Each story has its own moral every story teaches us a new lesson as it contains experience of every human life.
Here you find revenge based, Islamic based, Rude hero, Doctor, Lawyer based with many more exciting tragedies......
Yeh Dill Ashiqana is one of the fabulous novel that get attention by readers after reading it you will love this novel. Download this novel by clicking below the given link.
If you have any queries regarding downloading let us know by commenting below. After reading this novel also leave your precious comments below and let us know about your thoughts and novel selection which type of novels would you like to read????? and which type you want to be posted here we will try to bring novels according to your choice of selection. Thanks for Reading!!!!
Yeh Dill Ashiqana By Raheela Khan Complete Pdf
Download
Sneak Peak No : 1
تت تم کون ہو جس نے مجھے ڈی پورٹ کروایا،
وہ ڈر کو چھپاتے ہوئے بولا۔
فضول بکواس مت کرنا جو پوچھوں اس کا سیدھا سیدھا جواب دینا۔
اس نے غراتے ہوئے کہا۔
میر سکندر علی شاہ اور واصف نے چہرے چھپائے ہوئے تھے۔ اس کی سرخ آنکھیں واصف کو بھی ڈرا رہی تھیں،
میر اس کا گریبان پکڑ تے ہوئے فقط اتنا بولا۔۔۔"""" مجھے وجہ بتاؤ"""
وہ میر سکندر علی شاہ نے میرے ٹینڈر پکڑوائے تھے میں اس سے بدلہ لینا چاہتا تھا۔پ ۔پر تم کون ہو اور کیسے جانتے ہو۔
اچانک میر سکندر علی شاہ نے چہرے سے رومال ہٹا دیا۔
تب اسے احساس ہوا کہ وہ کتنی بڑی غلطی کر چکا ہے اور کس کے سامنے۔۔۔اب خمیازے کا وقت تھا۔
میر نے جان بوجھ چہرہ ڈھکا ہوا تھا تاکہ وہ سچ اگل دے،
تم میرے ایک گارڈ کے زریعے میرے پے نظر رکھے ہوئے تھے۔
میں پہلے دن سے یہ جانتا ہوں تم سے بس پوچھنا تھا کہ تم نے یہ زلیل حرکت کی کیوں؟؟؟؟؟
میر سکندر علی شاہ کی کمزوری ڈھونڈنے مجھ پر نظر رکھنے اور اپنی گندی نظر میرے بزنس پے رکھنے دل تو کر رہا ہے تمہیں خود سزا دوں لیکن۔۔۔۔۔۔
تبھی دروازہ کھولا اور نیب کے اہلکار اندر آئے۔
شکریہ شاہ صاحب'''''' ان کی کب سے تلاش تھی ہمیں،۔
وہ سر ہلاتا باہر کو نکلا,
Sneak Peak No : 2
میرے جیون ساتھی بتااااا کیوں تجھ کو دیکھ دل رک رک کے چلتا
آنیش گانے کو توڑ پھوڑ کر گا رہی تھی۔زروا کا تو اپنے لیے چڑیل لفظ سن کر ہی دماغ گھوم گیا۔اور سب سے زیادہ صدمہ پیارے گانے کو اس وے میں گانے پر غصے میں لال پیلی ہو رہی تھی۔
آنیش کو سو صلواتیں سناتی پیر پٹختی اندر چلی گئی اور آنیش نے خود کو تھپکی دی کی واہ آنیش تم نے کتنا اچھا سونگ گایا۔
گانا کچھ ایسے تھا ۔۔۔
تیرا میرا پیار امر پھر کیوں مجھ کو لگتا ہے ڈر
میرے جیون ساتھی بتا دل کیوں دل دھڑکے رہ رہ کر
کیا کہا ہے چاند نے جس کو سن کے چاندنی
ہر لہر پے جھوم کے کیوں یہ ناچنے لگی۔
