Each story has its own moral every story teaches us a new lesson as it contains experience of every human life.
Here you find revenge based, Islamic based, Rude hero, Doctor, Lawyer based with many more exciting tragedies......
Tere Sung is one of the fabulous novel that get attention by readers after reading it you will love this novel. Download this novel by clicking below the given link.
If you have any queries regarding downloading let us know by commenting below. After reading this novel also leave your precious comments below and let us know about your thoughts and novel selection which type of novels would you like to read????? and which type you want to be posted here we will try to bring novels according to your choice of selection. Thanks for Reading!!!!
Tere Sung By Hina Naz
Download
Sneak Peak No 1:
وہ سجی سنوری پھولوں سے سجے بیڈ پہ لہنگا پھیلائے بیٹھی تھی۔ اس کے ذہن میں مختلف خیالات آ رہے تھے اسے صرف اتنا پتہ تھا کہ جس سے اس کی شادی ہوئی اس کا نام شہریار عالم ہے۔ اس کے علاوہ وہ کچھ نہیں جانتی تھی۔ پتہ نہیں کیسا ہو گا۔ دکھنے میں کیسا ہو گا۔ ہینڈسم ہو گا بھی یا نہیں۔ وہ اپنے ہی خیالات میں مگن تھی۔ اور کافی پراعتماد تھی۔ اچانک درواہ کھلا۔ اور ایک نشے میں ملبوس وجود اندر داخل ہوا۔
اسے کے ہاتھ میں شراب کی بوتل ابھی بھی تھی۔وہ لڑکھڑاتا ہوا اندر ایا۔ اسے دیکھ کر اس کا چہرہ سفید پڑا۔ یقیناً وہ اس کا دولہا ہی تھا۔ شہریار عالم۔ وہ جیسے ہی بیڈ کے قریب پہنچا اک دم سے بیڈ کی سائیڈ سے اسے ٹھوکر لگی اور وہ اس کے قدموں میں بیڈ پہ گرا۔ وہ اک دم سے خوف سے پیچھے ہٹی اور بیڈ کے کراؤن سے ٹیک لگا لی۔ آنکھیں خوف سے بند کر لیں۔ ماہا حیدر جو ایک پراعتماد لڑکی تھی وہ آج خوف سے کپکپا رہی تھی۔
شہریار نے اک دم اس کی طرف دیکھا ۔ سختی سے میچی ہوئی آنکھیں ،چہرے پہ خوف ۔اور اس نے بیڈ کی چادر کو دونوں ہاتھوں سے سختی سے پکڑا ہوا تھا۔ اسے ایک دم احساس ہوا کہ غلط کیا ہے اس نے۔ انتہائی گھٹیا پلین تھا یہ ۔اس نے اک دم اپنے دوست کو کوسا جس کے کہنے پر اس نے یہ ڈھونگ رچایا تھا۔
اس نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا گویا کہ اسے تسلی دینی چاہی ۔"آپ ڈریں مت" اس کا یہ کہنا ہی تھا کہ وہ اک دم چیخی " دور ہٹیں" اور بیڈ سے اتر کر واشروم کی طرف بھاگی۔اور دروازہ بند کرلیا۔ وہ پیچھے سے بس تاسف سے دیکھتا رہ گیا۔ اور ایک ملامت بھری نظر خود پہ ڈالی۔ اس کے بعد جیب سے فون نکلا اور کسی کا نمبر ملایا۔
جبکہ اسے اندر سے ابھی بھی سسکیوں کی آوازیں آ رہیں تھی۔
Sneak Peak No 2:
وہ لیپ ٹاپ پہ کام کر رہا تھا جب وہ کمرے میں آئی
سنیں!
