Aik Thi Heer By Sana Mueen Complete Pdf

 




Urdu Nonvillains is a platform for all social media writers. Here you find variety of novels having different plot and concept about life of a human being who faces difficulties in every walk of life. 


Each story has its own moral every story teaches us a new lesson as it contains experience of every human life.


Here you find revenge based, Islamic based, Rude hero, Doctor, Lawyer based with many more exciting tragedies......


Aik Thi Heer  is one of the fabulous novel that get attention by readers after reading it you will love this novel. Download this novel by clicking below the given link.


If you have any queries regarding downloading let us know by commenting below. After reading this novel also leave your precious comments below and let us know about your thoughts and novel selection which type of novels would you like to read????? and which type you want to be posted here we will try to bring novels according to your choice of selection. Thanks for Reading!!!!


Aik Thi Heer By Sana Mueen Complete Pdf


Download


Sneak Peak No : 1

”اٹھو میرے ساتھ چلو تمہارے بابا نے بلایا ہے اور ہاں ایک میری یاد رکھو جو بات تم سے وہ کہیں تم نے کہنا ہے تمہیں کوئی اعتراض نہیں سمجھی۔“
انھوں نے اسے تنبیہہ کی ۔
”چلو۔“
ہیر خاموشی سے ان کے پیچھے چلنے لگی پتہ نہیں کیا ہونے جارہا تھا اس کے ساتھ۔
”یا اللّٰه پلیز میری مدد کرنا۔“
اس نے دل ہی دل میں دعا کی۔
”ہیر بیٹا آپ کی ماما نے آپ کو بتا تو دیا ہوگا کہ میں نے آپ کو کیوں بلایا ہے لیکن پھر بھی میں آپ کو دوبارہ بتا کر آپ کی رضامندی چاہتا ہوں۔“
سانول صاحب کے کہنے پر ہیر نے حیرانی سے انھیں دیکھا مگر وہ اپنی بات جاری رکھے ہوۓ تھے۔
”مسز جاوید سے تم مل چکی ہو ان کے بیٹے سیف سے ہم نے آپ کا رشتہ تہہ کردیا ہے۔وہ لوگ اس وقت آؤٹ آف کنٹری ہیں کسی ضروری کام کی وجہ سے اگلے ویک ان کی پوری فیملی آپ کو دیکھنے آئے گی اور انگیجمنٹ کی ڈیٹ بھی ڈیسائڈ کر لیں گے۔“ہیر نے ایک نظر ماما کو دیکھا جنہوں نے کہا۔
”میں نے پہلے ہی بتا دیا تھا اسے کوئی اعتراض نہیں۔“انھوں نے مسکراتے ہوۓ کہا مگر ان کی آنکھوں میں ہیر کے لیے صاف وارننگ تھی۔
”اچھی بات ہے ہونا بھی نہیں چاہئے ۔“
انھوں نے مسکرا کر کہا۔ہیر بے اختیار اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی اور اندر بھاگ گئی۔آنسو اس کی آنکھوں سے آنسو مسلسل بہتے اس کے چہرے کو بھگو رہے تھے۔اپنے کمرے میں آکر وہ رو دی۔وہ رو رہی تھی۔بے تحاشہ رو رہی تھی۔سمجھ نہیں آرہا تھا کون سے دکھ پہ روۓ ماں کے نا ہونے پہ باپ کی بے عتنائی پہ۔اسے پتہ تھا ایک دن ایسے ہی اس کی زندگی کا فیصلہ ہوجاۓ گا مگر اب کیوں اتنا دکھ ہورہا تھا۔کیوں وہ میسحا یاد آرہا تھا۔اُس نے تو ہمدردی کی تھی،اُس کا کوئی قصور نہیں تھا "محبت "تو اِس نے کی تھی۔"محبت" ہاں "محبت"اسے "محبت" ہو گئی تھی۔

”میرے اللّٰه میں کیا کروں؟ کہاں جاؤں؟ میری مدد کر۔“وہ ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔


