" مجھے نہیں پتہ تھا کہ آپ لوگ ایک کمرے پر یوں لڑنے لگوں گئے
یار اس وقت کسی بھی ہوٹل میں کمرہ نہیں ملے گا ۔۔۔ اس لئے آپ میں سے جو چاہے وہ میرے کمرے
ساتھ کمرہ شیر کر سکتا لیکن لڑائی تو مسلے کا حل نہیں ہے " نوفل کی بات پر عزیر اور شاہزیب تو کچھ نہیں بولے لیکن ہمزہ ضرور بول پڑا
" میں تو خود کہہ رہا ہوں انہیں کہ جب یہاں اس قدر رش ہے کوئی بھی حل نہیں ہے تو مصلحت کے راستہ اختیار کریں بجائے لڑنے کے "
" میرے خیال سے ایسے موقع پر جذبات سے ذیادہ عقل سے کام لینا چاہیے اور آپ عزیر دیکھنے میں اچھے خاصے دیندار لگتے ہیں کچھ تو مزاج میں نرمی ہونی چاہیے
میرے ساتھ بھی وہ بچی بھی ہے جس کی بس گم ہو چکی تھی ۔۔۔ اور وہ ہمارے ساتھ ہی اسلام آباد تک جائے گی میں بھی اسے اپنے کمرے میں ہی ایڈجسٹ کر رہا ہوں ۔۔۔ آپ میں سے جو چاہے وہ میرے ساتھ کمرہ شیر کر سکتا ہے مل کر ہی ہم ایک دوسرے کا احساس کر کے مشکل وقت گزار سکتے ہیں ۔۔۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا اگر کوئی میرے ساتھ شیر کر بھی لے تو " نوفل نے لڑائی ختم کرواتے ہوئے کہا "
" ٹھیک مجھے کمرہ شیر کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔۔۔ " سب سے پہلی ہامی عزیر نے بھری تھی جس کا گلے پر ناخنوں کی خرونچ لگی ہوئی تھیں جس سے ہلکا ہلکا خون بھی رس رہا تھا شاہزیب بھی اپنا ہاتھ دباتے ہوئے نظریں چرا گیا تھا شاید بات اتنی بڑی نہیں تھی جتنی وہ لوگ بڑھا چکے تھے مزاج کے دونوں ہی ایک جیسے تھے ۔۔۔ غصہ دونوں کی ناک کی نوک پر دھرا رہتا تھا ۔۔۔
" میں بھی رہ لوں گا ۔۔۔۔ " شاہزیب نے۔ بھی دھیرے سے کہا
" ایسا کرتے ہیں کہ میرے پاس سنگل روم ہے وہ آپ لوگ رکھ لیں ہم اور عزیر بھائی ایک ہی فیملی سے ہیں ہم آپس میں ایڈجسٹ کر لیں گئے ۔۔۔ " ہمزہ کی بات سب کو ہی معقول لگی تھی اس لئے ہمزہ نے اپنی کمرے کی چابی شاہزیب کو پکڑا دی ۔۔۔۔
عین اسی وقت حیا اور ارتضی اپنے بچوں کے ساتھ ہوٹل میں داخل ہوئے تھے ۔۔۔ حیا کی خوشی جوش قابل دید تھا ۔۔۔۔
کمرے کی چابی ارتضی سے پہلے حیا نے پکڑی تھی ۔۔۔۔ رش چھٹ چکا تھا سب ہی اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے ۔۔۔ ہادیہ ساتھ ساتھ آنسوں بہا رہی تھی ساتھ ساتھ عزیر کے کے گلے پر رستے ہوئے خون کو صاف کر رہی تھی
" کیا ضرورت یہ سب کرنے کی ۔۔۔۔ اگر وہ گلا اور زور سے دبا دیتا پھر "
" جتنی زور سے میں نے اس کا ہاتھ دبا رکھا تھا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ وہ اس سے ذیادہ طاقت کا مظاہرہ دیکھا پاتا ۔۔۔ آہستہ آہستہ اسکی گرفت کم ہو رہی تھی لیکن پہلی کسی نے اتنی ہمت دیکھائی ہے ۔۔۔ " عزیر کی بات سن کر ناہید بول پڑی
۔" نا مینو اے دس لڑے بغیر تینو روٹی ہضم نئں ہوندی ۔۔۔ "