چاہت کا ہے ہر سو اثر پھر کیوں مجھ کو لگتا ہے
تیرا میرا پیار امر پھر کیوں مجھ کو لگتا ہے ڈر
کہ رہا ہے میرا دل اب یہ رات نہ ڈھلے
خوشیوں کا سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے
تجھ کو دیکھوں ،،،،،،دیکھوں جدھر
پھر کیوں مجھ کو لگتا ہے ڈر
تیرا میرا پیار امر
پھر کیوں مجھ کو لگتا ہے ڈر
اوپر زوہان کھڑا ان دونوں کی نوک جھونک کھڑا enjoyکر رہا تھا۔
آنیش نے اوپر دیکھا تو زوہان کو ہاتھ ہلایا اور زروا کی طرف دیکھ اشارہ کیا کہ چڑیل بن گئی ہے ۔زوہان نہ میں سر ہلاتا مسکرانے لگا۔
آنیش کو اندر آتا دیکھ انکل آنٹی تو اس کے صدقے واری جا رہے تھے۔ادھر زروا میڈم تاؤ کھا رہی تھی۔ اس گھر کے ملازم بھی انیش کے دیوانے تھے ۔انیش بےبی کے لیے مزے مزے کی چیزیں بناتے۔
جب آنیش اس گھر آتی تو سب اس کا بچوں کی طرح خیال رکھتے ۔انیش ملازمہ زروا اور اگر زوہان گھر ہوتے تو ان کے ساتھ کرکٹ کھیلتی۔
زوہان نیچے آیا اور آنیش کے ممی پاپا سے ملا۔۔اس کے بعد آنیش کے سر پر بڑے بھائی کی طرح ہاتھ رکھا ۔ بھائی میں بھی ہوں زروا سے رہا نہ گیا تو بول اٹھی سب کہکے لگا کر ہسنے لگے۔
اس کے بعد سب بڑے سوہا کے گھر کے لیے نکل گئے۔انیش اور زروا نے آنکھوں سے اشارہ کیا۔اور زوہان کو فورس کرنے لگیں کہ آئسکریم کھلانے کے جائے۔
بلیو پینٹ ، وائیٹ شرٹ اور بلیو ویسٹ پینے وہ غصے سے ادھر آدھر ٹہل رہا تھا۔۔۔
اسکے سامنے کھڑے افراد اس کو غصے میں دیکھ اپنے ڈر پر قابو پانے کی کوشش کر رہے تھے۔
س۔۔سر وہ۔۔۔۔
بکواس بند کرو اپنی۔۔۔ وہ دھاڑا۔۔۔
جو وقت میں نے دیا تھا اس میں اسے ڈھونڈنا تھا لیکن اتنے وقت میں تم سب اسکا سراغ بھی نہ لگا سکے۔۔۔ اسنے ایک طیش بھری گھوری سب پہ ڈالی۔۔۔
سر۔۔ ہم نے پوری کوشش۔۔۔ ایک نے بولنے کی کوشش کی پر شاہ کے خطرناک حد تک بگڑے تاثر دیکھ کر زبان کو بریک لگی۔
صرف چوبیس گھنٹے ہیں ان میں اس کالیا کا سراغ لگاؤ۔۔۔ ان چوبیس گھنٹوں کے بعد بھی مجھے کوئی رسپانس نہ ملا تو تم سب اس فیلڈ کیلیے نااہل ہو جاٶ گے۔۔۔ اسنے اپنی پوری ٹیم کو آخری وارننگ دی۔
اٹس دیٹ کلیئر۔۔۔ اسنے اب کے سرد آواز میں پوچھا تو وہ چونکے اور یک زبان بولے۔۔۔
یس سر۔۔ وہ فوراً سے باہر نکلے اور اپنے اپنے کام پر لگ گئے جبکہ اسنے موبائل کان کے ساتھ لگایا۔۔۔
نہیں تم لوگ جاؤ مجھے کچھ ضروری کام کرنا ہے آج رات ۔۔۔۔۔شاہ نے کبیر سے کہا۔۔۔
Sneak Peak No : 3
خان۔۔۔۔۔۔۔
زوہان اس ٹیبل پر گیا جہاں خان اور معاویہ بیٹھے تھے۔
ارے یار ۔۔۔۔۔۔زوہان ۔۔۔۔۔وہ دونوں اٹھ کھڑے ہوئے۔اور ایک دوسرے کے گلے لگے۔
معاویہ تم کب آئے بس یار ڈیوٹی کی وجہ سے کچھ عرصہ پشاور تھا ۔اور تم بتاؤ کبیر اور شاہ کیسا ہے وہ ساتھ کیوں نہیں آیا۔۔
زوہان نے تو سوالوں کے انبار لگا دیے بس بس ایس پی صاحب۔۔۔۔
اتنے سوال ایک ساتھ ایک ساتھ۔۔۔۔
پھر تینوں دوست مل کر بیٹھے اور یونی کے جسے ڈس کس کرنے لگے۔۔۔
