Dulhan By Nasir Hussain

 


Urdu Nonvillains is a platform for all social media writers. Here you find variety of novels having different plot and concept about life of a human being who faces difficulties in every walk of life. 


Each story has its own moral every story teaches us a new lesson as it contains experience of every human life.


Here you find revenge based, Islamic based, Rude hero, Doctor, Lawyer based with many more exciting tragedies.....


Dulhan is one of the fabulous novel that get attention by readers after reading it you will love this novel. Download this novel by clicking below the given link.


If you have any queries regarding downloading let us know by commenting below. After reading this novel also leave your precious comments below and let us know about your thoughts and novel selection which type of novels would you like to read????? and which type you want to be posted here we will try to bring novels according to your choice of selection. Thanks for Reading!!!!


Dulhan By Nasir Hussain Complete Pdf


Download


Sneak Peak No : 1

میرا لیپ ٹاپ کہاں ہے. ..؟
افراہیم نے اپنی نئی نویلی دلہن سے پوچھا جو دو دن پہلے زبردستی اس کے سر پہ تهوپ دی گئی تھی. .........
جی...وہ..وہ..کیا ہوتا ہے اس نے حیرانی سے الٹا سوال کر دیا..وہ اس کی حیرت پہ مزید حیران ہوا.....
لیپ ٹاپ....مطلب وہ جس پہ بیٹھ کر میں رات کو اپنے آفس کا کام کرتا ہوں.....اس نے دانت پیس کر کہا.
اچها ....وہ....وہ..تو ہم نے اوپر سامان والے کمرے میں ڈال دیا...معصومیت سے کہا گیا. ........
کیا...میرا لیپ ٹاپ تم نے سٹور روم میں ڈال دیا. ..کیوں. .حیرت کے ساتھ ساتھ اسے غصہ بهی تها....
وہ جی ہم کو لگا ...وہ آپ کے کام کی نہیں ہے ایسے فالتو میں یہاں پڑی ہوئی ہے اس لیے ہم اسے اوپر ڈال آئے......اس نے ڈرتے ڈرتے کہا جب کہ افراہیم کا بی پی اوپر جا چکا تها ..اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تها وہ اس لڑکی کا کیا کرے.....
جاو ابهی جا کر میرا لیپ ٹاپ لے آو.....اس نے غصے کو کنٹرول کر کے آرام سے کہا....جبکہ وہ ایسے غائب ہو گئی جیسے گدھے کے سر سے سینگ. .اس نے ایک ٹھنڈی سانس خارج کر اپنا غصہ باہر نکالنے کی کوشش کی اور بے بسی سے سر تهام کر بیڈ پر بیٹھ گیا.....
یہ بانی نامی آفت دو دن پہلے ہی اس کی زندگی میں آئی تهی جسے دادی پوری دنیا ڈهونڈ کر نہ جانے کہاں سے پکڑ کر لائیں تهیں..اتنی بڑی دنیا میں اتنے بڑے پاکستان میں دادی کو اپنے ہونہار پڑهے لکهے ہینڈسم پوتے کے لیے یہی ایک لڑکی ملی تهی.. جس نے اپنی زندگی میں لیپ ٹاپ کا نام تک نہیں سنا..جو انگریزی تو دور کهبی اردو سکول بھی نہیں گئی....
