Tujh Main Basi Hoon Main By AS Rajpoot Last Episode

 


Urdu Nonvillains is a platform for all social media writers. Here you find variety of novels having different plot and concept about life of a human being who faces difficulties in every walk of life. 


Each story has its own moral every story teaches us a new lesson as it contains experience of every human life.


Here you find revenge based, Islamic based, Rude hero, Doctor, Lawyer based with many more exciting tragedies.....


Tujh Main Basi Hoon Main is one of the fabulous novel that get attention by readers after reading it you will love this novel. Download this novel by clicking below the given link.


If you have any queries regarding downloading let us know by commenting below. After reading this novel also leave your precious comments below and let us know about your thoughts and novel selection which type of novels would you like to read????? and which type you want to be posted here we will try to bring novels according to your choice of selection. Thanks for Reading!!!!


Tujh Main Basi Hoon Main By AS Rajpoot  Last Episode


Download


Sneak Peak No 

تم سچ کہہ رہے ہو نا.. شازیل نے آفاق کی بات پر کہا..
ہاں… یقین نہیں تو جاکر دیکھ لو… آفاق نے شازیل کو کندھوں سے پکڑتے ہوئے کہا…
تمہیں پتہ ہے کہ یہ سب کس نے کیا ہے شازیل نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا..
ابھی کچھ نا کہو شازیل اور گاڑی کی سیٹ سے ٹیک لگا لو تمہیں گھر تک جاتے تھوڑا آرام مل جائے گا…
آفاق کے جواب پر شازیل نے حیرت سے آفاق کی طرف دیکھا جو اب بہت سنجیدہ تھا..
تھوڑی دیر میں ہی آفاق گھر آگیا تھا اس نے گاڑی اپنے گھر کے پاس کھڑی کی..
شازیل گاڑی سے نکل کر تبسم بیگم کے گھر کی طرف جانے لگا تھا کہ آفاق نے پیچھے سے آواز دی…
وہ یہاں نہیں ہے.. آفاق کی آواز ان کر شازیل وہی روک گیا..
کیا مطلب کہاں ہے. وہ.. شازیل اب پریشانی سے بولا…
میرے ساتھ چلو.. آفاق نے یہ کہتے ہوئے اپنے گھر کا لاک کھولا.. اور اندر اگیا.. شازیل کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے غزل اور اسکی ماں آفاق کے گھر کیا کر رہی ہے.
لیکن جیسے ہی شازیل اندر آیا اس کے سامنے غزل سر جھکائے ہاتھ پر پٹی بندھے سر پر چوٹ کا نشان لیے بیٹھی تھی…
غزل…. شازیل نے غزل کو دیکھتے ہی کہا..
شازیل کی آواز پر غزل نے فوراً سر اٹھا کر شازیل کی طرف دیکھا اور صوفے سے اٹھ گی تبسم بیگم بھی شازیل کو دیکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی..
غزل یہ تمہارے ساتھ کس نے کیا… شازیل نے آتے ہی غزل کے ہاتھوں کو پکڑتے ہوئے کہا…
شازیل کے یوں پوچھنے پر غزل کی آنکھوں میں آنسو اگے…
آپ کے ساتھ بھی تو یہ سب ہوا ہے نا.. غزل اپنا ہاتھ شازیل کے سر کے قریب لاتے ہوئے روک گی اور اس نے اپنا ہاتھ فوراً نیچے کر لیا…
کیا مطلب.. مجھے کوئی کیوں نہیں بتا رہا کہ یہاں کیا ہوا ہے. شازیل نے. سب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا..
شازیل بیٹا.. جس ڈر سے میں تم دونوں کو میں نے منع کیا تھا وہی ہو گیا.. میں نے کہا تھا کہ اس آگ میں تم دونوں جل سکتے ہو لیکن تم دونوں نے میری بات نہیں مانی اور اب دیکھ لو سب تمہارے سامنے ہے… اس لیے ہم دونوں نے یہ. فیصلہ کیا ہے کہ ہم. لوگ یہاں سے چلے جائیں گئے…
