Zulm Had Se Barh Ke Complete Pdf

 


Urdu Nonvillains is a platform for all social media writers. Here you find variety of novels having different plot and concept about life of a human being who faces difficulties in every walk of life. 


Each story has its own moral every story teaches us a new lesson as it contains experience of every human life.


Here you find revenge based, Islamic based, Rude hero, Doctor, Lawyer based with many more exciting tragedies.....


Zulm Had Se Barh Ke is one of the fabulous novel that get attention by readers after reading it you will love this novel. Download this novel by clicking below the given link.


If you have any queries regarding downloading let us know by commenting below. After reading this novel also leave your precious comments below and let us know about your thoughts and novel selection which type of novels would you like to read????? and which type you want to be posted here we will try to bring novels according to your choice of selection. Thanks for Reading!!!!


Zulm Had Se Barh Ke Complete Pdf



Sneak Peak No : 1


چائے بنا کر لاؤ میرے لیے۔۔۔ شاہ نے علیشہ پر حکم صادر کیا۔۔۔ علیشہ شاہ کی آواز پر فوراً کھڑی ہوگئی۔۔۔ وہ دروازے پر ہاتھ رکھ کر واپس مڑی۔۔۔
کیا ہوا۔۔۔۔ علیشہ کو ایسے کھڑے دیکھ کر غصہ سے بولا۔۔۔
آ۔۔۔آپکی مما نے ممم۔۔ مجھے آرام کک کرنے کا کہا ہے۔۔۔
اگر اننن۔۔انھون نے ممم مجھے چچ۔۔ چاۓ بناتے ہوئے دیکھ لیا ۔۔۔ علیشہ ہکلاتی ہوئی بولی۔۔۔
وہ اپنے کمرے میں ہونگی ۔۔۔ تمھاری چوکیداری نہیں کرینگی۔۔۔
جاؤ۔۔۔ جو کہا ہے وہ کرو۔۔۔ زیادہ باتیں مت بناؤ۔۔۔
شاہ چلایا تھا۔۔۔
جج۔۔۔جی۔۔۔ وہ یہ کہہ کر کمرے سے باہر آگئی۔۔۔
سیڑھیاں اتر رہی تھی جب رابعہ اپنے کمرے سے باہر آئ۔۔۔
کیا ہوا بھابھی۔۔؟ کچھ چاہیے تھا آپکو۔۔۔
نہیں۔۔۔ وہ میں اپنے لیے چاۓ بنانے جارہی تھی۔۔
پر بھابھی یہ آپ بانو کو بول دے۔۔۔ بلکہ آپ کمرے میں جاکر آرام کریں میں بول دیتی ہوں۔۔۔
نہیں نہیں میں خود بنالوں گی بس تم مجھے کچن کا بتا دو۔۔۔
وہ جلدی جلدی بولی۔۔۔
بھابھی۔۔۔ ابھی آپکو آرام کی ضرورت ہے ۔۔۔
میں چاۓ بناکر آرام کرلونگی۔۔۔
ٹھیک ہے۔۔۔ جیسے آپکی مرضی۔۔۔
یہاں سے سیدھا جاکر رائٹ سائڈ پر کچن ہے۔۔۔
ٹھیک ہے۔۔۔ وہ جلدی جلدی سے سیڑھیاں اتر کر کچن کی طرف بڑھی۔۔۔
اب وہ کچن میں کھڑی چائے کیسے بناتے ہیں سوچ رہی تھی۔۔
اس نے اپنے گھر میں کبھی کسی کام کو ہاتھ نہیں لگایا تھا۔۔۔
اور نہ ہی اسکی مما نے اسے کچھ کام کا بولا۔۔۔ جو کام ہوتا وہ اسکی مما اور آپی کرلیتے تھے۔۔۔
کیا کروں۔۔۔؟
باجی جی آپکو کچھ چاہیے۔۔۔ بانو اسے کھڑے دیکھ کر بولی۔۔۔
نہیں۔۔۔ ہاں۔۔۔ کیا آپ مجھے بتا سکتی ہو کہ چائے کیسے بنتی ہے؟
آپ ہٹے ۔۔۔ میں بنا دیتی ہوں۔۔۔ بانو نے اسکے پاس آکر کہا۔۔۔
