت والا قہقہ نکلا جسے وہ بمشکل کنٹرول کر پایا۔۔۔۔۔۔
بابا کو کیا بتائیں گی۔۔۔۔۔؟؟ اسنے لب دبائے پوچھا۔۔۔۔
یہی کہ آپ ہمیں ٹائم دینے کہ بجائے کسی کیتھی کے پیچھے لگے ہیں۔۔۔۔۔ اسنے گردن اکڑاتے جواب دیا۔۔۔۔۔
اسے یوں لگا گویا وہ ڈر گیا ہو۔۔۔۔۔۔
آپ کو غصہ کس بات پہ ہے کیتھی کو ٹائم دینے پہ یا خود کو ٹائم نہ دینے پر۔۔۔۔۔۔؟؟ اسنے دلچسپی و سنجیدگی سے سوال کیا۔۔۔۔
وہ بے ساختہ بول اٹھی۔۔۔۔
دونوں پہ۔۔۔۔۔۔ اسنے بولتے ہی لب دانتوں تلے دبائی گویا انہیں سزا دی ہو بے موقع و بے محل بات کرنے پہ۔۔۔۔۔۔۔
رئیلی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟ اسنے عادتا ابرو اچکاتے پوچھا۔۔۔۔۔
وہ شرم سے چہرہ جھکاتی روہانسی ہونے لگی۔۔۔۔۔۔
حیدر پلیز۔ . . . ۔۔۔۔۔اسکا ایسا انداز ہمیشہ اسکی بولتی بند کر دیتا تھا۔۔۔۔۔
آپ واقعی اس کہ ساتھ جا رہے۔۔۔۔۔۔؟؟ اسکا لہجہ اندیشوں سے لرز رہا تھا۔۔۔۔۔
کچھ دن پہلے مہرو نے مجھ سے پوچھا تھا کہ آپکی بیگم آپ پہ شک کرتی ہیں تب مینے کہا تھا نہیں کہ انہیں لگتا کہ میں کچھ بھی کر لوں لیکن کسی کی طرف متوجہ نہیں ہو سکتا۔۔۔۔تو آج یہ اندیشے کیوں علیزے۔۔۔۔۔۔؟؟ اسنے بڑے خوبصورت انداز میں اسکی تسلی کروائی لیکن اسکے سوال پہ وہ شرمندہ سی سر جھکاتی بولی۔۔۔۔۔




Meri Har Kami Ko Hai Tu Lazmi by Huria Malik




If you have any queries regarding downloading let us know by commenting below. After reading this novel also leave your precious comments below and let us know about your thoughts and novel selection which type of novels would you like to read????? and which type you want to be posted here we will try to bring novels according to your choice of selection. Thanks for Reading!!!!!!

Post a Comment

Previous Post Next Post