Aik Sitam Aisa Bhi By Momina Shah Complete Pdf

 



Urdu Nonvillains is a platform for all social media writers. Here you find variety of novels having different plot and concept about life of a human being who faces difficulties in every walk of life. 

Each story has its own moral every story teaches us a new lesson as it contains experience of every human life.




Here you find revenge based, Islamic based, Rude hero, Doctor, Lawyer based with many more exciting tragedies......

Aik Sitam Aisa Bhi  is one of the fabulous novel that get attention by readers after reading it you will love this novel. Download this novel by clicking below the given link.


If you have any queries regarding downloading let us know by commenting below. After reading this novel also leave your precious comments below and let us know about your thoughts and novel selection which type of novels would you like to read????? and which type you want to be posted here we will try to bring novels according to your choice of selection. Thanks for Reading!!!!




Sneak Peak No : 1

" ہمت کیسے ہوئ تمہاری یہاں اتنے سکون سے سونے کی ہماری زندگیوں کا سکون برباد کرکے سکون سے تو میں تمہیں بھی نہیں رہنے دونگا"۔ وہ اسے بازو سے کھینچ کر اٹھاتا اسپہ جھکا غصہ سے چیخ رہا تھا۔ اسے اسکی سرخ آنکھیں دیکھ یکدم خوف آیا خشک ہوتے لبوں کو تر کرتے اسنے کچھ کہنے کے کیلیئے منہ کھولنا ہی چاہا کہ اسکے اگلے الفاظ اسکا دماغ گھوما گئے تھے۔
" تم جیسے گھٹیا لوگ میں جانتا ہوں تم کس گھٹیا باپ کی گندی اولاد ہو"۔ وہ تو مانوں اسکے کانوں میں سیسہ انڈیل گیا تھا۔
" ہمت کیسے ہوئ میرے باپ کے بارے میں یا میرے بارے میں ایسے الفاظ استعمال کرنے کی"۔ وہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھ کر سرکش لہجہ میں کہتی اسے مزید سلگا گئ تھی۔
" جیسے ہوتی ہے ویسے ہی ہوئ ہے ہمت اور تم کون ہوتی ہو مجھے میری ہمت کا بتانے والی غلام ہو تم ہماری ونی ہو تم تمہاری اتنی لمبی زبان مشکل میں ڈال دیگی تمہیں"۔ وہ اسکے بال مٹھی میں دبوچتا حقارت سے بولا۔
" اگر آپ سوچ رہے ہیں ناں کہ میں ڈر جاؤں گی اور آپکی کسی غلط بات کو برداشت کرونگی تو یہ آپ کی سوچ ہے"۔ وہ اب بھی باز نا آئ تھی۔ وہ اسکی ہمت دیکھ تمسخر سے ہنسا تھا۔
" بہت دیکھی ہیں تم جیسی دو دو کوڑی کی عورتیں"۔ وہ اسکے بالوں کو مزید سختی سے دبوچتا نفرت آمیز لہجہ میں بولا۔
" دیکھی ہونگی پر میرب حیات نہیں ہونگی "۔ وہ اسکی گرفت سے اپنے بال آزاد کرانے کی کوشش کرنے لگی۔
" زبان کو لگام دو اپنی"۔ اسنے اسکے چہرے پہ اپنی پانچوں انگلیاں چھاپ دیں۔ میرب کی آنکھ سے ایک آنسو ٹپکا۔
" نہیں دونگی"۔ ضدی تو وہ بھی صدا کی تھی۔
" اگر اس زبان کو لگام نا دی ناں تو بہت پشتاؤ گی"۔ وہ اسے گردن سے دبوچتا بولا۔
" اگر میں نے غلط کو غلط نا کہا ناں خاموشی سے ظلم سہتی رہی تو اور بھی پشتاوا ہوگا"۔ وہ بہ مشکل بولی۔ اسکا چہرہ سرخ ہوچکا تھا اب تو اسے سانس لینے میں بھی دکت ہورہی تھی کے مقابل نے ایک جھٹکے سے اسکی گردن چھوڑ دی۔ وہ کھانستے ہوئے اسکے پاس سے اٹھی تھی وہ بیڈ پہ اسکے بے حد قریب بیٹھا تھا ، اور اسکی قربت میرب حیات کو کسی صورت منظور نہیں تھی۔