Sneak Peak No : 2


”ہیر سانول خان ولد سانول خان آپ کا نکاح غازیان احمد شاہ ولد احمد شاہ سے سکہ رائج الوقت شرعئ طے پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟“
مولوی کی الفاظ پر ہیر بلکل ساکت سی بیٹھی تھی۔رضا نے ندا کو اشارہ کیا جس نے ہیر کو ہلا کر متوجہ کیا۔ہیر نے بابا کی کی طرف ایک بار پھر دیکھا جنہوں نے ایک نظر اس پر ڈال کر رخ پھیر لیا۔اس نے پھر غازیاظ کی طرف دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔یہ وہ اجنبی شخص تھا جو ہر جگہ اس کا محافظ بنا تھا۔ہر بار بغیر کسی غرض کے اس نے ہیر کو پروٹیکٹ کیا تھا۔اور آج بھی جب اس کے اپنوں نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا تھا تو ایک یہی شخص تھا بھری محفل میں جو اس کے آگے کھڑا اس کو ہر ایک سے بچا رہا تھا۔غازیان بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا۔وہ کیا جواب دے گی یہ سوچ غازیان کو بےچین کرگئی تھی۔
"قبول ہے۔“
ہیر نے مدھم آواز میں کہا۔غازیان نے اس کی طرف دیکھا جو اب سر جھکاۓ بیٹھی تھی۔
مولوی صاحب نے پھر سے اپنا سوال دہرایا۔
”ہیر سانول خان ولد سانول خان آپ کا نکاح غازیان احمد شاہ ولد احمد شاہ سے سکہ رائج الوقت شرعئ طے پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟“
”قبول ہے ۔“
”ہیر سانول خان ولد سانول خان آپ کا نکاح غازیان احمد شاہ ولد احمد شاہ سے سکہ رائج الوقت شرعئ طے پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟“
”قبول ہے۔“
آخری بار مولوی صاحب کے پوچھنے پر ہیر نے جیسے ہی قبول ہے کہا غازیان کا دل بےساختہ پرسکون ہوا۔
اب مولوی صاحب غازیان کی طرف آۓ۔
”غازیان احمد شاہ ولد احمد شاہ آپ کا نکاح ہیر سانول خان ولد سانول سے سکہ رائج الوقت شرعئ طے پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟“
”قبول ہے۔“
اگلے ہی لمحے غازیان نے مضپوط مگر گھمبیر لہجے میں کہا۔ہیر نے بےساختہ ندا کے ہاتھ کو تھاما۔
”غازیان احمد شاہ ولد احمد شاہ آپ کا نکاح ہیر سانول خان ولد سانول سے سکہ رائج الوقت شرعئ طے پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟“
”قبول ہے۔“
”غازیان احمد شاہ ولد احمد شاہ آپ کا نکاح ہیر سانول خان ولد سانول سے سکہ رائج الوقت شرعئ طے پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟“
”قبول ہے۔“