نہیں نہیں۔۔۔ میں بنا لونگی۔۔ بس آپ بتا دو۔۔
ٹھیک ہے۔۔۔۔
تھوڑی دیر میں۔۔۔ علیشہ چائے لے کر کمرے میں جانے لگی۔۔۔
چائے لے کر کمرے میں آئی۔۔۔۔
شاہ نے ایک نظر علیشہ کو دیکھ کر۔۔ طنز کیا۔۔۔
پائے بنا رہی تھی۔۔ جو اتنی دیر ہوئی ہے۔۔۔
علیشہ نے چپ چاپ چائے کا کپ سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔۔۔
کپ رکھ کر علیشہ واپس اپنی جگہ پر جاکر بیٹھ گئ اسے چکر آنے لگ گئے۔۔۔
اتنے میں شاہ کی آواز آئی۔۔۔
ادھر آؤ۔۔۔ علیشہ اٹھ کر اسکے پاس چلی گئی۔۔۔
پہلی دفعہ چائے بنائی ہے۔۔۔ شاہ نے علیشہ سے نرمی سے پوچھا۔
علیشہ نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
تم نے پی۔۔۔ علیشہ نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔
تو یہ تم ہی پی لو۔۔ شاہ نے چائے کا کپ پورا علیشہ کے منہ پر پھینکا۔۔۔ چاۓ گرم ہونے کی وجہ سے علیشہ کا چہرہ جلنے لگا۔۔۔
دفعہ ہوجاؤ۔۔۔ اس سے پہلے میرا دماغ گھومے۔۔۔ شاہ یک دم دھاڑا
علیشہ فوراً واش روم گئ۔۔ پانی اپنے منہ پر پھینکا ۔۔جس سے اسکا چہرہ جلنا کم ہوا۔۔۔
تھوڑی دیر میں وہ باہر آئ تو۔۔۔اسکا دودھ جیسا چہرہ لال ہو رہا تھا۔
شاہ بھی کمرے میں نہیں تھا۔۔۔ وہ چہرے پر ہاتھ رکھ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔۔
اتنے میں رابعہ اور صالحہ بیگم کمرے میں آئی۔۔۔
علیشہ نے فوراً رخ موڑ کر اپنے آنسوؤں کو صاف کیا۔۔۔
علیشہ بیٹا۔۔۔ تم رو رہی ہو۔۔۔ صالحہ بیگم نے علیشہ سے پوچھا۔۔
نہیں نہیں تو۔۔۔ آپ لوگ یہاں۔۔۔؟ علیشہ نے فوراً بات پلٹی۔۔۔
اب اپنی ماں سے چھپاؤ گی۔۔۔ صالحہ بیگم نے علیشہ کے قریب جاکر بولا۔۔۔۔ بیٹا یہ تمھارے چہرے پر کیا ہوا۔۔۔؟
ککک۔۔کچھ نہیں۔۔۔ علیشہ ہڑبڑا کر بولی۔۔۔
بتاؤ بیٹا۔۔۔ کیا ہوا ہے۔۔ مجھے فکر ہو رہی ہے
کچھ نہیں ہوا۔۔ آپ فکر نہیں کریں۔۔۔
شاہ نے کچھ کیا ہے۔۔۔
نہیں نہیں انھوں نے کچھ نہیں کیا۔۔وہ یقین دلاتے ہوئے بولی۔۔۔
مما مجھے لگتا ہے بھائی نے کچھ کیا ہے ۔۔۔۔ پیچھے سے رابعہ بولی۔۔۔
بتاؤ بیٹا کیا کیا ہے شاہ نے۔۔۔ مجھ سے کچھ نہیں چھپاؤ۔۔۔ اب کی بار صالحہ بیگم نے اسکے چہرے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔۔
رابعہ کی بات سن کر علیشہ کی آنکھوں میں آنسوں آگئے۔۔۔
انھوں نے مجھے چائے بنانے کا کہا تھا۔۔۔ گھر میں اتنے ملازم ہونے کے باوجود۔۔۔ صالحہ بیگم نے فوراً کہا۔۔
اچھا تو بھابھی وہ چائے آپ بھائی کے لیے بنانے جارہی تھی۔۔۔
مما میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اپنے لیے بنانے جارہی ہیں۔۔۔ میں نے منع کیا۔۔۔ مگر انہوں نے نہیں سنی۔۔۔
تو بیٹا شاہ نے ہاتھ اٹھایا ہے۔۔؟
علیشہ نے نفی میں سر ہلایا۔۔
پھر۔۔ مجھے چائے نہیں بنانے نہیں آتی۔۔۔ مگر میں نے بانو سے پوچھ کر بنائی تھی۔۔۔ مجھ سے صحیح نہیں بنی تو انہوں نے میرے چہرے پر پھینک دی۔۔۔
آںں ۔۔۔۔ رابعہ حیرت سے منہ کھولے بولی۔۔۔
بیٹا شاہ کا تو دماغ خراب ہوگیا ہے۔۔۔ میں اسکی طرف سے معافی مانگتی ہوں۔۔۔۔