.پتا نہیں دادی کو اس بلا میں ایسا کیا نظر آ گیا جو انہوں نے اس جاہل لڑکی کو اس کے سر پر تهوپ دیا...اسے گونگی مٹی کی مادهو ٹائپ دیسی گاوں کی لڑکیوں سے اسے ہمیشہ سے چڑ تهی.. .اس نے اپنی زندگی میں کئی خوبصورت خواب دیکهے تهے اگر اس نے کسی پرستان کی پری کے خواب نہیں بهی دیکهے تو اس نے اس دیہاتی لڑکی کے بارے میں بهی تو کهبی خواب میں بھی نہیں سوچا...اس نے تو اپنی شادی کے بارے میں بهی ابهی اچهے سے سوچنا بهی شروع نہیں کیا تها اور اگر سوچتا بھی تب بهی یہ لڑکی اس کی سوچ میں کهبی نہ ہوتی..وہ ایک ایسی ماڈرن اور پڑهی لکهی بیوی کی توقع کر رہا تها جسے کسی کے سامنے متعارف کراتے ہوئے گردن نہ جهک جائے بلکہ انسان کے اندر فخر پیدا ہو جائے.. .اور یہ لڑکی اس کے ہر خواب کو چکنا چور کرتی اس کے گهر پہ پورے حق سے قبضہ جمانے آ گئی..اور قبضہ جمانے کا حق کس نے دیا اس کی اپنی سگی دادی نے. .........
یہ عجیب و غریب لڑکی اس کے سر پر تهوپ کر اس کی دادی محترمہ عمرے کے لیے نکل گئیں بقول ان کے اس کی شادی ہی ان کی راہ کی رکاوٹ تهی جو اب دور ہو گئی ان کی رکاوٹ تو دور ہو گئی مگر انہوں نے اپنے راستے کا پتهر اٹها کر سیدھا اس کے سر پر دے مارا........
میں اپنے پوتے اپنے افراہیم کے لیے چاند سے خوبصورت پری جیسی دلہن لاوں گی...اس کی دادی ہمیشہ یہی کہا کرتی تهی اور وہ ہمیشہ دادی کی اس بات پہ مسکرا دیتا تها لیکن زندگی میں پہلی بار اسے دادی کی یہ بات یاد کر کے صرف غصہ آ رہا تها.دادی نے ساری زندگی اپنے یتیم پوتے کی پرورش کر کے اپنے سبهی قرضے ایک ساتھ وصول کر ڈالے .جو محبت کے بڑے بڑے دعوے کیا کرتی تهیں کہ اتنی محبت تو میں اپنے کسی نواسے یا کسی اور پوتے پوتیوں سے نہیں کرتی جتنی محبت اپنے افراہیم سے کرتی ہوں..دادی کی اگر یہ محبت تهی تو اللہ جانے ان کی نفرت کی کیا حد ہو گی.....پتا نہیں انہوں نے یہ کیسی محبت نبهائی اپنے لاڈلے پوتے کے ساتھ..ہاں اس نے خود انہیں یہ اختیار دیا تها کہ وہ اپنی پسند کی بہو تلاش کر کے لائیں اور یہ اختیار بھی اس نے ان کے رونے اور واویلا مچانے پہ ہی دیا تها ..اس نے کتنے بهروسے کے ساتھ اپنی زندگی کا ساتھی چننے کا حق انہیں دیا تها اور انہوں نے دنیا جہاں کی ان پڑھ جاہل لڑکی اس کے سر پر مسلط کر دی...یہ انہوں نے سہی نہیں کیا تها اگر وہ ماڈرن بہو نہیں بهی چاہتی تهیں تو انہیں کوئی بھی لڑکی انتخاب کرنے کا حق بھی نہیں تھا. پتا نہیں کس گاوں سے وہ اس کے لیے یہ لڑکی پکڑ کر لائی تهی اور اس پہ حکم صادر کر کے بولیں...یہ لڑکی اب تماری بیوی ہے اور اسی کے ساتھ تمہیں اپنی پوری زندگی گزارنی ہے............