تبسم بیگم کی اس بات پر شازیل نے. غزل کی طرف دیکھا جو سر جھکائے کھڑی تھی..
نہیں… نہیں.. ایسا نہیں ہوسکتا… شازیل کے چہرے پر دکھی مسکراہٹ تھی…
غزل تم ایسا نہیں کر سکتی.. میری طرف دیکھ کر کہو کہ تم کہیں نہیں جارہی.. شازیل نے. غزل کو کندھوں سے پکڑتے ہوئے کہا..
غزل جس کا. دل بند ہو رہا تھا اسکے منہ سے الفاظ نہیں نکل پا رہے تھے اس نے بمشکل شازیل کی طرف دیکھا…
امی. ٹھیک کہہ رہی ہیں شازیل… غزل کی بات کرتے ہوئے آنسو آنکھوں میں ٹھہرے ہوئے تھے…
یہ تمہاری گردن پر… شازیل نے اپنا ہاتھ غزل کی گردن کی طرف لے کر گیا ہی تھا کہ غزل فوراً پیچھے ہٹ گی.
تم مجھے سے کیا چھپا رہی ہو … شازیل نے غصے سے اپنے ہاتھ کی مٹھی بند کرتے ہوئے اپنا ہاتھ نیچے کر لیا..
شازیل کی بات پر غزل خاموش رہی… ہم. دونوں کو اکیلا چھوڑ دیں… غزل کی خاموشی پر. شازیل نے تبسم بیگم کی طرف دیکھا.. آفاق جو پیچھے دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا تھا اس نے تبسم بیگم. کو ڈرائنگ روم سے باہر آنے کا کہا…
آفاق اور تبسم بیگم باہر چلے گئے.. دونوں کے جاتے ہی شازیل نے غزل کی طرف دیکھا..
کیا تم مجھ سے دور جانا چاہتی ہو… میری آنکھوں میں. دیکھ کر بتاؤ.. شازیل غزل کے قریب آیا….
بتاؤ غزل تم مجھ سے دور جانا چاہتی ہو… صبح ہی تو تم نے مجھے کہا تھا کہ تم میرے ساتھ رہنا چاہتی ہو.. اب تم کیوں مجھے چھوڑ کر جانا چاہتی ہو… بولو غزل…
شازیل نے. خاموش کھڑی غزل کو کندھوں سے پکڑتے ہوئے جھنجھوڑا…
ہاں.. میں چاہتی ہوں کہ میں آپ کی سے دور چلی جاؤں.. آپ کی زندگی سے دور چلی جاؤں.. میری اتنی اوقات نہیں ہے کہ میں آپ کی زندگی میں رہ سکوں…
غزل کی. یوں بولنے پر شازیل نے غزل کی طرف دیکھا جس کی آنکھوں میں بےبسی کے سواء کچھ نہیں تھا…
تم یہ نہیں کہہ سکتی… نہیں کہہ سکتی… رکھو اپنے دل ہر ہاتھ اور پوچھو اس سے کیا وہ بھی یہی چاہتا ہے…
شازیل نے غزل کا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسکے دل پر رکھا..
غزل نے فوراً اپنا ہاتھ شازیل کے ہاتھ سے کھینچ لیا…
ٹھیک ہے اگر تم نہیں بتانا چاہتی تو میں ان سے جاکر پوچھ لوں گا جس نے تمہارے ساتھ یہ. سب کیا ہے.. شازیل نے غزل کی خاموشی پر بولا اور جانے کے لیے موڑا… شازیل کی اس بات پر غزل کے دماغ میں اسی آدمی کی بات اگی.. اس سے پہلے شازیل باہر نکلتا غزل بول پڑی..
آپ کو خدا کا واسطہ ہے… یہ نا کریں… مجھے جانے دیں…
میں آپ کے اگے ہاتھ جوڑتی ہوں آپ میری بات کو کیوں نہیں سمجھ رہے.. چلے جائیں.. میری زندگی سے.. غزل نے اپنے کانپتے ہاتھوں کو جوڑتے ہوئے شازیل کے سامنے کیا..
کیا.. کہا تم نے.. چلا جاؤ تمہاری زندگی سے.. تمہارے لیے کہنا کتنا آسان ہے.. شازیل جو جانے کے لیے موڑا ہی تھا غزل کی بات سن کر اس نے اپنے لفظوں کو دبا کر کہا..
ہاں آسان ہے میرے لیے یہ کہنا کیوں کہ مجھے اپنی محبت سے زیادہ آپ کی زندگی عزیز ہے.. اگر اپ نا ہوں گئے تو میں اپنی محبت کو اپنے خالی ہاتھوں میں لیے کیا کروں گی.. اس بار غزل کی آنکھوں سے آنسو کی بارش شروع ہو گی جیسے وہ کب سے دبائے کھڑی تھی..
غزل کی بات سن کر شازیل غزل کے قریب آیا اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے غزل کو بازوں سے پکڑا.. گرفت اتنی مضبوط تھی کہ غزل سمٹ گی..