نہیں آنٹی آپ کیوں معافی مانگ رہی ہیں۔۔۔ میں جانتی ہوں۔۔۔وہ ابھی بہت ٹینشن میں ہیں۔۔۔ اس لئے ایسا کیا۔۔۔ ورنہ تو وہ بہت اچھے ہیں۔۔۔ علیشہ نے صاف جھوٹ بولا۔۔۔
ہممم بہت اچھے ہیں نہ۔۔۔۔ اس لیے تو تہہ خانے میں بند کیا تھا۔۔۔
پیچھے سے رابعہ نے طنز کیا۔۔۔
جسے سن کر علیشہ نے نظرے نیچے کرلی۔۔۔
نہیں ایسی بات نہیں ہے۔۔۔ وہ میری ہی غلطی تھی۔۔۔ علیشہ رابعہ کو انکے بھائی سے بدظن نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔ تو فوراً بولی۔۔+
بھابھی بس کردیں۔۔۔ بھائی کی سائیڈ لینا۔۔۔
جیسے ہم تو جانتے نہیں ہے کہ وہ کس دماغ کے آدمی ہیں۔۔۔۔
علیشہ سے شاہ کا سائیڈ لینا۔۔رابعہ کو برداشت نہیں ہوا ۔۔۔
ایسے نہیں بولتے رابعہ۔۔۔ وہ آپکے بھائی ہیں۔۔۔ علیشہ نے رابعہ کو سمجھایا۔۔۔
پر علیشہ بیٹا۔۔۔ وہ بھی تو آپکے ساتھ غلط کررہا ہے۔۔۔ صالحہ بیگم نے علیشہ کو سمجھایا۔۔۔
آنٹی۔۔۔ شاید میرے نصیب میں ہی لکھیں ہو۔۔ یہ سب سہنا۔۔۔
ہممم۔۔صالحہ بیگم بس یہی کہہ سکی۔۔۔
ٹھیک ہے بیٹا۔۔۔ میں تمھارے لئے جیل بھیج دیتی ہوں۔۔۔ اپنے چہرے پر لگا لیں نا۔۔۔۔
جی ۔۔۔ علیشہ مسکرائ تھی۔۔۔
اللہ تمہیں ایسے ہی مسکراتا رکھے۔۔۔ صالحہ بیگم علیشہ کو دعا دے کر واپس چلی گئ۔۔۔
تھوڑی دیر میں بانو جیل لے آئی تھی۔۔۔علیشہ نے بانو سے جیل لے لگانے لگی۔۔۔ باجی جی اور کچھ چاہیے۔۔۔ نہیں علیشہ نے مسکرا کر جواب دیا۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔ اگر آپکو اور کچھ چاہیے تو مجھے بول دیے گا۔۔۔ بڑی باجی نے مجھے سختی سے منع کیا ہے کہ آپ کو نیچے نہیں آنے دیں۔۔۔۔
سہی ہے۔۔۔
علیشہ جیل لگا کر کارپیٹ پر آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر لیٹ گئی۔۔۔
تھوڑی دیر بعد شاہ کمرے میں آیا۔۔۔ علیشہ کو ایسے زمین پر لیٹے دیکھ کر اسے افسوس ہوا۔۔۔ وہ علیشہ کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا۔۔
بہت دلچسپی سے اسکو دیکھنے لگا۔۔۔ وہ سوتے ہوئے بہت معصوم لگ رہی تھی۔۔ معصوم چڑیل۔۔ یک دم شاہ کے منہ سے نکلا۔۔۔
اور وہ علیشہ سے دور ہو کر اپنے آپکو سمجھانے لگا۔۔ شاہ بیٹا اپنے آپ کو سمبھالو۔۔۔
9:00 بجے کا وقت تھا۔۔۔ جب سب ڈائننگ ہال میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔۔۔ جب ہمدان صاحب نے شاہ سے پوچھا۔۔۔
شاہ تم کھانے پر علیشہ کو نہیں لائے۔۔۔ ؟
بابا میں نے اس سے پوچھا نہیں۔۔۔ اگر بھوک لگے گی تو خود آجائے گی۔۔۔ بھوک۔۔ بیٹا اس نے صبح کا سوپ پیا ہوا ہے۔۔۔ صالحہ بیگم نے شاہ کو تیکھی نظروں سے دیکھا۔۔۔
اور بات سنو۔۔ گھر میں اتنے ملازم ہونے کے باوجود تم نے اس معصوم سے چائے بنوائی۔۔۔ اور صحیح نہیں بنی تو اس کے چہرے پر پھینک دی۔۔۔
ہم نے تمھاری یہ تربیت کی ہے۔۔۔؟
مما یہ سب آپکو کس نے بتایا۔۔۔؟
شاہ یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے۔۔ جو پوچھا ہے وہ بتاؤ۔۔۔ اب کی بار صالحہ بیگم فل غصہ ہوکر بولی۔۔۔
دیکھیں مما وہ میری کوئی پسند کی بیوی نہیں ہے جو پیار محبت سے پیش آؤ ۔۔۔ زبردستی کی بیوی ہے ۔۔۔ تو ایسے پیش آرہا ہوں۔