چند لمحوں میں دو اجنبی دنیا کے سب سے مضبوط رشتے میں بندھ چکے تھے۔
”صوفیہ تانیہ باہر گاڑی میں انتظار کر رہا ہوں تم لوگ آجانا۔“
سانول صاحب نے کہتے اپنے قدم باہر کی جانب بڑھا دئے۔
”بابا!“ انھیں پکارتے ہوۓ وہ ان کی طرف آئی مگر وہ اس کی پکار پر دھیان دئے بغیر چلے گئے۔
”رک جائیں بابا، بابا!“
ہیر انھیں پکارتے ہوۓ چیخی اور بھاگتے ہوۓ اپنے ہی دوپٹے سے الجھ کر گر پڑی۔
ندا اور غازیان جلدی سے اس کی طرف آۓ۔غازیان نے ہیر کو پکڑ کر اٹھایا کہ اچانک ہیر اپنے حواس کھو کر اس کی بانہوں میں جھول گئی۔غازیان نے پریشانی اس کا چہرہ تھپتھپایا۔
”غازیان چلو بھابھی کو اٹھاؤ۔میں گاڑی نکالتا ہوں۔“رضا کہتے ہی باہر کی جانب بڑھ گیا۔غازیان نے بغیر کسی کی پرواہ کیے ہیر کو اٹھایا اور اسے لیے باہر کی جانب بڑھا اور پیچھے وہ لوگ چاہنے کے باوجود اس کو روک نہیں سکے۔
رضا نے گاڑی کا ڈور کھولا۔غازیان نے ہیر کو بیک سیٹ پہ لٹایا۔اور ندا کو بھی ساتھ بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
اور خود بھی جلدی سے گاڑی میں بیٹھے۔
وہاں سے وہ لوگ ہیر کو ایک قریب ہی موجود پرائیویٹ کلینک لے کر گئے۔ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ بہت زیادہ سٹریس لینے کی وجہ سے بے ہوش ہوئی ہے۔اس کا خیال رکھا جاۓ وہ پہلے سے مینٹلی کافی ڈسٹرب ہے۔
”آنٹی کو کیا بتائیں گے ؟“رضا نے اس سے پوچھا۔وہ لوگ غازیان کے گھر جارہے تھے۔
”آئی ڈونٹ نو ابھی مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا رضا۔“
اس نے بےبسی سے سر سیٹ سے لگاتے ہوۓ کہا۔
”اوکے ری لیکس ہم ہینڈل کر لیں گے سب کچھ مل کر ڈونٹ وری اباؤٹ اٹ۔“
رضا نے اسے تسلی دیتے ہوۓ کہا وہ سمجھ سکتا تھا کہ غازیان بھی کافی ڈسٹرب ہے۔غازیان کا گھر ایک عام سے علاقے میں تھا جو کہ زیادہ پسماندہ تو نہیں تھا مگر زیادہ تر مڈل کلاس کے گھر تھے وہاں۔
غازیان کے گھر کے دو پورشن تھے نیچے والے میں اس کے ماموں رہتے تھے اور اوپر والے میں غازیان اپنی ماں کے ساتھ۔ان کے پوریشن کا کوئی علیحدہ ڈور نہیں تھا بلکہ ماموں کے پورشن سے ہی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جانا پڑتا تھا۔اب اسے فکر بس اس بات کی تھی کہ اللّٰه کرے ممانی سے اس کا سامنا نہ ہو ورنہ ہیر کی فیملی کی طرح انھوں نے بھی ان دونوں کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی تھی۔