تماری ہونے والی دلہن تو دنیا کی سب سے اچھی لڑکی ہے..ایسی بہو تو تمہیں دنیا کے کسی بھی کونے میں نہیں ملے گی..وہ جس علاقے میں رہتی ہے وہاں کی سب سے اچھی لڑکی ہے...یہ کچھ مخصوص جملے شادی سے پہلے دادی اس سے کہا کرتی تهی مگر اس وقت دادی کی ان باتوں کا مطلب وہ نہیں سمجھ سکا اگر سمجھ جاتا تو اسے معلوم ہو جاتا کہ وہ اچھی ہے خوبصورت ہے تو صرف دادی کے اپنے حساب سے اور ستر سالہ پرانی دادی اور آج کے دور میں زمین آسمان کا فرق ہے. ................
وہ ایک کرسی لیے اندر داخل ہوئی وہ حیرت سے اٹھ کر کهڑا ہو گیا....
میرا لیپ ٹاپ کہاں ہے...اس نے بھرپور حیرانی سے پوچھا. ....
یہی تو ہے جی...اس کی زوجہ محترمہ نے نگاہیں نیچے جهکا کر با ادب طریقے سے جواب دیا.....
یہ...یہ..تو کرسی ہے...اس کا ایک بار پھر خون کهولنے لگا.....
آپ ہی تو بولے تهے جس پہ بیٹھ کر ہم کام کرتے ہیں. .اس کی یہ معصومیت اس کے چودہ طبق روشن کر گئی..اس نے غصے سے آنکھیں بند کیں...
مس بانی صاحبہ یہ اس پہ میں ایسے بیٹھ جاتا ہوں..وہ دانت پیس کر کرسی پر بیٹھ گیا وہ موٹی موٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تهی....
اور اس پہ بیٹھ کر جو چیز میں سامنے ادهر رکهتا ہوں اور جس پہ ایسے ایسے انگلیاں چلاتا ہوں میں اس کی بات کر رہا ہوں ..اس نے مکمل طور پر اسے لیپ ٹاپ کا نقشہ کھینچ کر بتایا شاید اس طرح اس کی موٹی عقل میں کوئی بات جاتی......
وہ مشین. ...؟. ..وہ اونچی آواز میں بولی..اس نے ایک ٹھنڈی سانس لی شکر ہے کسی طرح تو سمجھی وہ کرسی سے کهڑا ہو گیا....
ہاں جی ....وہ...مشین...وہ اسی کے انداز میں بولا. .
وہ تو جی ہم نے سکهانے کے لیے اوپر رکھ دیا ہے. .اس نے اتنی آسانی سے اپنا جملہ مکمل کیا جیسے موسم کا حال سنا رہی ہو محترمہ ...
جبکہ اس کا حال ایسا تها جیسے اسے کسی نے اندھے کنویں میں ڈال دیا ہو....
سکهانے....کے لیے. ...لیکن کیوں.....؟؟؟؟..اس بار وہ زور سے چلایا..اس کے چلانے پہ وہ بہت گهبرا گئی...
وہ جی...بہت میلا ہو گیا تها ..تو ہم نے سوچا اسے دهو دیں...جیسے وہ کوئی رومال دهونے کی بات کر رہی ہو....
کیا...؟.تم نے لیپ ٹاپ دهو دیا ...؟..تم...تمارا ..پاگل....یہ...
اور اس کا بلڈ پریشر دو سو کراس کر چکا تها. غصے سے اس کا منہ لال ہو چکا تها وہ سمجھ نہیں پا رہا تها اس بهولی بهالی لڑکی کا کیا کرے جو دو دن پہلے دادی جی اسے تحفے میں سونپ کر گئیں تهیں. .ایک بار اس کا دل چاہا کھینچ کر اس کے منہ پہ تماچا مارے ..لیکن خود پہ قابو رکهتے ہوئے وہ کمرے سے باہر نکل گیا...............
وہ دوپٹے کے پلو سے اپنے آنسو صاف کرتے کرتے بیڈ پہ بیٹھ گئی...یہ اس کا شوہر تها جس کے ساتھ دو دن پہلے اس کی شادی ہوئی تھی. اس کے بہت محبت کرنے والے ماموں نے اپنی یتیم بھانجی کو ایک پڑهے لکهے بڑے گهرانے میں بهیج دیا مگر ماموں اس کا رشتہ کرتے وقت یہ بهول گئے کہ بڑے ڈگریوں والے یہ بڑے لوگ اپنے لیے کسی بڑی جیون ساتھی کا خواب دیکهتے تهے اس جیسی ان پڑھ گوار کے نہیں. ......