شاہ۔۔ بھلے ہی تمھاری ان حالات میں شادی ہوئی ہے۔۔۔ مگر وہ تمھاری بیوی ہے۔۔ وہ بیچاری تمھارے کرتوت چھپا رہی ہے۔۔۔
اور تمہیں اس کو اذیتیں دے رہے ہو۔۔
مما میں نے اس کے ساتھ ایسا کچھ برا نہیں کیا۔۔۔ جو وہ میرے کرتوت چھپائے گی۔۔۔ اور اب سب بھی اسکے گن گانا بند کردیں۔۔
شاہ یہ کہہ کر کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔
دیکھ رہے ہیں۔۔ ہمدان صاحب۔۔۔ شاہ کو جاتا دیکھ کر صالحہ بیگم ہمدان صاحب سے بولی۔۔۔
میں کیا دیکھوں۔۔ بلکہ آپ دیکھیں۔۔ آپ نے ہی اسکو اتنا سر چڑھایا ہے۔۔ دیکھیں کیسے میرے سامنے ہی آپ کے ساتھ بدتمیزی کر کے گیا ہے۔۔۔ صالحہ بیگم چپ چاپ شرمندہ ہو کر ہمدان صاحب کی بات سن رہی تھی۔۔
شاہ جب کمرے میں آیا تو علیشہ اٹھ گئی تھی۔۔۔
شاہ نے کمرے میں آکر دروازہ اتنی زور سے بند کیا تھا کہ۔۔ علیشہ ڈر گئ۔۔۔ وہ تیز تیز قدم اٹھا کر علیشہ کے پاس پہنچا۔۔۔
شاہ علیشہ کے بازو سے پکڑ دبوچا۔۔۔ تم نے مما کو کیا بتایا ہے۔۔
کہ میں تمھارے اپر بہت ظلم کرتا ہوں ۔۔۔۔ ہاں۔۔
ممم میں نے نہیں بتایا۔۔۔ علیشہ کی آنکھوں میں آنسوؤں آگئے۔۔
ہاں تمھارے بھوتوں نے بتایا ہے۔۔۔ اس نے علیشہ کے بازو پر زور دیا۔۔ جس سے وہ کراہ اٹھی۔۔۔
بتاؤ کیوں بتایا تم نے ۔۔۔ شاہ ڈھاڑا۔۔
میں نے نہیں بتایا انھوں نے چہرے پر نشان دیکھ لیے تھے۔۔۔ علیشہ بری طرح رونے لگی۔۔۔
مجھے جھوٹ بلکل بھی نہیں پسند۔۔۔ اس لئے بتادو۔۔۔ ورنہ تمھارے ساتھ میں کیا کچھ کرسکتا ہوں۔۔۔ یہ تم سوچ بھی نہیں سکتی۔۔۔ شاہ نے غصہ سے چباچبا کر بولا۔۔
میں سچ کہہ رہی ہوں۔۔۔ میں نے انہیں کچھ نہیں بتایا ۔۔۔
یعنی تم نہیں بتاؤ گی۔۔ ٹھیک ہے۔۔ تو آج رات حب میں تمھارے ساتھ زبردستی کرونگا۔۔ اس کے بعد تم جھوٹ بولنے کا سوچو گی بھی نہیں۔۔
یہ سن کر علیشہ کی روح تک کانپ گئی۔۔۔ میں سچ کہہ رہی ہوں۔۔
میں نے نہیں بتایا۔۔ آپ بھلے پوچھ لیں۔۔۔
مجھے اب کچھ بھی نہیں سننا۔۔۔ شاہ یہ کہہ کر کمرے سے نکل گیا
پیچھے علیشہ بری طرح رو رہی تھی۔۔۔ رات کے بارے میں سوچ کر اسکا سانس رک رہا تھا۔۔۔
شاہ جب رات میں کمرے میں آیا تو۔۔۔ اس سے سہی سے چلا نہیں جا رہا تھا لڑکھڑا کر کبھی ادھر گرتا تو کبھی ادھر گرتا۔۔
شاید وہ شراب پی کر آیا تھا۔۔۔
علیشہ اسکے آنے سے پہلے ہی لیٹ گئی تھی۔۔۔ مگر نیند آنکھوں سے کوسوو دور تھی۔۔۔
وہ چپ چاپ چادر میں منہ دیے لیٹی ہوئ تھی۔۔ کہ شاہ نے اسکی چادر بے دردی سے کھینچی۔۔۔
اوہو۔۔۔ محترمہ سونے کی ایکٹنگ کر رہی تھی۔۔۔ اچھا ہے اچھا ہے۔
مگر آج تم کو مجھ سے کوئی نہیں بچائے گا۔۔۔ علیشہ اس کو ایسے دیکھ کر ڈر گئ۔۔۔ آپ۔۔۔آپ پلیز مجھے معاف کردیں آئیندہ کبھی کچھ نہیں بولوں گی۔۔
نہیں بلکل نہیں۔۔ کوئی رعایت نہیں۔۔۔ بس آج تم میری ہو۔۔۔
وہ نشے میں پتا نہیں کیا کیا بول رہا تھا۔۔۔ وہ علیشہ کے بہت قریب کھڑا تھا۔۔ آپ۔۔ آپ نے ڈرنک کی ہے۔۔۔ علیشہ نے ڈرتے ڈرتے بولی
ہاں کی ہے ۔۔۔ اب یہ بات بھی تم مما کو بتانا ۔۔۔ سہی ہے۔۔
شاہ نے علیشہ کو کمر سے پکڑ کر اور قریب کیا۔۔۔