Sneak Peak No : 2

" پر میں نے مرد کو آزمائشوں میں گھرا نہیں دیکھا"۔ وہ سنجیدگی سے بولی۔
" پگلی۔۔۔ !! یہ جو بہروز جس دور سے گزر رہا ہے یہ اسکی بھی تو آزمائش ہے ، اسنے اپنا بھائ کھویا ہے، یہ جو آگ اسکے سینے میں جل رہی ہے ناں یہ ہی سب سے بڑی آزمائش ہے ، اور سب سے بڑی بات تم دونوں کا رشتہ بہت پیارا ہے بس اگر تم دونوں وقت پہ سمجھ جاؤ "۔ انہوں نے اسکے گال پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔
" کیا ضمانت ہے اس بات کی کہ وہ میرے صبر کے آگے ہار جائے گا"۔ اسنے انہیں تکتے نرمی سے پوچھا۔
" میں ضمانت ہوں ، میں یہ بات دعوے سے کہہ سکتی ہوں کہ وہ تمہارے صبر کے آگے ہار جائے گا"۔ انہوں نے شفقت سے اسکے ماتھے پہ بوسہ لیا۔
" مجھے لگتا تو نہیں پر پھر بھی کوشش کرونگی"۔ اسنے آنکھیں مٹکا کر کہا۔
" صبر کوشش سے نہیں کیا جاتا جب صبر کیا جاتا ہے تو بس صبر ہی ہوتا ہے پھر اسکو کرنے کے لیئے کوشش نہیں کرنی پڑتی"۔ وہ نرمی سے بولیں۔
" ہمم سہی میں صبر کرونگی "۔ اسنے نظریں جھکا کر کہا۔ شنو اسکے لیئے کھانا لائ اسنے کھانا کھایا اتنے میں چائے بھی تیار ہوچکی تھی وہ چائے لے کر آئ۔
اسنے اور اماں نے چائے پی پھر اسکو ایک سر درد کی گولی دی پھر وہ دیر اماں جی کے ساتھ ہی رہی اور رات آٹھ بجے اماں نے اسے اسکے کمرے میں بھیج دیا۔ وہ من من بھر کے ہوتے قدم لیئے کمرے میں جیسے ہی گھسی وہ سامنے بیڈ پہ ایک شان سے پڑا نجانے کس سے موبائل کان سے لگائے ہم کلام تھا۔ اسکو دیکھ اسنے کال کاٹی تھی اسکی آنکھوں میں چھپی نفرت دیکھ اسکے پیر کانپنے تھے۔
" وہاں کیا کھڑی ہو کیا پتھر کا مجسمہ بن گئ ہو ، یہاں آؤ"۔ اسنے سرد بے تاثر لہجہ میں اسے اپنی طرف آنے کو کہا۔
" ج۔۔جی"۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم لیتی جیسے ہی اسکے پاس آئ۔ اسنے اسے ہاتھ سے کھینچ کر بیڈ پہ گرایا تھا۔ وہ یکدم اسکی آغوش میں آگری تھی۔ وہ اس وقت برے سے برے رویے کی امید کر رہی تھی پر یہ کیا خوف سے اسکے پیر کانپ اٹھے تھے۔ اسنے اٹھنا چاہا کہ یکدم وہ کروٹ لے کر اسپہ مکمل طور پر جھکا۔
" راہ فرار ممکن نہیں "۔ اسنے سخت انگلیاں اسکے چہرے پہ پھیرتے کہا۔ میرب کا سانس اٹکا تھا۔
" مجھے۔۔۔ پتہ تھا ۔۔۔۔مجھے دیکھ تم یونہی پل میں پگھل جاؤ گے"۔ وہ تمسخر سے گویا ہوئ۔
" ہاں تمہیں تو ویسے بھی بڑا تجربہ ہے ناں مردوں کو پل میں پگھلانے کا"۔ اسنے بھی سیدھا خنجر سے وار کیا تھا۔ " میرے بارے میں ایسے الفاظ نا استعمال کریں"۔ وہ اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھتی اسے خود سے دور کرنے کے جتن کرنے لگی تھی کہ وہ یکدم اسپہ مزید حاوی ہوا تھا۔ دونوں کے وجود ایک دوسرے سے مکمل طور پہ جڑے پڑے تھے۔