Sneak Peak No : 3


”ہیر سٹوپ کرائینگ پلیز۔“
”پلیز چپ ہوجائیں۔“
”اگر میری کوئی بات بری لگی تو آئی ایم سوری۔“ہیر نے اپنا سر اٹھا کر دیکھا اس کا چہرہ رونے کی وجہ سے لال ہوگیا۔وہ اچانک ہی ہیر کو پتہ نہیں کیا ہوا کہ ایک دم اس سینے سے لگتی اور شدت سے رونے لگی۔غازیان پہلے ہی اس کی حالت سے گھبرایا ہوا تھا اس کی اس حرکت نے اسے مزید بوکھلا کر رکھ دیا۔اب اسے یقین ہوچکا تھا کہ ہیر اپنے حواسوں میں نہیں ہے ورنہ جتنا وہ ہیر کو جان پایا تھا وہ مر کر بھی ایس. حرکت نا کرتی۔غازیان نے آہستہ سے اپنے بازو اس کے گرد حائل کرتے اس کے بالوں کو آہستہ آہستہ سہلانے لگا مگر اب کی بار ہیر کو رونے سے نہیں روکا۔وہ کافی دیر تک دورتی رہی۔
پھر اپنی حرکت کا احساس ہوا تو جلدی سے پیچھے ہوئی۔غازیان نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا جس کا چہرہ شرمندگی کے مارے سرخ پڑچکا تھا ۔
”کھانا کھا لیں ورنہ ٹھنڈا ہوجاۓ گا۔“اس نے نارمل سے انداز میں ٹرے ہیر کی طرف کھسکاتے ہوۓ کہا۔
”اس ٹائم کچھ اور گھر میں موجود نہیں تھا تو میں یہی لے آیا۔“
”کوئی بات نہیں۔“ اس نے آہستہ آواز میں کہا کہ غازیان کو بمشکل سنائی دیا۔اور یہ طویل ترین جملہ تھا نکاح کے بعد سے اب رک جو اس نے بولا تھا۔
”آپ آرام سے کھانا کھائیں میں تب تک چینج کرکے آتا ہوں۔“غازیان کو اندازہ تھا کہ اس کی موجودگی میں نروس ہورہی ہے اسی لیے چینج کرنے کے بہانے سے پکڑے لے کر واشروم چلا گیا۔ہیر اس سے کھانے کا پوچھنا چاہتی تھی مگر چاہ کر بھی پوچھ نا پائی کیونکہ وہ اپنی پہلی حرکت پر بھی کافی شرمندہ تھی۔وہ دوپہر سے بھوکی تھی۔اس نے کھانے کھایا۔اور پھر بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اور وہ کھانے کی ٹرے اٹھا کر سامنے موجود میز پر رکھی۔ پھر اس نے کمرے کا جائزہ لیا۔
کمرے میں بیڈ موجود تھا بیڈ کے دائیں طرف ایک چھوٹا ڈریسنگ ٹیبل تھا۔بائیں طرف لکڑی کی تین کرسیاں اور چھوٹی سے میز تھی۔
بیڈ کے سامنے والی دیوار کے ساتھ الماری تھی۔ بیڈ کے سامنے ہی دتھوڑا بائیں طرف دروازہ تھا۔اس کے ذہن میں بےاختیار اپنا گھر آیا جس کے واشرومز بھی شاید اس کمرے سے بڑے تھے۔مگر اس گھر کے مکین اور یہاں کے مکینوں کے دل میں بہت فرق تھا۔ان کے دل بڑے تھے۔جبکہ اس کے محل نما گھر میں رہنے والوں کے دل بہت چھوٹے۔ابھی وہ کھڑی سوچ میں گم تھی کہ غازیان آواز دے کر اسے سوچوں سے باہر نکالا۔
”اس گھر میں صرف میں اور ماں ہیں اور کوئی لڑکی تو ہے نہیں اور آپ کو کپڑوں کی ضرورت ہوگی۔اگر آپ مناسب سمجھیں تو میرے ہی کوئی کپڑے پہن لیں کل صبح ہی میں جاکر آپ کے لیے شاپنگ کر لاؤں گا۔“اس نے ہیر سے پوچھا کیونکہ جو ڈریس اس نے پہنا تھا وہ تھوڑا ہیوی تھا تو اس میں ہیر پرسکون نیند نہیں سو سکتی تھی۔ہیر بھی ان کپڑوں سے نجات چاہتی تھی۔تو اثبات میں سر ہلایا۔غازیان نے الماری سے اپنی ایک شرٹ اور ٹراؤزر نکال کر ہیر کو پکڑایا۔
”آئی ہوپ اس میں آپ کمفرٹیبل رہیں گی۔“
ہیرکپڑے لے کر واشروم چلی گئی۔تھوڑی دیر بعد وہ چینج کرکے باہر آئی تو غازیان روم میں تھا اس نے ریڈ دوپٹہ اتار کر لپیٹا اور اسے بیڈ پر رکھا پھر اپنے ڈریس کا ڈوپٹہ اوڑھ لیا۔اسے غازیان کے کپڑوں میں بہت عجیب لگ رہا تھا ایک تو وہ بڑے اور کھولے تھے۔دوسرا یہ سوچ کہ یہ غازیان کے کپڑے ہے سوچ کر شرم سے وہ مری جارہی تھی اور دھڑکنوں نے الگ شور مچایا ہوا تھا۔غازیان کمرے میں داخل ہوا تو اس کے ہاتھ میں ایک کمفرٹر تھا۔غازیان نے ایک نظر اسے دیکھا اس کے بلیک ٹراؤزر شرٹ میں ملبوس ؤائٹ دوپٹہ اوڑھے وہ اتنی کیوٹ لگ رہی تھی کہ اس کے چہرے پر بےاختیار مسکراہٹ آئی۔
”کافی رات ہو گئی ہے آپ سوجائیں۔اور اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بتا دیجۓ گا۔“اس نے کہا اور پھر سے چلا گیا تو ہیر نے بھی سکھ کا سانس لیا۔ابھی اس کی چو ذہنی حالت تھی فلحال وہ اس کی موجودگی کو ایکسپٹ نہیں کرپاتی۔وہ چپ چاپ بیڈ پر لیٹ گئی۔پتہ نئی کل کا نیا دن اس کے لیے کونسا نیا امتحان لانے والا تھا؟

