Aey Zehar Mera Taryak Bhi Tu By Zara Zainab

 



Urdu Nonvillains is a platform for all social media writers. Here you find variety of novels having different plot and concept about life of a human being who faces difficulties in every walk of life. 

Each story has its own moral every story teaches us a new lesson as it contains experience of every human life.

Here you find revenge based, Islamic based, Rude hero, Doctor, Lawyer based with many more exciting tragedies......

Aey Zehar Mera Taryak Bhi Tu   is one of the fabulous novel that get attention by readers after reading it you will love this novel. Download this novel by clicking below the given link.


If you have any queries regarding downloading let us know by commenting below. After reading this novel also leave your precious comments below and let us know about your thoughts and novel selection which type of novels would you like to read????? and which type you want to be posted here we will try to bring novels according to your choice of selection. Thanks for Reading!!!!!!


Aey Zehar Mera Taryak Bhi Tu By Zara Zainab


Download


Sneak Peak No: 1

"تم تو میرے تھے۔۔۔۔۔میرا حق تھا تم پر ۔۔۔۔۔تیرہ سال ۔۔۔مجھے۔۔۔ان تیرہ سالوں کا حساب چاہیے ملک یارِ احمد۔۔۔۔۔۔مجھے ان تمام لمحوں کا حساب۔۔۔۔چاہیے جن میں میں نے۔۔۔۔میں نے تمہیں سوچا۔۔۔۔۔ان تمام راتوں کا حساب دینا ہو گا جو میں نے تمھارے لیے جاگ کر گزاریں۔۔۔۔اس عشق کا حساب دینا ہو گا جو میں نے تم سے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان تمام لمحوں کا حساب دینا ہو گا جن میں تم نے میرے عشق سے خیانت کی۔۔۔۔ان تمام۔۔۔۔۔۔۔""""
اس کا سانس لمحہ لمحہ رک رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔" ان تمام۔۔۔
احمد نے اسے ایک جھٹکے سے پیچھے دھکیلا۔۔۔
" شٹ اپ یو نان سینس۔۔۔۔تم ہوتی کون ہو مجھ سے حساب مانگنے والی ۔۔۔میں اپنے کسی بھی فیصلے کے لیے تمھارے سامنے آنسر ایبل نہیں ہوں۔۔۔۔اینڈ لسن میں نے تم سے کوئ ساتھ نبھانے کے وعدے نہیں کیے تھے۔۔۔جو تم مجھ سے یہاں حساب مانگنے آئ ہو۔۔۔۔
میں زوہا سے محبت کرتا ہوں۔۔۔۔اور تمھارے اس نان سینس ایٹیٹیوڈ سے میرا فیصلہ بدل نہیں جاۓ گا۔۔۔۔میں تم سے شادی نہیں کر لوں گا۔۔۔اس لیے اپنا یہ ایموشنل ڈراما ختم کرو اور یہاں سے چلتی بنو۔۔۔"۔۔۔
وہ منہ پر ہاتھ رکھے مسلسل انکار میں سر ہلا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
وہ اپنا دل مسلتی ہوئ ۔۔۔۔اچانک نیچے گری۔۔۔۔اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا رہا تھا۔۔۔۔۔۔
" آپ نے دو سال پہلے کچھ مانگا تھا اسی جگہ مجھ سے یاد ہے؟؟؟" ایمان نے اپنی سامنے کھڑے شخص کی آنکھوں میں دیکھا۔
احمد نے فوراٙٙ اثبات میں سر ہلایا۔
" آج آپ کو معاف کرنے کا دل چاہ رہا تھا۔ مگر!!!!"
وہ زرا دیر کو ٹھہری۔
" ایک شرط پر معاف کروں گی۔" اس نے نظریں ادھر ادھر دوڑاتے کہا۔
" کیسی شرط"؟
" احمد نے اچنبھے سے اسے دیکھا۔ سیاہ ریشمی بال ہوا میں لہرا رہے تھے اور احمد کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ اسے یونہی دیکھتا جائے۔
ایمان کی نظر سامنے گلاب کے پھول بیچتے ہوئے بچے پر پڑی۔اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے اپنے پاس بلا کر ایک پھول خریدا اور قیمت ادا کی۔پھول خریدنے کے بعد اس کی طرف متوجہ ہوئ۔
" وہ شرط یہ ہے کہ۔۔۔۔آپ کو مجھ سے شادی کرنی ہو گی۔" وہ نیچے ریت پر گھٹنوں کے بل بیٹھی اور پھول اس کی طرف بڑھایا۔
" ملک یار احمد۔۔۔ ایمان احد خان سے شادی کرو گے؟"
وہ نہایت اونچی آ واز میں بولی۔ اردگرد کے لوگ بھی متوجہ ہوئے اور ہوٹنگ کرنے لگے۔ کچھ شوخ سے لڑکے سیٹیاں بجا رہے تھے اور کچھ اس منظر کو کیمرے میں مقید کر رہے تھے۔
اور احمد کی آنکھیں حیرت سے پھٹی جا رہی تھیں۔ اس نے ایک لمحے کی تاخیر کے بعد اس کے ہاتھ سے پھول تھاما اور اپنا ہاتھ بڑھا کر اسے کھڑا کیا۔ زور دار تالیاں بجیں۔اگلے ہی لمحے وہ ریت پر اسی طرح بیٹھا اور ایمان کے گھٹنوں سے ریت جھاڑی اور پھر اس کا ہاتھ تھام کر چل دیا۔

Post a Comment

Previous Post Next Post