Download
Sneak Peak No : 1
آج کس کا سودا ہو رہا ہے.. شازیل کی بات کرتے ہوئے اسکی نظر غزل پر تھی جو سہمی ہوئی کلثوم کے پاس کھڑی تھی…
صاحب وہ ہم آپ کو نہیں بتا سکتے.. یہ کوٹھے کے اصول ہے یہاں ان کو ہی بتایا جاتا ہے جو خریدار ہوں.. لیکن ہم آپ کے لیے آپ کی خدمت کرسکتے ہیں بتائیں آپ کی خدمت میں کیا پیش کیا جائے وہ آپ بتا دیں.. ہم آپ کو ناراض نہیں کریں گے..
گلزار بانو نے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا..
ہمممم.. ٹھیک ہے.. اگر آپ کہہ رہی ہیں کہ آج آپ کا لین دین ہو رہا ہے اور خریدار کو ہی آپ درمیان میں رکھیں گی تو میں بھی ایک سودا کرنا چاہتا ہوں آج..
شازیل کی بات سن کر گلزار بانو چونک گی اس کے ساتھ ہی آفاق حیرت سے شازیل کو دیکھ رہا تھا کہ یہ کیا کرنا چاہ رہا ہے..
کیا مطلب صاحب.. کون سا سودا.. گلزار بانو نے گھبراتے ہوئے کہا..
کیونکہ اس کے سامنے ہی تو چوھدری جبار بیٹھا تھا جو غصے کو دبائے گلزار بانو کی طرف دیکھ رہا تھا..
اس لڑکی کا سودا… شازیل نے غزل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا..
غزل نے جیسے شازیل کے الفاظ سنے اسکی تھوڑی بہت امید بھی جواب دے گی.. اب اس کے ایک نہیں دو خریدار آگے تھے.. اس نے کلثوم کے بازو کو اور مضبوطی سے پکڑ لیا..
میں اس کا سودا کر چکا ہوں… شازیل کی بات پر چوھدری جبار اٹھ کھڑا ہوا..
چوھدری جبار کی بات سن کر شازیل کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ اگی..
اچھا تو یہ سودا ہو رہا تھا آج یہاں.. شازیل نے دھیمی آواز میں کہا اور پھر غزل کی طرف دیکھتے ہوئے دوبارہ چوھدری جبار کو دیکھا.
جو اپنے بھاری بھر کم وجود کے ساتھ شازیل کے سامنے اکر کھڑا ہو گیا تھا .
میرا سودا گلزار بائی سے ہو چکا ہے اس لڑکی کے لیے اور تم یہاں سے چلتے بنو.. اور آیندہ یہاں قدم بھی نا رکھنا.. بس بہت ہو گیا تمہارا یہ ڈرامہ..
چوھدری جبار نے غصے سے شازیل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا..
اور اگر میں نا جاؤں تو.. اور تم کون ہوتے ہو مجھے کہنے والے کہ میں یہاں سے چلا جاؤں.. بولو..
چوھدری جبار کی بات پر شازیل اٹھ کھڑا ہوا..
اب گلزار بانو اپنے ہاتھوں کو پریشانی سے مل رہی تھی وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اسکے کوٹھے پر یہ سب ہو گا..
شازیل کو یوں کھڑا ہوتا دیکھ کر آفاق بھی شازیل کے ساتھ آکر کھڑا ہو گیا..
تم مجھے جانتے نہیں ہو.. میں اس ایرا کا ایم این اے ہوں. اور یہ کوٹھا بھی میرا ہے.. چوھدری جبار نے غصے شازیل کی طرف انگلی کرتے ہوئے کہا..
اچھا ایم این اے ہو تم.. تو پھر یہ بات یاد رکھیں میں آج یہ سودا کر کے ہی جاؤں گا اور لو میں یہی بیٹھ گیا ہوں کر لو جو کرنا ہے..