" میرا دل جیسے الفاظ استعمال کرنے کو کرے گا میں کرونگا اور تم ہوتی کون ہو مجھے یہ بتانے والی کہ میں تمہارے لیئے کیسے الفاظ استعمال کروں ، تم ایک قاتل کی بیٹی ہو ، اور تم یہاں اپنے باپ کے جرم کی سزا کاٹنے آئ ہو ، یہ انداز یہ کانفیڈینس تم پہ سوٹ نہیں کرتا"۔ وہ اسکے بالوں کو اپنی مٹھی میں قید کرتا اپنے لہجہ میں ڈھیروں نفرت سموئے گویا ہوا۔
" بیوی ہوں آپکی ، عزت کی مستحق ہوں"۔ نم لہجہ میں کہا گیا۔
" اچھا اتنی ہی عزت دار ہو اور عزت کی مستحق ہو تو بتاؤ اس دن ان کھیتوں میں کیا کر رہی تھیں"۔ وہ اسکا چہرہ دبوچ کر غرایا۔ " میں نے اس دن بتایا تو تھا کہ میں آپلے لینے گئ تھی"۔ وہ نم لہجہ میں گویا ہوئ۔
" اچھا اور آپلے لینے کے بہانے اپنے کس عاشق سے ملاقات کرکے آرہی تھیں"۔ اب کے اس کا لہجہ حد سے زیادہ تضحیک آمیز تھا۔
" دور ہٹیں "۔ وہ یکدم اسے دھکا دے کر اٹھی تھی وہ بھیگی بلی سے یکدم خونخوار شیرنی بن گئ تھی۔ وہ اسکے خونخوار ہونے پہ تمسخر سے ہنسا تھا۔
" جس میں خامی ہو وہ یونہی بھڑکتا ہے"۔ وہ بیڈ کی دوسری سائڈ پہ ہوتا طنزاً ہنسا تھا۔
" آپ جیسا انسان جسکی سوچ اس حد تک گری ہوئ ہو میں نے آج تک نہیں دیکھا"۔ وہ حقارت سے کہتی اسے سلگا گئ تھی۔
" میں کتنا گرا ہوا انسان اس کا اندازہ تمہیں بہت جلد ہوجائے گا ، زیادہ میرے منہ لگنے کی ضرورت نہیں"۔ سیگریٹ کو لائٹر سے جلا کر ایک کش لیتے کہا۔
" مجھے اچھے سے معلوم پڑ چکا ہے کہ آپ کیسے مرد ہو"۔ وہ ماتھے پہ لاتعداد تیوریاں سجائے کہتی لیٹنے لگی تھی کہ اسکے الفاظ سن کر اسنے اسے دیکھا۔
" یہاں سونے کی ضرورت نہیں اپنے مرنے کا بندوبست کہیں اور کرلو"۔ وہ بد تمیزی کی تمام حدود پار کر گیا تھا۔
" میں تو یہیں سوؤں گی بیوی ہوں آپکی"۔ وہ جیسے سلگی۔
" اچھا بیوی ہو ٹھیک ہے پھر حقوق ادا کرو میرے"۔ اسنے اسے ستانے کو کہا۔
" سوچنا بھی مت ایسا کچھ آپ جیسے انسان کے ساتھ میں کوئ تعلق کبھی نہیں بناؤں گی"۔ وہ آنکھوں میں ڈھیروں نفرت و حقارت لیئے بھڑکی۔
" سمجھ کیا رکھا تم نے مجھے شاید تم نے ابھی ٹھیک سے مجھے پہچانا نہیں میں چوہدری بہروز ہوں ، میرے ساتھ اس انداز میں بات کرنے کی ہمت کوئ نہیں رکھتا اور جو رکھتا ہے ناں میں اسکی ہمت توڑ دیتا ہوں"۔ وہ اسے کھینچ کر اپنی طرف سرکا گیا تھا۔ جس وحشی انداز میں اسنے اسے اپنی گرفت میں جکڑا تھا وہ تڑپ کر ہی تو رہ گئ تھی۔ اسنے اسکی مضبوط گرفت سے خود کو نکالنا چاہا پر ناممکن سی بات تھی۔