چھوڑیں مجھے۔۔۔ چھوڑیں علیشہ اسکی قربت سے تڑپ رہی تھی۔۔۔۔ میں نے کہا نہ کہ آج تمہیں مجھ سے کوئی نہیں بچائے گا۔ شاہ اپنی نشیلی آواز میں بولا۔۔۔
میں نے کہا چھوڑیں مجھے۔۔۔ علیشہ نے شاہ ایک دم دھکّا دیا۔۔۔
جس سے وہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پایا۔۔ اور بیڈ پر جاکر گرا۔۔
آوارہ لڑکی۔۔۔ تم نے مجھے دھکا دیا۔۔۔ اب دیکھو میں تمھارے ساتھ کیا کرتا ہوں۔۔۔
شاہ نے علیشہ کو اپنے کندھے پر ڈال کر۔۔ بیڈ پر لاکر پھنکا۔۔
پلیز مجھے معاف کردیں۔۔۔ سسس۔۔۔سوری ۔۔ وہ ابھی کہہ رہی تھی کہ شاہ نے اسکے ہونٹوں پر اپنے دھکتے لب رکھ دیے۔۔۔
پوری رات علیشہ اسکی قربت میں بن پانی کی مچھلی کی طرح تڑپتی رہی۔۔۔
صبح جب اٹھی تو۔۔۔ شاہ اسکے بہت قریب لیٹا تھا۔۔ وہ ایک دم جھٹکے سے اٹھی۔۔ اور بیڈ سے بہت دور کھڑی شاہ کو کوسنے لگ گئ۔۔۔ کچھ دیر تو وہ کھڑی شاہ کو کوستی رہی۔۔۔
پھر فریش ہونے کے لیے واش روم میں گھس گئی۔۔۔
تھوڑی دیر بعد ۔۔۔ شیشے کے پاس کھڑی بال سکھا رہی تھی۔۔۔
بال سکھانے کے بعد۔۔۔ شاہ کے دو سوٹ استری کرنے لگی۔۔
دل تو چاہ رہا ہے کے دونوں کے دونوں سوٹ جلادوں۔۔ وہ کاٹن کے سوٹ ہاتھ میں لیے غصہ سے بڑبڑا رہی تھی۔۔۔ نہیں نہیں۔۔ ظلم بھی تو مجھے سہنا ہے۔۔۔ وہ یہ سوچ کر خاموش ہوگئی۔۔۔
سوٹ استری کرکے ڈریسنگ روم میں رکھ کر آگئی۔۔
جب واپس آئی تو شاہ اٹھ گیا تھا۔۔ وہ شاہ کو اگنور کر کے صوفے کے ساتھ نیچے بیٹھ گئ۔۔ شاہ نے اٹھ کر اپنی شرٹ کے بٹن بند کیے۔۔۔ وہ واش روم جارہا تھا۔۔ جب پیچھے چہرہ کرکے بولا۔۔ میرے سوٹ استری کرریے۔۔۔ علیشہ نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
گڈ۔۔۔ اب جا کر میرے لیے ناشتہ بناؤ۔۔۔ وہ یہ کہہ کر واش روم میں چلے گیا۔۔
شاہ ٹاول سے بال رگڑتا باہر آیا۔۔ جب علیشہ کو ایسے بیٹھے دیکھ کر بولا۔۔
کچھ بولا تھا۔۔۔ سنائی نہیں دیا تھا کیا۔۔۔
مجھے آپکی مما نے نیچے جانے سے یا کوئی بھی کام کرنے سے سختی سے منع کیا ہے۔۔۔ وہ دلیرانہ طریقے سے بولی۔۔۔
تو۔۔۔ شاہ دو ٹوک بولا۔۔۔
اگر میں نیچے گئ تو وہ مجھے واپس اپر بھیج دینگی۔۔۔
کام نہ کرنے کے بہانے ہے یہ سب تمھارے۔۔ کام چور۔۔ شاہ طنز کرتے ہوئے بولا۔۔
اتنے میں دروازہ نوک ہوا۔۔۔ آجاؤ۔
وہ بیبی جی آپکو اور صاحب جی آپکو بڑی بی بی بلا رہی ہیں۔۔۔
ٹھیک ہے۔۔۔۔ آرہے ہیں۔۔ شاہ یہ کہتا ڈریسنگ روم میں چلے گیا۔۔۔
پیچھے علیشہ شاہ کا ویٹ کر رہی تھی۔۔۔
شاہ ڈریسنگ روم سے آکر۔۔۔ کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔
علیشہ جو کب سے شاہ کا انتظار کر رہی تھی۔۔۔ غصہ سے اسکے پیچھے گئ۔۔۔ علیشہ تیزی سے سیڑھیاں اتر رہی تھی۔۔۔ جب بیچ میں کھڑے شاہ سے ٹکرائ۔۔۔۔
شاہ سے ٹکرانے پر علیشہ کو ایسا لگا جیسے وہ کسی دیوار سے ٹکرائ ہو۔۔۔ وہ اپنا سر پکڑے شاہ کو دیکھنے لگی۔۔۔
اندھی ہو کیا۔۔ دکھتا نہیں ہے۔۔۔ اللہ نے جو یہ بڑے بڑے ڈیلے دیے اسکا استعمال نہیں کرتی۔۔۔ شاہ علیشہ کی بڑی آنکھوں پر چوٹ کر کے بولا۔۔۔