چوھدری جبار کی بات سن کر شازیل دوبارہ ریلکس ہو کر تحت پر بیٹھ گیا.. شازیل کو ایسے لوگوں کو ڈیل کرنا آتا تھا.. چوھدری جبار کی حیثیت کا پتہ چلتے ہی شازیل نے اپنے دماغ میں پورا پلان بنا لیا..
دیکھیں مسڑ ایم این اے.. آپ کو یہ نہیں پتہ کہ ہم کون ہیں.. تو زیادہ بڑا بننے کی کوشش نا کرو اس کوٹھے پر کوئی ایم این اے یا کوئی آفیسر نہیں ہوتا سب ایک ہی تھالی کو استعمال کرتے ہیں سمجھ اگی..
اس بار آفاق نے چوھدری جبار کی طرف دیکھتے ہوئے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا.. آفاق چوھدری جبار کو مزید غصہ دلانا چاہتا تھا..
اور وہی ہوا آفاق کی بات پر چوھدری جبار مزید غصے میں اگیا..
تم اپنی بکواس بند کرو اور جاؤ یہاں سے چوھدری جبار نے یہ کہتے ہوئے آفاق کا گریبان پکڑ لیا…
شازیل جو تحت پر بیٹھا تھا فوراً اٹھ کر اس نے چوھدری جبار کا بازو پکڑتے ہوئے اس پر اپنی گرفت مضبوط کی اور ایک جھٹکے کے ساتھ چوھدری جبار کے ہاتھ سے آفاق کا گریبان چھڑایا..
یہ تم نے بہت غلط کر دیا ہے.. گریبان پکڑ کر…مسڑ ایم این اے.. اب دیکھ میں تمہارا کرتا کیا ہوں..
یہ کہتے ہوئے شازیل نے زور کا مکا چوھدری جبار کے منہ پر دے مارا..
روک جائیں آپ سب.. یہ کیا کر رہے ہیں.. میرے کوٹھے پر یہ سب نہیں ہو گا… گلزار بانو یہ سب دکھتے ہوئے فوراً بول پڑی.. اب بات بڑھ رہی تھی..
شازیل نے چوھدری جبار کو مکا مار کر اپنا وہ غصہ اتار لیا تھا جو اس نے غزل کا ہاتھ پکڑا تھا… اب وہ کافی سکون محسوس کر رہا تھا..
دیکھو گلزار بائی تم میرے ساتھ یہ سلوک کر رہی ہو ان لوگوں سے مجھے مار پڑوا رہی ہو.. اگر تم نے کچھ نہیں کیا تو اس کا انجام بہت برا ہو گا.. چوھدری جبار نے اپنے ہونٹ کو صاف کرتے ہوئے کہا جہاں اسے مکا پڑنے سے خون نکل رہا تھا..
چوھدری جبار کی ایسی حالت دیکھ کر گلزار بانو نے شازیل کی طرف دیکھا جو اپنے ہاتھ کو دیکھ رہا تھا..
صاحب آپ کون ہیں میں نہیں جانتی لیکن.. یہ سودا ہو چکا ہے اور یہ لڑکی چوھدری صاحب کی ہے.. آپ اس کا سودا نہیں کر سکتے..
گلزار بانو نے بات ختم کرنے کی کوشش کے لیے وضاحت دی..
گلزار بانو کی بات سن کر شازیل نے گلزار بانو کی طرف دیکھا.
کیسا سودا… کیا آپ نہیں جانتی کہ کوٹھے کہ کیا اصول ہوتے ہیں…
جس کے دام زیادہ ہوں گے مال بھی اسی کا ہوتا ہے… چاہیے سودا ہو گیا ہو یا ہونے والا ہو.. شازیل نے وہی الفاظ بولے جو وہ بائیس سال پہلے سن چکا تھا..
شازیل کی بات سن کر اب گلزار بانو کے پاس بات کرنے کے لیے کچھ نہیں رہ گیا تھا.. وہ اب مجبور تھی کیونکہ کوٹھوں پر بات صرف دام کی ہی ہوتی تھی جس نے دام زیادہ لگائے وہی اس لڑکی کا وارث بن جاتا تھا ..