شادی سے پہلے اس کی ساری سہیلیاں کہا کرتی تھیں. .ہائے بانی تیرا شوہر تو بڑا گبرو جوان ہے ایک دم فلمی ہیرو جیسا..مگر ان بیچاریوں کو کیا پتا کہ فلمی ہیرو جیسا دکهنے والا وہ گبرو جوان اپنے لیے کسی فلمی ہیروئین کی ہی توقع کیے بیٹها تها...اس کے خوابوں میں اس کی زندگی میں بانی جیسی جاہل لڑکی کا کہیں نام و نشان نہیں تھا. ..وہ تو زبردستی گهس آئی اس کی زندگی میں. شادی ایک لڑکی کی زندگی کا سب سے خوبصورت خواب ہوتا ہے.. اس نے اپنی آنکھوں میں اپنے ہونے والے شوہر کے ساتھ نئی زندگی کے کئی خواب سجائے تهے..لیکن اس گهر میں آ کر اسے پتا چلا خواب اور حقیقت میں بہت فرق ہوتا ہے. جب اس نے پہلی بار افراہیم کی تصویر دیکهی تو اسے بہت رشک آیا اپنے آپ پہ. لیکن اس کی ساری سوچوں پہ پانی اس وقت پهر گیا جب اس پہ انکشاف ہوا کہ اس کا شوہر اسے نا پسند کرتا ہے. یہ بات کسی بھی لڑکی کے لیے تکلیف دہ ہے کہ اس کا شوہر اس سے نفرت کرتا ہے. نفرت یا محبت جو بھی تها اب یہی اس کا شوہر اس کا جیون ساتھی تها اسی کے ساتھ اس نے اپنی ساری زندگی گزارنی تهی.یہ رشتہ چاہے جن حالات میں جس وجہ سے بھی ہوا ہو مگر اسے یہ رشتہ نبهانا تها..یکطرفہ رشتہ جوڑنا بہت مشکل ہوتا ہے مگر وہ ایک عورت تهی جو بیاہ کر اس گهر میں لائی گئی تهی بچپن میں اس کی ماں نے اسے سکهایا تها لڑکی کا اصل گهر اس کا سسرال ہوتا ہے وہ ایک بار جس گهر میں جائے پهر اس گهر سے اس کا جنازہ ہی نکلنا چاہیے. ..اور یہی بات اس کے ذہن میں اپنے بچپن سے ہی بیٹھ گئی.وہ پوری کوشش کرے گی اپنے گهر کو بچانے کی اس نازک ڈور کو قائم رکهنے کی.وہ نفرت سے محبت کا سفر ضرور طے کرے گی..اس نے اپنے آنسو صاف کر کے ایک مضبوط ارادہ کر لیا ....