بولو ! وہ سکرین پہ نظریں جمائے ہی بولا
نظریں تو ہٹائیں ادھر سے میری طرف دیکھیں
آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے مسز کہ میں کانوں سے سنتا ہوں آنکھوں سے نہیں۔اس نے اسے دیکھے بنا ہی بولا
(یہ ڈائیلاگ پڑھا پڑھا لگ رہا ۔اوہ !اچانک یاد آنے پر اس نے حیرت سے سوچایہ بندہ ناولز بھی پڑھتا ہے لیکن کب؟)
کھڑی رہو گی یا کچھ بولو گی بھی اب۔
آپ بھی ناولز پڑھتے ہیں؟اچانک اس کی زبان سے پھسلا۔
اس نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔رات کے دس بجے تم یہ سوال پوچھنے کے لئے میرے سرہانے کھڑی ہو؟
وہ ہڑبڑائی نہیں وہ مجھے پوچھنا تھا کہ کل مجھے امی کی طرف جانا ہے۔
پوچھ رہی ہو یا بتا رہی ہے۔؟
دونوں!یک لفظی جواب دیا۔
ابھی پچھلے ویک تو گئی تھی تم!
ہاں آپ ساتھ نہیں تھے امی بھی بار بار پوچھ رہیں تھیں اس بار آپ کے ساتھ جانا ہے۔اگر آپ کو فرصت ملے تو۔اس نے آخری بات پہ زور دے کے کہا۔
اچھا لیکن صبح تو میری میٹنگ ہے۔پھر کبھی سہی
پتہ تھا مجھے۔اپ کو اپنا کام زیادہ پیارا ہے۔ہمشیہ سوتیلی بیویوں والا سلوک کرتے ہیں آپ میرے ساتھ۔وہ رو دینے والی تھی۔
اس نے حیرت اور صدمے سے اس کی طرف دیکھا سوتیلی بیویاں؟ یہ کونسی بیویاں ہوتیں ہیں۔
وہی جن کے شوہر ہر وقت سڑی ہوئی باتیں کرتے ہیں۔کبھی ان کی تعریف نہیں کرتے۔بیوی سے زیادہ کام کو ترجیح دیتے ہیں اور تو اور کبھی شاپنگ پہ بھی نہیں لے کر جاتے۔تو یہ سوتیلی بیویوں والا سلوک ہی ہوا۔
اس کے شکوے سن کے اس نے قہقہہ لگایا۔
اس نے شادی کے بعد اسے پہلی بار ایسے ہسنتے دیکھا تھا ۔
اس نے لیپ ٹاپ سائیڈ پہ رکھا اور اس کی طرف متوجہ ہوا۔اچھا صبح تیار رہنا ہم شاپنگ پہ چلیں گے اور وہاں سے میرے سسرال اور تمھارے میکے حاضری لگوا آئیں گے۔
اس نے خوشی سے اس کی طرف دیکھا اچھا سہی ہے۔
وہ اٹھ کے باہر جانے لگا
اس وقت کہاں جا رہے ہیں آپ؟
اپنی سگی بیوی کے پاس۔یہ کہہ کے وہ باہر نکل گیا
اس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا
جبکہ پچھے اس کے چہرے پہ پہلے حیرانی کے تاثرات پھر غصے کے اور پھر اس کی اپنی ہنسی چھوٹ گی۔اس نے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا میں بھی نہ بھلا سوتیلی بیوی بھی ہوتی.