تمہاری اتنی اوقات نہیں ہے کہ تم میرے سے زیادہ دام لگا سکو.. چوھدری جبار نے شازیل کی بات سنتے ہی کہا..
کیا دام لگایا ہے تم نے اس لڑکی کا… شازیل نے جواب میں چوھدری جبار کو کہا..
شازیل اور چوھدری جبار کو یوں اپنا سودا کرتے دیکھ کر غزل جیتے جی مر رہی تھی. وہ ایک انسان ہوتے ہوئے بھی اسکا سودا کسی بھیڑ بکری کی طرح لگایا جا رہا تھا..
. اسے خود سے نفرت اور ان دونوں سے گھن آرہی تھی. جو اسکا سودا کت رہے تھے.. ایک مرد ہو کر ایک عورت کا سودا کر رہے تھے.. مرد تو عورت کی عزت کے نگہبان ہوتے ہیں اور یہ دونوں اسکی عزت کا ہی سودا کر رہے تھے..
غزل کا دل چاہ رہا تھا کہ. وہ خود کو ختم کر لے لیکن وہ بے بس تھی.. اب تو اس کا وجود بھی اسکا نہیں تھا وہ بھی نیلام ہو رہا تھا…
پچاس کروڑ دیا ہے میں نے اس لڑکی کا.. چوھدری جبار نے بڑے فخر سے کہا..
چوھدری جبار کی بات سن کر گلزار بانو نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا.. کیوں کہ چوھدری جبار نے ابھی ایک روپیہ بھی نہیں دیا تھا بس دھمکی ہی دی تھی..
چوھدری جبار کی بات سن کر شازیل نے آفاق کی طرف دیکھا.. جو پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا آفاق کو پتہ چل گیا ےھا کہ شازیل کے دماغ میں کیا چل رہا ہے اس نے شازیل کو آنکھوں سے اشارہ کیا کہ وہ بات کو جاری رکھے..
بس پچیس کروڑ.. شازیل یہ کہتے ہوئے چوھدری جبار کے پاس آیا .
تمہاری اوقات تو بہت چھوٹی ہے کہ تم نے بس پچاس کروڑ لگائے ہیں.. میں پچاس کروڑ لگاتا ہوں.. اب بتاؤ..
شازیل سینے پر ہاتھ باندھے اب چوھدری جبار کی طرف دیکھ رہا تھا..
سو کروڑ کا سن کر گلزار بانو کی تو جیسے لال ٹپک پڑی… اس نے چوھدری جبار کو غصے سے دیکھا..
جو اب کچھ سوچ میں پڑا تھا.. بولو.. اب کتنا لگاتے ہو..
چوھدری جبار کے کچھ نا بولنے پر شازیل دوبارہ بول پڑا..
ارے صاحب یہ کیا بولیں گے.. ہماری طرف سے سودا پکا.. آپ ہمیں پچاس کروڑ دیں اور اس لڑکی کو لے جائیں..
گلزار بانو فوراً بول پڑی..
گلزار بانو کے بولتےہی چوھدری جبار نے غصے سے اس کی طرف دیکھا..
یہ کیا کر رہی ہو گلزار بائی.. تم نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا. تمہیں اس کا جواب دینا ہو گا. تم نے مجھے پھنسا دیا ہے. لیکن یہ بات یاد رکھنا میں بھی چوھدری جبار ہوں اور آج کی رات اس لڑکی کو میں ہی ساتھ لے کر جاؤں گا.. سمجھ اگی..
چوھدری جبار نے غصے سے کہا..
ہاں تو لے جاؤ نا کس نے روکا ہے سو کروڑ دو اور لے جاؤ.. اگر نہیں ہے تو یہاں سے چلے جاؤ.. گلزار بانو کے تیور ہی بدل گے سو کروڑ سن کر..
آفاق نے جب گلزار بانو کی بات سنی تو اسکے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ اگی.. آفاق اور شازیل نے وہ گیم چلی تھی جس میں گلزار بانو آسانی سے آسکتی تھی اور ہوا بھی ایسا تھا..