وہ ممم۔۔میں۔۔م۔ علیشہ کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیا بولے ۔۔
کیا بکری کی طرح مے مے کر رہی ہو۔۔۔
مجھے بھ۔۔بھوک لگ رہی ہے۔۔۔
چلو۔۔۔ شاہ علیشہ کو تیکھی نظروں سے دیکھ کر بولا۔۔ بھوکڑ۔۔۔
طنز کرنا نہیں بھولا۔۔
وہ دونوں ایک ساتھ آگے پیچھے ڈائننگ ہال میں گھسے۔۔۔ صالحہ بیگم نے ان دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر دل ہی دل میں ان کی نظر اتاری۔۔
ارے واہ بھابھی آج تو آپ پہلی بار ہمارے ساتھ ناشتہ کرینگی۔۔۔
جواباً علیشہ نے مسکراہٹ اچھالی۔۔۔ جس کو دیکھ کر شاہ کا دل دیوانوں کی طرح اچھلا۔۔ لیکن اس نے اپنے آپ پر کنٹرول رکھا۔۔۔
مما بابا کہا ہے۔۔۔ بیٹا وہ تو زمینوں پر نکل گئے۔۔۔
اتنی جلدی۔۔۔ ہمم انھیں کچھ اور بھی کام تھے۔۔ تو جلدی نکل گئے۔
اچھا۔۔۔
بھابھی آپ کا چہرہ کیسا ہے اب۔۔؟ رابعہ نے ناشتہ کرتی علیشہ سے پوچھا۔۔۔
جسے سن کر علیشہ کو رات والا ایک ایک منظر یاد آیا۔۔
اس نے اداسی میں جواب دیا۔۔ ٹھیک ہے اب تو۔۔۔
مما۔۔ علینہ کا آج برتھ ڈے ہے تو انوائٹ کیا ہے۔۔۔ شاہ علیشہ کا چہرہ دیکھ کر فوراً بولا۔۔
ٹھیک ہے بیٹا۔۔ تم دونوں چلے جاؤ۔۔۔ صالحہ بیگم نے شاہ کو صلح دی۔۔
نہیں مما اس نے آپکو اور رابعہ کو بھی بولا ہے۔۔
اگر آپ لوگ جائے گے تو ٹھیک۔۔۔ ورنہ میں اکیلا ہی چلا جاؤنگا۔۔۔
نہیں بیٹا۔۔ میری آج طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ رابعہ تم جاؤگی۔۔
نہیں مما مجھے آج اپنا اسائنمنٹ کمپلیٹ کرنا ہے۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔
شاہ تم اور علیشہ چلے جاؤ۔۔ ویسے بھی یہ جب سے یہاں آئ ہے تم دونوں کہی گئے نہیں ہو۔۔۔ صالحہ بیگم نے شاہ کو سمجھانا چاہا۔۔۔
مما میں اکیلا ہی جاؤنگا۔۔ اور میں نے یہاں کسی کو گھمانے کا ٹھیکہ نہیں لیا ہوا۔۔۔ شاہ دوٹوک انداز میں بولا۔۔۔
آنٹی۔۔۔ میرا بھی دل نہیں چاہ رہا کہی جانے کا۔۔۔ آپ رہنے دیں۔۔
صالحہ بیگم شاہ کو کچھ کہنے والی تھی کہ علیشہ نے فوراً بولی۔۔۔
ٹھیک ہے بیٹا۔۔۔ جیسے آپ کی مرضی۔۔۔ صالحہ بیگم بھی یہ کہہ کر خاموش ہوگئی۔۔
علینہ شاہ کی یونیورسٹی کی دوست تھی۔۔ جسے شاہ تو اپنا دوست مانتا تھا۔۔۔ مگر علینہ نے دوستی کو کچھ اور ہی رنگ دیا تھا۔۔۔
کل رات بھی شاہ علینہ کے ساتھ کلب گیا ہوا تھا۔۔۔ اور علینہ نے اس سے زبردستی ڈرنک کروائ تھی۔۔۔۔
علیشہ اٹھ کر اپنے کمرے میں جانے لگی جب رابعہ کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائ۔۔
بھابھی آپ اور میں آج پین کیک بناتے ہیں۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔ علیشہ یہ کہہ کر کمرے کی طرف بڑھ گئ۔۔۔
شام میں شاہ کمرے میں آیا تو علیشہ ڈریسنگ پر رکھے شاہ کے پرفیوم کی خوشبو سونگھ رہی تھی۔۔۔۔ علیشہ نے یہ شاہ کو دیکھ کر جلدی سے پرفیوم اسکی جگہ پر رکھے شاہ یہ دیکھ کر علیشہ کی طرف بڑھا۔۔۔ میری کسی بھی چیز کو تمھیں ہاتھ لگانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ جو میں کہوں۔۔ وہی کرو اس سے زیادہ نہیں۔۔۔ اور آتے ہی علیشہ پر حکم چلانے لگ گیا۔۔۔ وارد ڈراب میں سے میرا وائٹ شرٹ والا سوٹ نکالو۔۔۔ ڈریسنگ روم میں میرے شوز ہیں۔۔۔۔ وہ لےکر آؤ۔۔ علیشہ سن کر گولی کی طرح ڈریسنگ روم میں گھسی۔۔ تھوڑی دیر بعد وہ دونوں چیزیں ہاتھ میں لیے شاہ کی طرف بڑھی۔۔ شاہ نے ایک نظر دونوں کو دیکھ کر کہا۔۔ سہی ہے یہ یہاں رکھ دو۔۔۔