Sneak Peak No : 2

اس نے تو کهبی زندگی میں ان سب چیزوں کی تمنا نہیں کی تهی یہ سب تو اسے بنا مانگے ہی مل گیا لیکن اتنی جلدی اتنی آسانی سے بڑی چیزیں کهبی نہیں ملا کرتیں.......
عصر کی نماز ادا کر کے وہ ایک بار پھر کچن میں گهس گئی اتنی بڑی عمارت میں اس کی کام کی جگہ صرف کچن ہی تهی...وہ اپنے شوہر کے لیے اپنے ہاتھوں سے کچھ اچها بنانا چاہتی تهی اس لیے وقت سے پہلے ہی تیاری کرنے لگی..
وہ جانتی تھی آدهے گهنٹے کے کام میں وہ تین گهنٹے تو ضرور لگا دے گی....اس نے کہیں سنا تها کہ شوہر کے دل کا راستہ اس کے پیٹ سے ہو کر جاتا ہے اس لیے وہ اپنے شوہر کے دل میں جگہ بنانے کے لیے اس کی پسندیدہ بریانی بنانا چاہتی تهی....
اس کی پسند نا پسند اور اس کے بارے میں کچھ اور معلومات دادی نے عمرے پہ جانے سے پہلے اسے فراہم کیں تهیں..چاہے وہ اس سے ناپسند کرے چاہے وہ اس سے نفرت کرے مگر وہ ۔۔۔۔۔۔ وہ کهبی اس سے نفرت نہیں کرے گی وہ ایک بیوی ہونے کا فرض ضرور نبهائے گی....چاہے وہ شوہر ہونے کا فرض نبهائے یا نا نبهائے......
صبح سے کچن میں مختلف الٹے سیدھے تجربات کر کے وہ اب کافی حد تک سمجھ چکی تهی....اسے اس کے واپس آنے کا وقت نہیں پتا تها اس لیے سب کچھ جلدی جلدی کرنا چاہتی تهی. ..اپنی مطلوبہ ہر شے اس نے اپنے پاس کر لیا..اور پیاز کاٹنے لگ گئی پیاز کاٹنے سے اس کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے..یہ صرف پیاز کاٹنے کے آنسو تهے یا ان میں کوئی اور آنسو بھی شامل ہو گئے یہ وہ نہیں سمجھ سکی.......
فریج سے گوشت نکال کر اس نے پتیلے میں ڈال دیے .اور چولہے کی آگ تهوڑی کم کر کے وہ مغرب کی نماز ادا کرنے کمرے میں چلی گئی.....