اب گلزار بانو نے چوھدری جبار کو اپنے کوٹھے سے چلتا کیا.. اور شازیل اور آفاق کے لیے اچھے سے کھانے پینے کا انتظام کرنے کا کہہ دیا..
اب شازیل اور آفاق ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھ رہے تھے… چوھدری جبار کو تو انہوں نے بھگا دیا تھا..
لیکن اب خود یہاں سے کیسے نکلے اور اگر وہ نکل بھی جاتے ہیں تو اور غزل کو کیسے بچائیں یہ دونوں سوچ رہے تھے..
اسی سوچ میں شازیل بھول گیا تھا کہ غزل کب سے کلثوم کے پاس کھڑی تھی..
اس کے کپڑے تبدیل کروائیں.. اور کوئی نارمل سے کپڑے پہنا کر لائیں مجھے یہ فینسی کپڑے پسند نہیں ہیں..
شازیل نے غزل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو غصے سے بھری نظروں سے شازیل اور آفاق کی طرف دیکھ رہی تھی..
شازیل کے کہنے پر گلزار بانو نے کلثوم کا کہا کہ وہ اسے جاکر تیار کر دے.. گلزار بانو اپنی سوچ کے مطابق سمجھ گی تھی کہ شازیل کیا چاہ رہا ہے
گلزار بانو کے کہنے پر کلثوم غزل کو ھال سے باہر لے آئی..
غزل کے باہر آتے ہی تبسم بیگم نے غزل کو فوراً گلے لگا لیا..
میری بچی تو اگی.. شکر ہے تمہیں کچھ نہیں ہوا.. تبسم بیگم نے غزل کا منہ چومتے ہوئے کہا..
آپکی بیٹی کا سودا ہو گیا ہے وہ بیچ دی گی ہے. غزل نے بےبسی کے ساتھ اپنی ماں کو جواب دیا..
کیا مطلب… تبسم بیگم جو خوش ہو رہی تھی یک دم چونک گی..
ہاں امی آپ کی بیٹی کی قسمت میں نیلام ہونا ہی لکھا ہے بس فرق یہ ہوا ہے کہ خریدار بدل گیا ہے… غزل یہ کہتے ہوئے اپنے کمرے طرف چلی گئی..
کلثوم یہ کیا کہہ رہی ہے چوھدری جبار تو چلا گیا تھا نا تو یہ کیا کہہ رہی ہے مجھے بتاؤ.
تبسم بیگم.. تمہاری بیٹی کو اب کسی اور نے خرید لیا ہے اس نے دام زیادہ لگائے اور گلزار بانو نے غزل کو اس کے آگے بیچ دیا..
کلثوم تبسم بیگم کو یہ کہہ کر مایوسی کے ساتھ وہاں سے چلی گئی..
Sneak Peak No : 2
شازیل نے موڑ کر باہر کی طرف دیکھا تو باہر کوئی نہیں تھا گلزار بانو جا چکی تھی. شازیل نے کمرے کا دروازہ بند نہیں کیا. اور سیدھا چلتا ہوا.. بیڈ سے دور رکھی کرسی پر جاکر بیٹھ گیا..
شازیل نے کرسی پر بیٹھتے ہی آفاق کو میسج کیا اور ساری صورتحال معلوم کی..
غزل سر جھکائے بیڈ پر بیھٹی تھی اسکی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ وہ منہ سے ایک لفظ بھی نکال سکے.. آج پہلی بار وہ کسی مرد سے یوں اکیلے میں مل رہی تھی..
لیکن کلثوم کے کہنے کے مطابق اسے شازیل سے بات کرنی تھی.. غزل جیسے ھال سے باہر اگی تھی..اور کلثوم اسکے کپڑے نکال رہی تھی تب ہی کلثوم نے غزل کو سمجھایا تھا کہ جس نے اس کا سودا کیا ہے اس کے دوست کو وہ اچھے سے جانتی ہے. وہ کوئی معمولی لوگ نہیں ہیں..
