"نہیں پلیز چھوڑو مجھے"
عنایہ اسکے ساتھ کیھچتی ہوئی کہنے لگی
"مجھے درد ہورہا ہے پلیز میرا ہاتھ چھوڑو"
عنایہ بولتے ہوئے اپنا ہاتھ آبیان کے ہاتھوں سے نکالنے کی کوشش کرنے لگی
آبیان اسے اُسی گیٹ سے اندر لایا جہاں سے عنایہ باہر نکلی تھی
"بس ایک دم چپ آواز نہ آئے اب تمہاری"
آبیان اسے گھر کے اندر لا کر اپنے سامنے کھڑا کرکے انگلی اٹھا کر بولا
عنایہ بلکل خاموش ہو کر کھڑی ہوگئی پر ڈر کی وجہ سے اسکے آنسو نہیں رک رہے تھے
"اپنے آنسو پونچھو اسکو بہانے کے لیے تمہارے لیے سزا ہے"
آبیان اسکے کان میں سرگوشی کرنے لگا لیکن آنکھیں حد سے زیادہ سرخ ہورہی تھیں
آبیان کی بات سن کر اسکا سانس ہی اٹک گیا تھا
"ادھر اؤ"
آبیان نے ملازم کو حکم دیا جو پاس ہی سر جھکائے کھڑا تھا
"یہ دروازہ کھولو"
آبیان اس دروازے کے پاس اشارہ کرتے ہوئے بولا جس پر کنڈی لگی ہوئی تھی
"پر بوس"
وہ آبیان کی بات سمجھ کر بولا
"میں نے تمہیں کچھ بولنے کو نہیں کہا ہے کام کرنے کو بولا ہے ایک لفظ اور بولا تو آئیندہ نظر نہیں آو گے"
آبیان تیش میں آکر دھارا
ملازم سر جھکائے کمرے کی کنڈی کھولنے لگا
"بس جاؤ اب اور مجھے تالا دو"
آبیان کہتے ساتھ عنایہ کا ہاتھ پکڑ کر روم کی طرف لے جاتے ہوئے بولا
آبیان نے عنایہ کا ہاتھ پکڑا اور کمرے کے اندر ڈال کر کمرہ باہر سے بند کردیا اور ملازم سے تالا لے کر لگانے لگا اور صوفے پر جا کر بیٹھ گیا
"پلیز مجھے یہاں سے نکال دو میں تم سے معافی مانگتی ہو میں آئیندہ کہیں نہیں جاؤنگی میں کبھی ایسی غلطی نہیں کرونگی"
عنایہ کمرے کے اندر اندھیرا دیکھ کر خوف سے بولی
جب عنایہ کو کمرے میں کچھ محسوس ہوا تو اسنے پلٹ کر دیکھا تھوڑی دیر تو عنایہ دیکھتی رہ گئی جب سمجھ آیا کہ وہ کیا ہے تو زور سے چیخی اور دروازے سے لگ گئی اور زور زور سے رونے لگی
"آبیان آئ ام سوری پلیز مجھے یہاں سے نکال دو"
عنایہ تھکے تھکے لہجے میں بولی
اور خوف بھی بڑھ رہا تھا کیوں کہ سامنے ایک چھوٹا مگرمچھ تھا جو دھیرے دھیرے اسکی طرف بڑھ رہا تھا
عنایہ اپنے پاؤںی سمٹ کر بیٹھ گئی کہ اچانک عنایہ کو اپنے کندھے پر کچھ رینگتا ہوا محسوس ہوا جب عنایہ نے ہاتھ سے دیکھا تو ایک سانپ اسکے کندھے پر رینگ رہا تھا
عنایہ نے چیخ مار کر اسے دهور اچھالا
اس کمرے میں ہر چھوٹے چھوٹے جانور اور کیڑے تھے لیکن کسی میں زہر نہیں تھا لیکن دنیا کے تقریباً کیڑے یہاں پائے جاتے تھے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ جو آبیان کو پسند آتے تھے وہ تمام جانور اس گھر میں موجود ہوتے ہیں
عنایہ کو بار بار اپنے جسم پر کچھ رینگتا ہوا محسوس ہورہا تھا جسے وہ بار بار ہٹا رہی تھی اور آبیان سے فریاد کر رہی تھی
عنایہ پندرہ منٹ سے اندر رو رو کر آبیان سے معافی مانگ رہی تھی کہ وہ اسے نکال دے لیکن آبیان آج کسی کے سںنے کے موڈ میں نہیں تھا وہ اپنے موبائل میں لگا اسکی چیخ سن رہا تھا وہ بس اپنا غصہ ضبط کر رہا تھا کہ کہیں وہ اسکے ساتھ کچھ الٹا نہ کردیں
جب اسنے اپنا غصہ تھوڑا کم کیا تو کمرے کا تالا کھولا اور اسے باہر لا کر اپنے روم میں شاور کے نیچے کھڑا کردیا
کیوں کہ اسکے جسم پر جتنے بھی کیڑے تھے وہ نکل جائے
عنایہ دروازہ کُھلتے ہی باہر کی طرف آئ
عنایہ کا سر گھوم رہا تھا اسنے اتنا خوف کیسے برداشت کیا یہ وہ وہی جانتی تھی
عنایہ سر پر ہاتھ رکھ کر گھرنے والی تھی کہ آبیان نے اسے اپنے دنوں بازوں میں اٹھا لیا
عنایہ کا چہرہ رونے سے سرخ ہو چکا تھا اور آنکھیں حد سے زیادہ سوجھ چکی تھیں