" تم کچھ دیر کے لئے چپ ہو سکتی ہو ۔۔۔ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا بس بات کچھ زیادہ ہی بڑھ گئ ورنہ میں یہ سب چھوڑ چکا ہوں " عزیر نے کچھ پشمان سا لگ رہا تھا اس کا واقع ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا ۔۔۔
دوسری طرف نیناں کے نیناں آنسوں بہا رہے تھے شاہزیب کا ہاتھ ہلنے سے بھی انکاری تھا اس وقت نیلا ہو چکا تھا ۔۔۔ نیناں بینڈج باندھتے ہوئے یوں تو رہی تھی جیسے شازہب کے بجائے چوٹ نیناں کے ہاتھ پر لگی ہو ۔۔۔
" میری مینا اتنا بھی درد نہیں ہو رہا جتنے تم آنسوں بہارہی ہو ۔۔۔ کم آن یار میں بلکل تھیک ہوں "
" آپ کو ضرورت کیا تھی یہ سب کرنے کی شاہو "
" پتہ نہیں کیوں میں خوہخواہ اس سے الجھ گیا ۔۔۔ حالانکہ میرا ایسا ارادہ نہیں تھا سب کچھ اچانک ہی ہوا ہے ۔۔۔ "
ہادی اور سعدی دونوں چپ چاپ صوفے پر بیٹھے اپنے باپ کو ماں کے آنسوں صاف کرتے دیکھ رہے تھے اور ماں کے چہرے پر پر باپ کی تکلیف کے آثار کو ۔۔۔ شاہزیب کے لاکھ منانے پر بھی نیناں کے آنسوں رکنے سے انکاری تھے ۔۔
" بس بھی کرو نیناں اب بچوں کے سامنے تو ۔میں تمہیں اپنے طریقے سے چپ بھی نہیں کروا سکتا ورنہ تمہارے آنسوں اپنی پلکوں سے سے چن لیتا ۔۔۔۔ اسی لئے کہہ رہا تھا کہ ان دونوں کو دادا دادی کے پاس رہنے دو ساری لڑائی انہیں وجہ سے ہوئی ہے " نیناں پہلے تو شاہزیب کی بات پر شرم سے گلابی ہونے لگی تھی لیکن ابھی شرمانا بھی ٹھیک سے پورا نہیں ہوا تھاشایزیب کے اگلے جمعلے پر متعجب سی ہو کر اسے دیکھنے لگی
" بچوں کی وجہ سے لڑائی کیسے ہوئی تھی ۔۔۔ انہوں نے تو کچھ بھی نہیں کہا معصوموں کی طرح بیچارے ایک کونے میں سامان کے پاس کھڑے تھے " نیناں کی حیرت بھری نظروں میں وہ اپنی شوخ بھری نظریں ڈال کر سر گوشی میں بولا
"ڈبل روم میں نے انہیں کے لئے بک کروایا تھا ۔۔۔ تا کہ ہمہیں ڈسٹرب نا کریں " نیناں کے چہرے پر بہتے آنسوں رکے تھے پہلی نظر بچوں پر پڑی تھی کہ کہیں باپ کی گل فشانیاں نا سن چکے ہوں ۔۔۔
" شاہزیب بہت بے شرم ہیں آپ " یہ کر اٹھ کر کھڑی ہو گئ ۔۔۔۔ رات کو دونوں بچے سو چکے تھے
نیناں بیڈ پر دونوں بچوں کے ساتھ سو رہی تھی اور شاہزیب صوفے پر ۔۔۔
رات کو اپنی پیشانی پر کسی کے ہونٹوں کا لمس محسوس کر کے نیناں کی آنکھ کھلی تھی ۔۔۔ اندھیرے میں بس ایک ہیولا سا ہی نظر آیا تھا ۔۔۔ پہلا خیال کسی چور کا نیناں کو آیا تھا ہلکی سی چیخ منہ سے بر آمد ہوئی تھی اور اگلے ہی لمحے پٹی والا باتھ منہ پر رکھا گیا تھا
" میں ہوں شاہزیب ۔۔۔ " اس اندھیرے میں بھی نیناں پوری آنکھیں پھیلائے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ شاہزیب۔ نے اپنا ہاتھ ہٹایا
" شاہزیب یہ طریقہ ہے جگانے کا "