اگر تم اس لڑکے سے بات کرو گی منت کرو گی تو شاید وہ تمہاری مدد کر سکے گا..
غزل کے دماغ میں ساری باتیں چل رہی تھیں.. اتنے میں شازیل کو آفاق کی کال اگی.. موبائل سائلنٹ پر تھا.. شازیل نے پہلے غزل کی طرف دیکھا جو چپ تھی اور پھر اپنی کرسی سے اٹھا..
شازیل کو یوں اٹھتا دیکھ کر غزل کانپ گی اس کے دماغ میں وسوسے آنا شروع ہوگئے پہلے اس نے خود کو کنٹرول کیا.. اور اپنے آپ کو نارمل کرنے کی کوشش کی.
لیکن جیسے ہی اس کی نظر شازیل کے پاؤں پر پڑی جو اس کی طرف آرہے تھے غزل یک دم بیڈ سے اٹھ گی..
شازیل جو کال کے لیے باہر جانے لگا تھا غزل کو یوں بےچینی سے اٹھتا دیکھ کر وہ وہی روک گیا..
کیا کرنے لگے ہیں آپ…غزل نے شازیل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا..
وہ… میں…تو.. شازیل کو سمجھ نہیں آئی کہ وہ کیا جواب دے.. اس نے بات کرتے ہوئے باہر دروازے کی طرف اشارہ کیا..
غزل کو لگا کہ شاید شازیل کمرے کا دروازہ بند کرنے جا رہا ہے..
میں نے کیا بگاڑا ہے آپ کا جو آپ میرے ساتھ اسطرح کر رہے ہیں کیا یہ میرا قصور ہے کہ میں ایک کوٹھے پر پیدا ہوئی ہوں.. کیا مجھے جینے کا حق نہیں ہے.. بتائیں مجھے.. کیا ملے گا آپ کو مجھے خرید کر..میرے ساتھ یہ سب کرکے.. آپ اپنی حواس کو کہیں اور بھی تو پورا کر سکتے ہیں نا..
غزل کے اندر کا غبار باہر آرہا تھا وہ شازیل پر پھٹ پڑی تھی..
غزل کی بات سن کر شازیل شکڈ میں اگیا.. وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک گھم سم رہنے والی لڑکی کے اندر انتا درد ہے..
دیکھیں آپ مجھے غلط سمجھ رہی ہیں. شازیل نے. وضاحت دینا چاہی..
کیا کہا آپ نے.. میں آپ کو غلط سمجھ رہی ہوں.. آپ نے میرا سودا کیا.. اور اب آپ میرے کمرے میں موجود ہیں.. تو اس کا کیا مطلب ہوا..
غلط تو میں تھی جو یہ سمجھ بیھٹی تھی کہ دنیا میں سارے مرد ایک جیسے نہیں ہوتے.. لیکن مجھے نہیں پتہ تھا.. کہ ان سب کی سیفد پوشی کے پیچھے ایک حیوان چھپا ہوا ہے… جو کسی بھی وقت کسی بھی عورت کو چیڑ پھاڑ کر سکتا یہ جانے بغیر کہ وہ اس کی ہے بھی یا نہیں..
غزل مسلسل بولتی جا رہی تھی اور شازیل ٹکٹکی باندھے اسے دیکھ رہا تھا.. وہ بھول گیا تھا کہ اس کے فون پر آفاق کال پر کال کر رہا تھا..
میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں.. مجھ پر رحم کھائیں.. میں ایسی نہیں ہوں کوٹھے پر پیدا ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ہر کوئی طوائف ہی ہوتی ہے.. غزل کی ہمت اب جواب دے رہی تھی.. وہ صبح سے لے کر رات تک جتنا رو چکی تھی اب اس کے اندر خود کو مضبوط رکھنے کی ہمت ختم ہو رہی تھی.. اس نے آخر تھک ہار کر شازیل کے اگے ہاتھ جوڑ دیے..