کچھ دیر بعد شاہ فریش ہونے کے لیے واش روم میں چلے گیا۔۔
جب باہر آیا تو علیشہ کمرے میں نہیں تھی۔۔۔ تیار ہوکر نیچے آیا۔۔
تو علیشہ رابعہ کے ساتھ کیک بنانے میں بزی تھی۔۔۔
وہ کمر پر ڈوپٹہ باندھے۔۔ ایک ہاتھ میں باؤل تھامی رابعہ سے کچھ پوچھ رہی تھی۔۔ شاہ پانی کے بہانے ان کی طرف بڑھا۔۔۔
واہ بھائی آج تو آپ بہت ہینڈسم لگ رہے ہیں۔۔۔ علیشہ نے ایک نظر شاہ کو دیکھ کر واپس رابعہ کی طرف متوجہ ہوگئ۔۔۔
اچھا۔۔۔ شاہ نے علیشہ کو دیکھ کر کہا۔۔۔
رابی پانی دو مجھے۔۔۔
بھابھی آپ بھائی کو پانی دے دیں۔۔ میں جب تک یہ کر رہی ہوں۔۔۔
وہ باول علیشہ کے ہاتھ سے لے کر بولی۔۔۔ رابعہ نے شاہ کی دل کی بات کہہ دی تھی۔۔۔ رابی میں نے تم سے پانی مانگا ہے۔۔ شاہ یک دم بولا۔۔۔ بھائی میں کیک بنا رہی ہوں۔۔۔ رابعہ غصہ سے بولی۔۔
علیشہ نے شاہ کو پانی دیا۔۔۔ شاہ نے بے خیالی میں گلاس ایسے لیے کے شاہ کا ہاتھ علیشہ کے ہاتھ سے مس ہوا۔۔ علیشہ نے فوراً اپنا ہاتھ پیچھے کیا جس سے گلاس زمین پر گرگیا۔۔۔
شاہ ایک دم چیخا۔۔۔ پاگل ہوگئی ہو کیا۔۔۔ پانی کا گلاس دینا نہیں آتا کسی کو۔۔۔ ایسے پانی دیتے ہیں۔۔۔ ہاں۔۔۔
سسس۔سوری ۔۔۔ وہ ممم۔مجھ سے گر گیا۔۔۔ میں آپکو دوسرا دے دیتی ہوں۔۔۔ اسنے ڈرتے ڈرتے بولا۔۔۔ نہیں رہنے دو۔۔
اور یہ جو کانچ گرے ہیں۔۔ انکو صاف کرو۔۔ شاہ یہ کہہ کر کچن سے نکل گیا۔۔
علیشہ زمین سے کانچ اٹھانے لگی۔۔ رہنے دیں بھابھی۔۔ بانو اٹھا لے گی۔۔۔ رابعہ کانچ اٹھاتی علیشہ سے مخاطب ہوئی۔۔
نہیں نہیں میں اٹھا لوں گی۔۔
سسس۔۔ ایک دم اسکے منہ سے آواز نکلی ۔۔۔ گلاس کا کانچ اسکے ہاتھ پر لگ گیا تھا۔۔ جس سے ہتھیلی پر کٹ لگ گیا تھا۔۔۔
بھابھی آپ رہنے دیں۔۔۔ ہٹے بانو اٹھا لے گی۔۔۔ رابعہ نے شاہ کو زبردستی کھڑا کیا۔۔ اور بانو کو آواز دینے لگی۔۔۔
رابعہ نے علیشہ کو بینڈیج کرکے ایک طرف بٹھا دیا۔۔۔
رات میں ان لوگوں نے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا۔۔۔ علیشہ بھی ہنسی مزاق کررہی تھی۔۔۔ کیونکہ آج اس پر طنز کرنے والا کوئی نہیں تھا۔۔
کھانے کے بعد وہ کمرے میں چلی گئی۔۔۔
شاہ کے آنے سے پہلے وہ سوجانا چاہتی تھی۔۔
تکیہ اٹھا کر زمین پر آکر سوگئ۔۔ رات میں شاہ دیر سے آیا۔۔۔ علیشہ کو زمین پر لیٹے دیکھ کر۔۔۔ اسکو علیشہ پر ہنسی آئ۔۔۔
پاس آکر اس کا چہرہ دیکھنے لگا ۔۔۔ تھوڑی دیر اسکے پاس کھڑا اسکا چہرہ دیکھتا رہا۔۔۔ اسکو علیشہ سے محبت ہو گئ تھی۔۔
تھوڑی دیر بعد شاہ نے علیشہ کو اپنی بانہوں میں اٹھا کر بیڈ پر لیٹا دیا۔۔ اور خود واش روم چلے گیا۔۔۔
صبح جب علیشہ کی آنکھ کھلی تو وہ شاہ کی بانہوں میں بری طرح پھنسی ہوئی تھی۔۔
ایک دم جھٹکے سے اٹھی۔۔ جس سے شاہ کی آنکھ کھل گئی۔۔۔