جب نماز پڑھ کر واپس آئی تو بریانی تیار ہو چکی تهی اس نے احتیاطی طور پر پہلے خود چیک کر کے دیکها.اسے تو ٹهیک لگا لیکن پتا نہیں اس کے شوہر محترم کو پسند آئے گا بهی یا نہیں. ..وہ اور بھی کچھ بنانا چاہتی تهی لیکن بریانی بنانے میں ہی اتنا وقت ضائع ہو گیا کہ مزید کچھ بنانے کی گنجائش نہیں رہی..وہ اب آہستہ آہستہ کچن سمیٹنے لگی ایک بریانی بنانے کے چکر میں اس نے پورے کا پورا کچن بکهیر کر رکھ دیا تها...........
اس نے دروازہ کھلنے کی آواز سنی وہ بهاگتی ہوئی کچن کے دروازے تک گئی وہ اپنا بیگ اٹهائے اندر داخل ہو چکا تها. ..اس کے ہاتھوں میں شاید کچھ کهانے کا سامان بھی تها جو اس نے ٹیبل پر رکھ دیا اور خود اپنے کمرے کی طرف چلا گیا..

Sneak Peak No : 3

ایک تو تهکن کافی محسوس ہو رہی تهی اور اوپر سے ٹینشن اسے کهائے جا رہے تھے اپنے کمرے میں آ کر اس نے بیگ صوفے پہ پهینک دیا اور خود جوتوں سمیت بیڈ پہ لیٹ گیا...یہ شاید اس کی زندگی کے سب سے برے دن چل رہے تهے گهر آتے ہی سب سے پہلے زوجہ محترمہ کے درشن ہو گئے ..وہ پہلے سے ہی بہت ڈسٹرب تها اور رہی سہی کسر محترمہ نے پوری کر دی..اسے تو یہ سوچ سوچ کر ہی تکلیف ہو رہی تهی یہ ان پڑھ گوار لڑکی اس کی بیوی کی حیثیت سے اس گهر میں موجود ہے.......
کافی دیر وہ یونہی بیڈ پہ لیٹا رہا جب تهکن کا احساس کافی حد تک کم ہوا تو اسے بهوک لگنا شروع ہوئی..واش روم میں جا کر اس نے ہاتھ منہ دهوئے اور نیچے چلا گیا...اس نے متلاشی نگاہوں سے ادهر ادهر دیکها وہ نظر نہیں آئی..لیکن اسے خود کے اس طرح متلاشی ہو کر دیکهنے پہ بہت غصہ آیا وہ کہاں ہے کیا کر رہی ہے اس سے اسے کیا مطلب جہنم میں جائے اس کی بلا سے.........
لیکن ٹیبل کے پاس پہنچ کر اس نے اپنا مطلوبہ شاپر غائب پایا جس میں وہ ہوٹل سے اپنے لیے کهانا لے کر آیا تها..
ویسے تو وہ ہمیشہ اپنے لیے گهر پہ کهانا خود بناتا تھا لیکن آج تهوڑا تهکا ہوا اور پریشان تها اس لیے اس نے ہوٹل سے کهانا خرید لیا. .مگر یہ شاپر اچانک کیسے کہاں غائب ہو گئی. ..اسے سمجهنے میں دیر نہیں لگا یہ ضرور اس کی جاہل زوجہ محترمہ کا کام ہو گا..لیکن وہ اس طرح شاپر لے جا کر کہاں غائب ہو گئی. .کیا اسے بهوک لگ رہی تهی...اور وہ کهانا وہ اپنے لیے لے گئی...لیکن وہ خود بھی تو بنا کر کها سکتی تهی..بقول دادی کے تو وہ ہوٹلوں سے بهی اچها کهانا بناتی ہے. .....وہ غصے سے کهولتا ہوا کرسی پہ بیٹھ گیا. .....
اور آنکھیں بند کر کرسی کی پشت پر ٹیک لگا دی..اور پھر اس نے اپنی آنکھیں تب کهولیں جب اس نے ٹیبل پہ کچھ رکهنے کی آواز سنی...وہ ٹیبل پہ مختلف پلیٹوں میں کهانا لگا رہی تهی...اس نے ایک نظر اسے دیکها جو حد سے زیادہ خوش فہمی میں نظر آ رہی تهی..اور پھر کهانے کو دیکهنے لگا. .
جو وہ بے ترتیبی سے ٹیبل پہ سجا رہی تهی..سالن کے بڑے ڈونگے میں اس نے بریانی ڈالی ہوئی تهی اور چاولوں کی پلیٹ میں اس نے سالن نکالا ہوا تها اور سب سے عجیب بات اس نے روٹیاں پتیلے میں رکھ دیں تهیں...اس نے غصہ ضبط کر لیا اور صرف خاموشی سے اسے یہ سب کاروائی کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا. .جب وہ سب کچھ مکمل کر چکی تب بھی وہ وہیں کهڑی اسے دیکهتی رہی.....
کچھ چاہیے. ..اس نے سرد لہجے میں اسے مخاطب کیا..اسے مخاطب کرنا اس کی مجبوری تهی وہ کهانے کے دوران اسے بالکل بھی اپنے پاس نہیں دیکھ سکتا تها..وہ اپنی گردن ہلا کر دوبارہ کچن میں چلی گئی اور برتن دهونے لگی لیکن وہ جانتا تها وہ برتن دهوتے ہوئے بھی اسے ہی دیکھ رہی ہے. .......
وہ اسے نظر انداز کر کے کهانے کی طرف متوجہ ہوا.اس کی لائی ہوئی ساری چیزوں کے ساتھ بریانی کا بھی اضافہ تها .یہ بریانی وہ تو نہیں لایا تها تو پھر ضرور دادی کی اس سگهڑ بہو نے بنائے ہوں گے .ویسے تو بریانی اس کی پسندیدہ ڈش تهی لیکن یہ چونکہ اس محترمہ نے بنایا تھا اس لیے وہ اس ٹیبل پہ موجود بریانی کو چهوڑ کر ہر ڈش کے ساتھ انصاف کرنے لگا..حالانکہ اس کا دل بہت چاہ رہا تها وہ بریانی کهائے لیکن دل کی اس خواہش کے درمیان اس کی انا آ رہی تهی اور وہ صرف بریانی کے لیے اپنی انا کهبی نہیں کچل سکتا تها................
کهانے کے بعد ٹشو سے ہاتھ صاف کرتا وہ لاونج میں رکهی ٹی وی دیکهنے لگا . ٹی وی دیکهتے وقت بھی وہ پتا نہیں کیوں بار بار ادھر ادھر دیکھ رہا تھا. .
دو گهنٹے کے بعد وہ ٹی وی کو چهوڑ کر اپنے کمرے کی طرف جا رہا تها حالانکہ وہ جو مووی دیکھ رہا تھا اس کے ختم ہونے میں ابهی آدها گهنٹہ باقی تها لیکن پتا نہیں کیوں اس کا ٹی وی دیکهنے کو بالکل دل نہیں چاہ رہا تھا .ایسا پہلے کهبی نہیں ہوا وہ ہر مووی مکمل ہی دیکها کرتا.....

سیڑھیاں عبور کر کے وہ اپنے کمرے میں آیا ..کمرے میں جاتے ہی سب سے پہلی نظر اس پہ ہی پڑی وہ فرش پہ پوری دنیا سے بے خبر سو رہی تهی..کتنے اطمینان سے وہ نیند کی آغوش میں تهی. .اس کا سکون چهین کر ، اس کی خوشی چهین کر......

Post a Comment

Previous Post Next Post