غزل کے یوں شازیل کے سامنے ہاتھ جوڑنا شازیل کو بہت برا لگا.. اس نے گہرا سانس لیا اور غزل کی طرف دیکھا..
ٹھیک کہا آپ نے ہر عورت جو کوٹھے پر ہوتی ہے ضروری نہیں کہ وہ طوائف ہی ہو.. اور ایسے ہی ہر مرد جو کوٹھے پر آتا ہے ضروری نہیں کہ وہ اپنی حواس پوری کرنے آتا ہو..
شازیل نے بات کرتے ہوئے غزل کو دیکھا جو ہاتھ جوڑے آنکھوں میں آنسو لیے شازیل کے سامنے کھڑی تھی..
شازیل کی کہی ہوئی بات کا غزل پر کچھ اثر نہیں ہوا اور نا ہی وہ سمجھنا چاہتی تھی اسکا بس ایک مقصد تھا اور وہ تھا خود کو بچانا..
شازیل نے جب دیکھا کہ غزل کچھ بول نہیں رہی وہ اسے وہاں چھوڑ کر دوبارہ باہر کال کرنے کے لیے آگے بڑھا..
شازیل کو یوں دروازے کی جانب جاتا دیکھ کر غزل شازیل کے رستے میں اگی..
میں ایسا نہیں کرنے دوں گی آپ کو.. ہر گز نہیں کرنے دوں گی.. میں اب اپنی جان لے لوں گی.. غزل نے روتے ہوئے کہا..
دیکھیں میں پھر کہہ رہا ہوں آپ غلط سمجھ رہی ہیں میں تو… .
ابھی شازیل نے اپنی بات پوری نہیں کی تھی کہ غزل گھنٹوں کے بل شازیل کے سامنے زمین پر بیٹھ گی اور اسکے ہاتھ جوڑے ہوئے تھے..
میری زندگی برباد ہو جائے گی.. مجھ پر رحم کریں..
غزل کو یوں اپنے قدموں میں گرا دیکھ کر شازیل دو قدم پیچھے ہٹ گیا..
یہ آپ کیا کر رہی ہیں اٹھ جائیں. شازیل نے غزل کو اٹھنےکا کہا لیکن غزل وہی ہاتھ جوڑے بیھٹی رہی..
شازیل نے جب دیکھا کہ غزل نہیں اٹھ رہی وہ ہمت کرکے اگے بڑھا اور غزل کو اٹھانے کے لیے اس نے اپنے ہاتھ اگے کیے.. لیکن اگلے ہی لمحے وہ پیچھے ہٹ گیا..
شازیل کو یہ برداشت نہیں ہو رہا تھا کہ غزل یوں اس سے بھیک مانگے اور وہ غزل کو چھونا بھی نہیں چاہتا تھا..
میں نے کہا نا.. کہ آپ غلط سمجھ رہی ہیں.. اٹھ جائیں بہت ہوگیا اب. کچھ نہیں گا آپ کو..آپ کو میری بات کی سمجھ کیوں نہیں آرہی..
غزل کے نا اٹھنے پر شازیل اب تھوڑا غصے میں اگیا..
اس سے پہلے شازیل غزل کو کچھ اور کہتا باہر سے پولیس کے ہارن کی آواز گونجی..
پولیس کے ہارن کی آواز سن کر غزل نے اپنا چہرہ جو آنسو سے ڈوبا ہوا تھا اوپر اٹھا کر شازیل کی طرف دیکھا..
کہا تھا نا میں نے کہ آپ غلط سمجھ رہی ہیں. اب اٹھ جائیں اور میرے ساتھ چلیں. .
شازیل نے غزل کو یہ کہہ کر دروازے کی طرف مڑا..
غزل کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا ہوا ہے یہ پولیس کیوں آئی ہے.. لیکن اسکے پاس شازیل کے پیچھے جانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا..
غزل نے اپنے آنسو صاف کیے اور شازیل کے پیچھے چل پڑی..