وہ ایک آنکھ بند اور ایک آنکھ کھول کر۔۔ علیشہ کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
تمیزز نہیں ہے اٹھنے کی۔۔۔ ایسے اٹھتے ہیں جنگلیوں کی طرح ۔۔۔ وہ علیشہ کو مسلسل گھور رہا تھا۔۔۔
ممم۔۔۔ میں۔۔ییی۔۔یہاں کیسے ۔۔۔۔ ؟ علیشہ فوراً بیڈ سے اتر کر بولی۔۔۔
وہ اپنے آپ سے پوچھو۔۔۔؟ اور مجھے سونے دو۔۔
میں۔۔۔ نہیں۔۔ کبھی نہیں۔۔ مجھے نیند میں چلنے کی عادت نہیں ہے۔۔ اور جہاں تک مجھے یاد میں زمین پر سوئ تھی۔۔
علیشہ شاہ کو دوبارہ سوتا دیکھ کر بڑبڑائ۔۔۔
ہنننہ۔۔۔ بلاوجہ قریب فری ہونا چاہ رہے ہیں۔۔۔ وہ یہ کہہ کر واش روم چلی گئ۔۔
واپس آئی تو شاہ فون پر کسی سے بات کررہا تھا۔۔ شاید وہ علینہ تھی۔۔۔
وہ شاہ کو نظرانداز کر کے نیچے چلی گئی۔۔۔
صالحہ بیگم اور رابعہ ڈائننگ ہال میں بیٹھے ناشتے پر انکا انتظار کر رہے تھے۔۔
شکر ہے بھابھی آپ آگئ۔۔ ورنہ میں تو بھوک سے مر ہی جاتی۔۔ رابعہ پیٹ پر ہاتھ رکھ کر بولی۔۔۔
کیوں۔۔؟ علیشہ نے رابعہ سے پوچھا۔۔۔
مما نے کہا ہے کہ جب تک بھائی اور بھابھی نہیں آجاتے۔۔ ہم یعنی میں ناشتے کو ہاتھ بھی نہ لگاؤ۔۔۔۔ رابعہ نے معصوم چہرہ بناکر بولی۔۔۔
ہاہاہاہاہا آنٹی۔۔ اتنا ظلم اس بیچاری پر۔۔۔ علیشہ ہنستے ہوئے بولی۔
بھابھی بھائی کہا ہے۔۔۔ ؟
وہ فون پر کسی سے بات کررہے تھے۔۔۔ اور ابھی فریش بھی نہیں ہوئے تھے۔۔۔ تو ہم لوگ کرلیتے ہیں۔۔۔
علیشہ اور رابعہ میں دوستی ہوگئی تھی۔۔۔ جس میں سب سے بڑا ہاتھ رابعہ کا تھا۔۔۔ وہ ہمیشہ علیشہ کو اپنے ساتھ ساتھ رکھتی تھی
یہ دیکھ کر صالحہ بیگم بہت خوش ہوئ تھی۔۔
رابعہ۔۔۔ علینہ کون ہے۔۔۔؟ علیشہ نے ناشتہ کرتی رابعہ سے پوچھا۔
بھابھی۔۔ علینہ بھائی کی یونیورسٹی کی دوست ہے۔۔۔ جو مجھے اور ثانیہ آپیی کو زہر کی مانند لگتی ہے۔۔۔ مما اور بھائی کو وہ بہت اچھی لگتی ہے۔۔۔ پتا نہیں کیا سمجھتی ہے اپنے آپ کو۔۔۔
رابعہ منہ بنا کر بولی۔۔۔
علیشہ کے بھی بنا دیکھے علینہ کے لیے ایسی خیالات تھے۔۔۔
رابعہ کو علینہ کے بارے میں ایسے بولتے ہوئے۔۔ اسے خوشی ہوئی۔۔ اتنے میں شاہ آکر علیشہ کے برابر والی کرسی پر بیٹھ گیا۔۔
علیشہ کی سانس اپر کی اپر۔۔ نیچے کی نیچے تھی۔۔۔
اپر سے رہی سہی کسر شاہ کے پرفیوم کی خوشبو جو علیشہ کو پاگل کر رہی تھی۔۔۔
وہ فوراً وہاں سے اٹھ گئی۔۔۔ علیشہ کو یوں اٹھتا دیکھ کر صالحہ بیگم بولی۔۔۔
کیا ہوا بیٹا۔۔۔ ؟ تم اٹھ کیوں گئ۔۔۔
آنٹی میں نے کرلیا۔۔۔
پر بیٹا تم نے تو سہی سے ناشتہ نہیں کیا۔۔۔؟
نہیں آنٹی میں نے کرلیا۔۔۔
صالحہ بیگم نے شاہ کو گھورا۔۔۔ وہ سمجھی شاید شاہ نے کچھ کہا ہو۔۔ مگر یہاں تو بات ہی الگ تھی۔۔
شاہ اپنی مما کو ایسے گھورتا دیکھ کر بولا۔۔۔
کیا۔۔۔؟ میں نے کچھ نہیں بولا۔۔ اسے جو آپ مجھے ایسے دیکھ رہی ہیں۔۔۔
تو پھر وہ تمھارے آنے پر اٹھ کر کیوں گئ۔۔۔؟
یہ جاکر آپ اس سے پوچھیں۔۔۔
علیشہ نے ڈائننگ ہال سے باہر آکر لمبی لمبی سانس لی۔۔۔
یا اللہ یہ کیا ہورہا ہے میرے ساتھ۔۔۔ علیشہ اپر چہرہ کر کے بولی

Post a Comment

Previous Post Next Post