"چھوڑو مجھے"۔ اسنے اسکی انگلیوں کی جنبش کو اپنے وجود پہ ہوتا محسوس کرکے سسک کر کہا۔
اور پھر وہ ہوا جو شاید ہونا تو چاہیئے تھا پر ایسے نہیں۔۔ بہروز نے اسکا لباس ایسے نوچ کر اس سے الگ کیا تھا۔ کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر روپڑی تھی۔
" بہروز نہیں"۔ اسنے یکدم سر نفی میں ہلایا۔ بہروز نے گہری نظروں سے اسے تکا۔
" کیوں نہیں ہاں"۔ اسنے اسکے چہرے پہ انگلی پھیر کر کہا۔
" پلیز دور ہٹیں"۔ وہ گہرے سانس لیتی روندھی ہوئ آواز میں بولی۔
بہروز تمسخر سے ہنستا اسکے لبوں پہ اپنا مضبوط ہاتھ جماتا اپنا حق وصول کر گیا تھا۔
کچھ دیر بعد نیم اندھیرے کمرے میں اسکی سسکیاں گونجنے لگی تھیں، وہ جو ابھی اسکو ریزہ ریزہ کرکے پیچھے ہٹا تھا۔ اسکے رونے کی آواز جب اسکے کانوں میں پڑی تو اپنے کیئے پہ شرمندہ ہونے کے با وجود بیزار سے لہجہ میں گویا ہوا۔
" بند کرو یہ رونا دھونا ایسا بھی کوئ ظلم نہیں کیا جو رونا ہی بند نہیں ہورہا"۔ وہ کروٹ بدل گیا۔
وہ اسکے روکنے پہ بھی نا رکی ساری رات اسکی روتے روتے گزری صبح کی روشنی لگنے سے پہلے ہی وہ اپنی حالت درست کرکے کمرے سے نکل چکی تھی۔ جیسے ہی مولوی نے اذان دی دھیرے دھیرے حویلی میں چہل پہل ہونے لگی۔ میرب نے جلدی جلدی نماز پڑھی اور جب دعا کے لیئے ہاتھ اٹھائے تو انسوؤں اور سسکیوں کے سوا کچھ نا تھا۔
اماں جی بھی اٹھ چکی تھیں ، وہ انکے پاس آکر بیٹھی تھی ۔ یکدم بہروز کے والد نماز پڑھ کر جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے اور اسے دیکھ کر جو بے عزتی انہوں نے اسکی کی ، وہ رات کو کی گئ انکے بیٹے کی کی گئ زیادتی کو بھی پیچھے چھوڑ گئ تھی۔ صبح صبح حویلی کی دیواریں انکی دھاڑ سے کانپ اٹھی تھیں۔ وہ ظالم بھی نیند سے بھری آنکھیں لیئے جیسے ہی جدید طرز کے بنے لاؤنج میں آیا تو میرب سر جھکا کر رو رہی تھی اور اسکے ابا اسکے سر پہ کھڑے اسے نجانے کیا کچھ کہہ رہے تھے۔ اسے برا لگا۔ پر اسنے کچھ نا کہا۔ خاموش رہا۔ نظر ایک بار پھر اسکے کملائے چہرے پہ پڑی تو وہ محض لب بھینچ گیا۔ پر جب ابا نے اسکے کردار پر بولنا شروع کیا تو اسکی برداشت بلکل ختم ہونے لگی تھی، اسکے دماغ کی رگیں غصہ سے تن گئ تھیں۔ وہ یکدم بھڑکا۔
" ابا میری بیوی کے بارے میں ایسے الفاظ آپ کیسے استعمال کر سکتے ہیں"۔ وہ مشتعل ہوا۔


Aik Sitam Aisa Bhi By Momina Shah Complete Pdf


Download


Post a Comment

Previous Post Next Post