جیسے تم آسان کہہ رہی ہو نا وہ میرے لیے کسی موت سے کم نہیں ہے تمہیں اپنے سے الگ کرنا اپنے جسم سے روح کو الگ کرنا ہے کیونکہ تم میرے اندر بسی ہو ہر سانس میں ہر دل کی دھڑکن میں اور میری زندگی ہی تم ہو.. جس دن میں نے تمہیں چھوڑ دیا تو سمجھ جانا کہ اسی دن یہ شازیل خان اپنی زندگی کی بازی ہار گیا ہے.
شازیل نے. غزل کے بازوں پر اپنے ہاتھوں کی گرفت مضبوط کرتے ہوئے کہا.. جس سے غزل پوری کانپ گی تھی.
اس کے کانوں میں وہی آواز گونج رہی تھی جو وہ تھوڑی دیر پہلے سنی چکی تھی وہ دھمکی اب بھی اس کے کانوں میں سنائی دے رہی تھی .. اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ شازیل کو کیسے سمجھائے کہ اس کا غزل کے ساتھ رہنا کتنا خطرناک ہو سکتا ہے.. وہ اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے شازیل کی آنکھوں میں. دیکھ رہی تھی جہاں اسے صرف اپنے لیے پیار کی شدت کے علاوہ اور کچھ بھی نظر نہیں ارہا تھا .
شازیل میں بھی آپ کو کھونا نہیں چاہتی.. لیکن میں آپ کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی.. نہیں دیکھ سکتی… غزل اب بے جان ہوگی تھی اس کا جسم ڈھیلا پڑ گیا تھا اور وہ شازیل کے ہاتھوں سے پھسلتی ہوئی زمین پر بیٹھ گی تھی…
غزل تم اتنی جلدی کیسے حوصلہ ہار گی ہو.. میں نے. کہا تھا کہ تم میرے ساتھ ہی رہنا چاہیے جو مرضی ہو جائے… شازیل بھی اب غزل کے پاس گھنٹوں کے بل بیٹھ گیا تھا…
وہ آپ کو مار دیں گئے شازیل… غزل نے بےبسی سے کہا…
کون… مجھے مار دے گا.. کس نے تمہیں دھمکی دی ہے.. غزل مجھے ساری بات بتاؤ.. دیکھو میں تمہارے ساتھ ہوں.. میں نے تم سے محبت کی ہے اور شازیل خان کی محبت کو ہوا کا جھونکا نہیں ہے جو ایک لمحہ کے لیے آیا اور گزر گیا..
میں مرتے دم تک اس محبت کو نبھاؤں گا.. تم مجھے سب بتاؤ کیا ہوا تھا. شازیل کی بے لوث محبت اور اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر غزل یہ بھول گی کہ اسے دھمکی کیا دی گی تھی..
غزل نے. شازیل کے پوچھنے پر ساری تفصیل بتا دی. جو صبح ہوا… غزل کی بات مکمل ہوتے ہی شازیل کا چہرہ غصے سے لال ہو رہا تھا اس نے بڑی مشکل سے خود کو نارمل کر کے رکھا ہوا تھا…
تم پریشان مت ہونا میں سب ٹھیک کر دوں گا… تمہیں مجھ پر یقین ہے نا.. شازیل نے غزل کے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا…
شازیل کی بات پر غزل نے مثبت میں سر ہلایا…
بس جو میں کہوں وہی کرنا اور میرا انتظار کرنا اچھا… شازیل نے کہا اور غزل کی گردن پر لگے زخم پرایک نظر ڈالی.. اس سے پہلے کہ شازیل اپنے غصے پر قابو نا رہتا اس نے گہرا سانس لیا اور اٹھ کھڑا ہوا…
شازیل کے اٹھتے ہی غزل نے شازیل کا ہاتھ پکڑا..
میں انتظار کروں گی… غزل کے یہ کہنے پر شازیل نے
غزل کو کندھوں سے پکڑتے ہوئے زمین سے اٹھایا اور صوفے پر بٹھایا…
فکر نا کرو… سب ٹھیک ہو جائے گا… شازیل نے پیار سے غزل کی طرف دیکھا اور جلدی سے باہر کی طرف آگیا..
آفاق اور تبسم بیگم ڈرائنگ روم سے باہر تھے شازیل کو باہر آتے دیکھ کر دونوں نے شازیل کی طرف دیکھا…
آپ کہیں نہیں جا رہی.. میں کچھ دیر میں آتا ہوں.. شازیل نے. تبسم بیگم کو کہا اور باہر کی طرف نکل گیا.. شازیل نے. آفاق کو بولنے کا موقع ہی نہیں دیا…
آنٹی آپ گھر پر رہیں… میں لاک لگا جاؤں گا… میں شازیل کے ساتھ چلتا ہوں پتہ نہیں کیا کر دے… آفاق نے جلدی سے تبسم بیگم کو کہا اور شازیل کے پیچھے بھگا..
اس سے پہلے آفاق گاڑی تک پہنچتا شازیل گاڑی لے کر نکل چکا تھا…
آفاق گاڑی کے پیچھے بھاگا. لیکن شازیل گاڑی کی رفتار تیز کیے نکل گیا تھا..
آفاق نے جلدی سے ٹیکسی منگوائی….

Post a Comment

Previous Post Next Post