" آہستہ بولو تمہارے یہ دونوں چوکیدار اگر اٹھ گئے تو میرا سارا ٹرپ برباد ہو جائے گا ۔۔۔ چلو فٹافٹ سے جیکٹ پہنو باہر چلتے ہیں " شاہزیب نے دھیرے سے کہا تا کہ ہادی اور سعدی کی آنکھ نا کھل جائے ۔۔۔
" لیکن اس وقت رات کے دو بجے " نیناں نے اٹھ کر بیٹھ چکی تھی موبائل پر وقت دیکھ کر پوچھنے لگی "
۔" ہاں تو ۔۔۔۔ باہر جا کر دیکھوں ہم جیسے دیوانے کیسے جاگ کر ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارتے ہیں " نیناں نے پہلے تو شاہزیب کو دیکھا جس نظروں میں شوخی اور بے تابی تھی پھر اٹھ کر گرم شال لینے لگی ۔۔۔۔
دوسری طرف حیا کو چین نہیں تھا ارتضی سمیت سب بچے سو چکے تھے پہلے تووہ گلیری میں کھڑی رہی پھر کمرے میں سگی ارتضی کو سوتا دیکھ کر شرارت سوجی تھی
اس لئے اس کے پاس بیٹھ کر اپنے ڈوپٹے کے کنارے کو انگلیوں سے مروڑ کر باریک سا کر کے اس نے ارتضی کے کان میں ڈال کر
ہلانا شروع کیا تھاوہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا تھا ۔۔ اور کان کھجانے لگا ارتضی کو یوں لگا جیسے کان میں کوئی کیڑا چل کر اندر گیا ہو ۔۔۔ لیکن یک دم حیا کو پاس دیکھ کر وہ بری طرح چونکا تھا ۔۔۔
" تم ؟تم کیا اس وقت بھوت پریت کی طرح یہاں بیٹھی مجھے ڈرانے کی کوشش کر رہی ہو " یہ کہہ کر ارتضی دوبارہ سے کام کھجانے لگا
" پتہ نہیں کون میرے کان میں اس وقت کیا گھس گیا ہے "
" کچھ بھی نہیں ہے ۔۔ وہ میں تھی ۔۔ حیا نے مسکرا کر اعتراف کیا " ارتضی نے زریک نظروں سے اسے دیکھا تھا
" حیا ٹھیک ہے تم مجھ سے چھوٹی لیکن اتنی بھی نہیں کہ میرے کان گھس سکو " ارتضی کئ بات وہ ہسنتے ہوئے اپنی کارستانی بتانے لگی نا چاہتے ہوئے بھی وہ ارتضی کو مسکرانے پر مجبور کر دیتی تھی ۔۔اسکی بے رنگ زندگی میں حیا کے رنگ ہی تھے جو اسکی زندگی کو خوبصورت بناتے تھے ۔۔۔ نا جانے کیوں آج اس پر بے ساختہ پیار آیا تھا حیا کو اپنے ساتھ لگا کر بینچ کر بولا
" آئی لو یو سو مچ حیا ۔۔۔ " اس طرح کی بے قراری پر حیا کی کچھ پل تو بولتی بند ہوئی تھی ارتضی نہایت ہی ٹھنڈے مزاج کا شخص تھا ایسا جذباتی اظہار بس ایک بار ہی حیا ہر جتایا،تھس وہ بھی تانیہ سمجھ کر ۔۔۔ لیکن آج جب حیا سمجھ کر جتایا تھا تو حیا کو لگاسچ وہ جیت چکی ہے
" پروفیسر صاحب آپ کو بھی پیار میں ایسی بے قراری دیکھانی آتی ہے ؟ یقین کرنا مشکل ہے میرے لئے " حیا کی بات سن وہ پیچھے ہٹا تھا ۔۔
" تم نے سیکھا دی ہے ۔۔۔ اتنے رنگ بھر دیے ہیں میری زندگی کے جی چاہتا ہے پھر سے لڑکپن جیسا ہو جاؤں ۔۔۔۔ "
" چلیں پھر نیک کام میں دیر کیسی اٹھیں اور میرے ساتھ باہر چلیں ۔۔۔۔ آج ویسے جیتے ہیں جیسے دل کی خواہش ہے " حیا نے ارتضی کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھانا چاہا
" حیااس وقت "
" آئے نا ارتضی بہت مزا آئے گا " حیا کے کہنے پر اسے اٹھنا پڑا ۔۔۔۔ کمرہ لوک کر کے وہ باہر نکل گئے تھے ۔۔۔