"میں نے تمہیں بہت جلدی نکال دیا ہے کیوں کہ تم آبیان کی جان ہو ورنہ جب مجھے غصہ آتا ہے تو جرم کرنے والا رات بھر وہیں رہتا ہے میں پیچھے مُر کر دیکھتا بھی نہیں ہوں"
آبیان اسکے اوپر شاور کھول کر اسکے کان میں کہنے لگا
"تمہارے کپڑے رکھیں ہیں بدل کر فوراً باہر آو"
آبیان اسے تنبیہ کرتے ہوئے باہر چلا گیا
عنایہ بس بت بنی کھڑی تھی اسکے جانے کے بعد عنایہ اپنے کپڑوں کو زور سے رگڑ رہی تھی کہ ہر جگہ سے میرے جسم سے کیڑے نکل جائیں جب رگڑ رگڑ کر تھک گئی تو وہیں زمین پر بیٹھ کر زور زور سے رونے لگی
"
عنایہ جلدی نکلو"
جب کافی دیر ہوگئی تو آبیان نے فکر مندی سے واشروم کا دروازہ بجایا
"آ آ ر رہی ہوں"
عنایہ سے خوف کے مارے بولا بھی نہیں جارہا تھا
عنایہ کپڑے بدل کر باہر آئ جو آبیان نے ڈریسنگ روم میں رکھے تھے
"تم تو بہت تپ رہی ہو"
آبیان عنایہ کو بیڈ پر لیٹاتے ہوئے بولا
عنایہ سے کچھ بولا ہی نہیں جارہا تھا
"میں تمہارے لیے میڈیسن لے کر آتا ہو"
آبیان اٹھتے ہوئے بولا
"کھانا کھاؤ اور دوائی پیو"
آبیان اسکے سامنے کھانے کی ٹرے اور دوائی رکھتے ہوئے بولا
عنایہ ویسے ہی بیٹھی رہی اسے اس بندے سے خوف آرہا تھا
"کھاؤ"
آبیان اسکے سامنے نوالہ بنا کر اسکے منہ کے قریب لے جاتے ہوئے بولا
"مجھے بھوک نہیں ہے"
عنایہ آنسو ضبط کرتے ہوئے روندھی ہوئی آواز میں بولی
"دیکھو میں نے تمہیں پہلے ہی کہا تھا میرے غصے کو ہوا مت دینا تم دو مہینوں سے یہاں ہو میں نے کھبی تمہارے ساتھ کچھ غلط کیا؟؟....مجھے فورس کرنے کی کی عادت نہیں ہے جب تم دل سے رازی ہوگی تبھی میں تمہارے قریب آئونگا تمہیں وہ حق دونگا لیکن تمہاری رضامندی سے تمہیں جتنا ٹائم چاہیے لے لو لیکن یہیں رہتے ہوئے
تمہیں اپنا دماغ بنانا ہے تم اگر یہاں سے بھاگ کر دنیا کے کسی بھی کونے میں چلی جاؤ میں تمہیں ڈھونڈ کر لے ہی آونگا پھر تم سوچ لینا میں تمہارے ساتھ کیا کرونگا اس ٹائم میں نے تمہیں بہت چھوٹی سزا دی ہے آئیندہ رحم نہیں کرونگا"
آبیان نوالے کو پلیٹ پر رکھتے ہوئے کہنے لگا
"مجھے ہاتھ دھکاؤ"
آبیان اسکے ہاتھ پر پہلے ہی زخم دیکھ چکا تھا اور عنایہ کو بند کرکے وہ شیر کے پاس گیا اور شیر کو گولی سے اڑا دیا
"یہ میری بیوی کو ہاتھ لگانے کی سزا تھی"
آبیان سوچتے ہویے واپس گھر آکر صوفے پر بیٹھ گیا
"مجھے کچھ بھی نہیں دیکھانا چلے جاؤ یہاں سے"
عنایہ جیسے پھٹ پڑی تھی
آبیان اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں زبردستی لے کر آستین اوپر کرکے زخم کا معائنہ کرنے لگا
"آ چھوڑدو میرا ہاتھ تم درندھے ہو"
عنایہ اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی جو ناممکن تھا
"ایک دن تمھیں اسی درندھے سے پیار ہوجائے گا"
آبیان اسکے زخم پر مرہم لگاتے ہوئے بولا
"آہ"
آبیان نے جب عنایہ کے ہاتھوں پر مرہم لگایا تو عنایہ درد سے بولی
"درد ہورہا ہے"
آبیان اس سے پوچھتے ہوئے پھونک مار رہا تھا
آبیان بہت آہستہ آہستہ اسکے ہاتھ پر مرہم لگا کر پٹی بھاند رہا تھا
"چلو اب تم نے کھانا نہیں کھایا تو میں تمہیں اسی کمرے میں دوبارہ بند کردونگا"
آبیان پٹی کرنے کے بعد بیڈ پر بیٹھ کر نوالہ اسکے منہ کے سامنے رکھتے ہویے بولا
آبیان کی بات سن کر اسکے جسم میں خوف کی لہر دوڑی اور اسنے جلدی سے منہ کھولا
"گڈ گرل"
عنایہ کے منہ کھولنے پر آبیان نے دھیرے سے مسکرا کر کہا
"دوائی پیو"
آبیان اسے کھانا کھلا کر دوائی اسکے ہاتھ میں دے کر بولا
عنایہ نے چپ کرکے دوائی پی لی
"چلو کسی سے تو ڈری"
آبیان دل میں سوچتے ہوئے پانی کا گلاس سائیڈ پر رکھنے لگا
"آرام کرو اب بہت زہن پر زور دے دیا ہے"
آبیان اسے کھانا کھلا کر دوائی دے کر روم کی لائٹ بند کرکے کمرے سے نکل گیا