Sneak Peak No 3:
چوہے کو دیکھ کر تو چیخیں نکل جاتی ہیں تمھاری اور باتیں آرمی میں جانے کی کر رہی ہو۔واہ ! عالیان نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا
ہاں تو؟ چوہے کا آرمی سے کیا تعلق؟ وہاں چوہے تھوڑی ہوں گے۔زاریہ نے جھٹ سے جواب دیا۔
بیٹا آرمی میں جانے کے لیے جگرا چاہیے ہوتا ہے۔اور تمھاری ہمت تو چوہے کو دیکھ کے ہی جواب دے جاتی ہے۔
فیصلہ کر لیا ہے نہ ۔تو جگرا بھی آ جائے گا۔تم دیکھ لینا ایک دن تمھاری آنکھوں کے سامنے اپنے ہاتھوں سے چوہا ماروں گی۔زاریہ نے فخریہ انداز سے کہا۔ اس کی یہ بات سن کر شہباز صاحب جو کہ اتنی دیر سے چپ تھے ان کا قہقہہ بلند ہوا ۔
بابا آپ بھی ؟زاریہ نے رونی صورت بنا کر ان کی طرف دیکھا۔
ارے ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہے میری بیٹی اس سے بڑا اور جگرا کیا چاہیئے کہ اس نے آرمی میں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔مجھے فخر ہے اپنی بیٹی پر۔انشااللہ ایک دن یہ اس ملک کا نام روشن کرے گی۔
ہاں بالکل ایک دن ٹی وی پر خبر آئے گی کہ زاریہ بنت شہباز نے ایک عظیم کارنامہ سر انجام دیا ہے انھوں نے اپنے ہاتھوں سے چوہا مار کے اس دنیا سے ایک چوہا کم کر کے تاریخ رقم کر دی ہے اور وہ آج سے چویے مار خاں کے نام سے جانی جائیں گی۔ عالیان نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
Sneak Peak No 4:
سانولی تھی وہ۔ اسے کوئی کالی بولے بہت دکھ ہوتا تھا اسے بہت نازک دل کی تھی وہ۔ جب وہ پیدا ہوئی تھی تو اس کی خالہ نے پہلی بات ہی یہ بولی تھی کہ ہووو ہون ساڈے گھر کالی پرونی آیا کرے گی( اب ہمارے گھر کالی مہمان آیا کرے گی) ۔سات سال کی تھی جب وہ سکول کے لیے تیار ہوئی تھی تو اس کے ماموں آئے تھے انہوں نے دیکھ کے اس کی ماں اپنی بہن کو کہا کہ اس کے منہ پہ کریم لگاؤ تھوڑی۔
اس وقت اسے اپنے ماموں کی بات سمجھ نہیں آئی کہ کیوں کہا تھا انھوں نے۔مگر وہ بات اس کے دہن میں بیٹھ گئی۔اج وہ بیس کی ہے اور اسے ابھی تک اپنے ماموں کے چہرے کے تاثرات یاد ہیں کیسے انھوں نے کہا تھا اور وہ الفاظ بھی۔سننے میں تو عام سے ہی ہیں۔مگر اسے وہ الفاظ اپنی تذلیل محسوس ہوتے ہیں۔ وہ اپنے رشتےداروں کے سامنے جانے سے گھبراتی ہے ۔
کیونکہ اسے ڈر لگتا ہے کہ کوئی اسے کالی بول دے گا اور اسے بہت دکھ ہو گا۔ کبھی کبھی وہ بہت روتی ہے بہت زیادہ۔لیکن پھر یہی سوچ کے خود کو تسلی دیتی ہے کہ اللہ کی بنائی ہوئی ہر چیز خوبصورت ہے۔ وہ بھی خوبصورت ہے۔ لیکن پھر کوئی نہ کوئی ایسی بات ہو جاتی ہے کہ وہ پھر ڈپریشن میں چلی جاتی ہے۔یہ نہیں کہ وہ خوبصورت نہیں ہے۔اس کے نین نقش پیارے ہیں۔دائیں گال پہ ڈمپل پڑتا ہے۔ہونٹ کے پاس تل ہے۔مگر وہ اپنے کالے رنگ سے مار کھا جاتی۔کالا رنگ اس کی وہ جوبصورتی کھا جاتا۔ آج بھی وہ روئی کیونکہ اس کی خالہ نے آج بھی اسے کہا کہ تم ویسی کی ویسی کالی ہو۔ تم گوری کیوں نہیں ہوئی۔ تمھارے بہن بھائی تو پہلے سے زیادہ چیٹے ہو گئے ہیں۔ کہنے کو تو یہ عام سی بات تھی ان کے لیے مذاق تھا مگر جانے انجانے میں وہ اس کا دل دکھا گئیں وہ آج پھر رات کو روو کے سوئے گی۔اور کسی کو کوئی خبر نہ ہو گی۔
کیوں یہ دنیا جینے نہیں دیتی۔کیوں؟؟ کیا رنگ ہی سب کچھ ہوتا؟؟
This comment has been removed by the author.
ReplyDeleteDownload link is Manzil LA Pata instead of Tere Sung.
ReplyDelete