Sneak Peak No : 4

”کیا سوچ رہیں ہیں آپ ؟“
وہ ٹیرس پہ کھڑی چاند کو دیکھتے ہوۓ کسی سوچ میں گم تھی جب غازیان چاۓ کا کپ لے کر اس کے پاس آیا اور اسے اپنے حصار میں لے کر اس کے کندھے پہ تھوڑی ٹکاتے ہوۓ پوچھا۔روز رات کو وہ ٹیرس پہ بیٹھ کر باتیں کرتے اور ساتھ میں چاۓ پیتے تھے جس کو بنانے کی ڈیوٹی غازیان کی ہوتی تھی۔
”کراچی جانے کے بارے میں سوچ رہی تھی؟“غازیان نے چاۓ کا کپ اس کے منہ سے لگایا۔ہیر نے سپ لیتے ہوۓ جواب دیا۔
”ہیر آپ نے خود کو مضبوط کرلیا ہے تو کیوں ڈرتی ہیں ان لوگوں کا سامنا کرنے سے؟“غازیان کپ سائیڈ پہ رکھتے اس کا رخ اپنی طرف کرتے پوچھا۔
”میں ڈرتی نہیں غازیان مگر مجھے آپ لوگوں نے اتنی محبتیں دے دیں ہیں کہ اب خود کی طرف اٹھتی اپنوں کی نفرت بھری آنکھیں نہیں دیکھ پاؤں۔“اس نے بےبسی سے کہا۔
”تو پھر ٹھیک ہے ہم نہیں جاتے کراچی۔میرے لیے آپ سے ضروری کوئی چیز نہیں نا کوئی بزنس نا کوئی تقریب۔“غازیان نے سنجیدگی سے کہا۔
وہ لوگ تین سال پہلے اسلام آباد شفٹ ہوۓ تھے۔کل ان کو کراچی جانا تھا۔غازیان کی کمپنی کی سالانہ تقریب کے سلسلے میں بہت بڑی پارٹی تھی جس میں پاکستان سے بڑے بڑے بزنس مین شریک تھے اور راشد صاحب نے سانول صاحب کو بھی مدعو کیا تھا اور غازیان نے بھی دانستہ طور پر انہیں منع نہیں کیا تھا کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ ایک بار ہیر سانول صاحپ سے مل لے شاید ان کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوجاۓ اور ہیر کو اپنا باپ واپس مل جاۓ۔مگر اب ہیر کو دیکھ میں دیکھ کر وہ اپنا فیصلہ تبدیل کرنے کا ارادہ کر چکا تھا۔
”نہیں یہ تقریب آپ کے لیے اہم ہے اور میرے لیے آپ سے زیادہ اہم آپ ہیں۔آپ کے لیے جان تک دے سکتی ہوں،یہ تو پھر چھوٹی سی بات ہے۔“اس نے غازیان کے ہاتھ تھامے محبت سے کہا۔جبکہ اس کی جان دینے والی بات سن کر غازیان خفگی سے اسے دیکھا اور اپنے ہاتھ چھڑوا لئے۔
”آج کے بعد ایسی فضول بات مت کیجۓ گا۔“اس نے ذرا سخت لہجہ میں کہا۔ایک تو مسئلہ یہ تھا کہ اس پر غصہ نہیں کرسکتا تھا نہ ہی ڈانٹ سکتا تھا بس ذرا سی خفگی دیکھتا تھا اور اس پہ میڈم آنکھوں سے ساون کی جھڑی بسا کر اس کو الٹا بوکھلانے پر مجبور کر دیتی تھیں۔
”ایم سوری غازیان آئندہ ایسا نہیں بولوں گی پلیز ناراض مت ہوں۔“ہیر نے غازیان کے پیچھے آتے ہوۓ کہا۔
”آپ کی اس بات نے مجھے ہرٹ کیا ہے۔آپ کی زندگی میرے لیے کتنی اہمیت رکھتی ہے،کیا آپ نہیں جانتی ؟“
جبکہ پوری بات میں ہیر نے ایک لفظ پک کیا تھا اور وہ یہ تھا کہ اس نے ہرٹ کیا ہے۔وہ کیسے اپنے غازیان کو ہرٹ کرسکتی ہے۔اس کی آنکھو؟ سے آنسو بہنے لگے اور اپنی بے وقوفی پہ غصہ آنے لگا۔غازیان کو سسکیوں کی آواز آئی اس نے موڑ کر دیکھا تو ہیر کے کمرے کے بیچ و بیچ کھڑی ہچکیوں سے رو رہی تھی۔غازیان کی تو جان پہ بن آئی ہیر کو اس طرح روتے دیکھ کر۔وہ فوراً اس کے پاس آیا۔
”ہیر میری جان ایم سوری میری جان پلیز رونا بند کریں آپ۔“اس نے ہیر کے آنسو پوچھنے ہوۓ اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوۓ کہا۔
”ن۔نہ۔نہیں میں نے ا۔آ۔آپ کو ہرٹ۔ٹ کیا ہے۔ا
”نہیں ماۓ لائف ایم سوری مجھے اس طرح آپ سے بات نہیں کرنی چاہئے تھی یہ جاننے کے باوجود کے آپ آج پہلے ہی ڈسٹرب ہیں۔آپ کو پتہ ہے کہ آپ میرے لیے کتنی امپورٹنٹ ہے اسی لیے آپ جب اپنے بارے میں کچھ ایسا بولتی ہیں تو میں اور ریکٹ کر جاتا ہوں۔“اس نے ہیر کو سینے س لگاۓ کہا۔
”آج کے بعد نہیں کرو گی ایسی بات۔وعدہ۔“اس نے غازیان کے گرد اپنے بازو سختی سے حائل کرتے ہوۓ کہا۔
”پکا۔“غازیان نے پوچھا۔
”بلکل پکا۔“ہیر نے کہا۔
”آئی لو یو سومچ ہیر مور دین اینی تھنگ ۔“


Post a Comment

Previous Post Next Post