معاویہ تجھے یاد ہے کبیر کیسے لڑکیوں سے لڑائی کرتا تھا ہاں یار ۔۔۔۔اور ایک بار تو اس نے لڑکی کے بال کھینچ لیے تھے اور وہ بیچاری اس سے بال چھڑوا رہی تھی۔ہاں اور اس نے بھی دی گریٹ کے بال پکڑ کر جھوجھائے۔۔اور شاہ نے ان کے بال چھڑوائے تھے۔۔۔
کبیر کھسیانی ہنسی ہسا۔۔۔۔
سب وہ پل یاد کرکے کہکے لگا کر ہسنے لگے۔
کیفے میں بیٹھے لوگ ان خوبصورت لڑکوں کو دیکھ رہے تھے جو ہنستے ہوئے سارے ماحول پے چھائے تھے ۔۔
ادھر زروا جو واپس آئی تھی کبیر اپنے بھائی اور سر کو کہکے لگاتے دیکھ حیران ہوئی۔۔۔
آنیش سے پوچھا تو بتایا کہ زوہان بھیا کے دوست ہیں ۔۔۔
زرقا تو جل کڑھ رہی تھی۔
تھوڑی دیر بعد زوہان دونوں کے ساتھ ان کے پاس آئے اور ان کا تعارف کروایا۔۔۔۔سب بیٹھ کر کچھ دیر تک بات کرتے رہے اور اپنے اپنے گھروں کی راہ لی۔
Sneak Peak No : 4
عنایا ڈرامہ دیکھ رہی تھی کہ ڈور بل بجی۔۔۔اس نے دروازہ کھولا تو سامنے اس کی خالہ اور خالو کھڑے تھے۔عنایا ان سے مل کر بہت خوش ہوئی۔
عنو کون ہے ۔۔۔۔
اس کی امی کی آواز آئی۔۔۔۔
ماما خالہ اور خالو آئیں ہیں وہ بھی اٹھ کر آگئیں اور ان سے ملی ارےےے بھئئئئئئ کیا ہمیں دروازے پر کھڑا رکھو گی۔۔۔۔
نہیں نہیں اندر آئیں ۔۔۔۔
عنایا دروازہ بند کر رہی تھی کہ ایک دم معاویہ نے ہاتھ رکھ کر بند کرنے سے روکا ۔
سر آپ یہاں۔۔۔
آپ یہاں جہاں آئیں ہیں ۔۔۔
وہ چپ چاپ اندر بڑھ گیا۔۔۔
سر روکیں آپ ایسے اندر نہیں جا سکتے ۔۔۔۔
معاویہ نے آئبرو اچکایا۔۔۔۔تو کیا اڑ کر جاؤں یہ پلین میں لینڈ کروں۔۔۔۔
عنایا تو پریشان ہو گئی۔۔۔ اتنے میں عنایا کی امی بولیں ارے معاویہ بیٹا اندر آؤ۔۔۔۔
عنایا کا تو منہ کھل گیا کہ کہ ان کی امی معاویہ کو جانتی ہے۔۔۔
وہ بیٹی کی حالت دیکھ مسکرا دیں ۔۔ انہیں پتہ تھا کہ معاویہ عنایا کے کالج میں پڑھاتا ہے اور یہ ان کو خود معاویہ نے بتایا تھا۔۔۔اور عنایا کو بتانے سے منع کیا تھا۔۔۔۔
عنایا نے معاویہ کو تب دیکھا تھا جب یہ چھوٹی تھی اس کے بعد بس اپنے ماں باپ سے سنتی رہتی پر کبھی دیکھا نہیں تھا۔۔۔کیونکہ معاویہ دوسری کنٹری چلا گیا تھا نہ وہ کبھی آیا اور نہ یہ کبھی اس کے گھر گئی تھی۔۔۔خالہ خالو اس سے مل کر چلے جاتے۔۔۔
معاویہ نے دوسرے ملک جانے سے پہلے اپنے ماں باپ اور خالہ سے عنایا کا ہاتھ مانگا تھا اور عنایا سے اس بات کو مخفی رہنے کا کہا تھا وہ اپنے لیے اس کے جزبات جاننا چاہتا تھا ۔۔واپس آکر اس نے بہت کوشش کی کہ اس سے ملے پر فیلڈ ایسی چوز کی کبھی وقت نہ ملا پر خالہ سے اس کی تصویر مانگتا رہتا اور اس کو دیکھتا رہتا اسے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اس کی زندگی میں کوئی نہیں ہے اور آج وہ اپنے ماں باپ کو اس لیے لے کر آیا کہ بات عنایا کے سامنے ہو جائے اور اس کو دیدار کا شرف بھی بخشا جائے۔۔۔یہاں آتے ہوئے وہ عنایا کا ریکشن سوچ مسکرانے لگا کہ جیسے ٹیچر کہتی وہ اس کا خالہ زاد اس کا کشن ہے۔۔۔