Urdu Nonvillains is a platform for all social media writers. Here you find variety of novels having different plot and concept about life of a human being who faces difficulties in every walk of life.
Each story has its own moral every story teaches us a new lesson as it contains experience of every human life.
Here you find revenge based, Islamic based, Rude hero, Doctor, Lawyer based with many more exciting tragedies......
Tery Pyar Main Teri Chah Main is one of the fabulous novel that get attention by readers after reading it you will love this novel. Download this novel by clicking below the given link.
If you have any queries regarding downloading let us know by commenting below. After reading this novel also leave your precious comments below and let us know about your thoughts and novel selection which type of novels would you like to read????? and which type you want to be posted here we will try to bring novels according to your choice of selection. Thanks for Reading!!!!!!
Tery Pyar Main Teri Chah Main By Annie Azlan
Download
Sneak Peak No: 1
"سائیں معاف کر دو..اللہ سائیں کا وا..... "
ابھی اس کے الفاظ منہ میں ہی تھے کہ شاہ کی گولی اس کی کھوپڑی میں گھوری چلی گئی....... اور شاہ کے سوٹ پر اس کے خون کے چھینٹے گر کر نقش و نگار بنا گئے........
اور پھر ایک گھٹی گھٹی چیخ پر سب کے سر گھومے تھے اور وہیں آغا جان اور زوار شاہ کو کہ وہاں پہنچے ہی تھے ان کے بھی قدم وہیں رک گئے تھے.........
شاہ کی غصے سے لال آنکھیں سامنے منہ پر دونوں ہاتھ رکھ کر اپنی چیخ دباتی وہ معصوم لڑکی پر پڑیں تھیں......جو خوف کے مارے سفید ہو چکی تھی اور آنکھیں پھاڑے اسے اور نیچے پڑے بے جان وجود کو دیکھ رہی تھیں.......
"تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری اجازت کے بغیر حویلی سے باہر قدم نکالنے کی....... ہاں..... بولو کس کی اجازت سے تم نے حویلی سے قدم باہر نکالے.... ؟؟؟؟"
شاہ غصے سے اس کی طرف بڑھا اور کے دونوں بازوں کر اپنے شکنجے میں لیٹتے غراتے ہوئے بولا........
جبکہ وہ جو پہلے سے ہی خوف سے سفید ہو چکی تھی اس کے اس طرح غصے سے بولنے پر اس کے آنسو نکل آئے اور اب وہ خوف سے اپنی آنکھیں پھاڑے شاہ کو دیکھ رہی تھی جبکہ اس کی آنکھوں سے آنسو کسی لڑی کی طرح باہر نکل رہے تھے.......
"بولو....... خاموش کیوں ہو. ......بولو....."
وہ دوبارہ دھاڑا تھا جبکہ وہ اب اور ضبط نا کر سکی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی......
"خاموش..... رونا بند کرو....... خبر دار مجھے تمہاری رونے کی آواز آئی تو...... "
وہ اس کے آنسو دیکھ اور غصے سے بولا.... جبکہ اس کی گرفت اور مضبوط ہوئی تھی.......وہ اسے اپنے ہونٹ بینچ کر اپنی سسکیاں دباتی خوف سے دیکھنے لگی.... جبکہ آنسو مسلسل بہ رہے تھے......
" شاہ کیا کر رہے ہو چھوڑو اسے....... "
آغا جان آگے بڑھتے غصے سے بولے تھے جو اب تک اسی لئے خاموش تھے کہ شاہ اس ننی جان کے آنسو دیکھ کر پگھل جائے گا.......جب شاہ کو اس پر مسلسل چیختے دیکھا تو ان سے اور برداشت نا ہوا......
جبکہ زوار شاہ وہاں سے سارے ملازموں کو آنکھ کے اشارے سے بھگا چکے تھے........
"آغاجان اسے پوچھیں کہ یہ یہاں کیا کر رہی ہے......اگر اسے کچھ ہو جاتا توووو.......
اس مردود کے موبائل میں اس کی تصویریں تھیں جو وہ ساحل شاہ کو دیتا اور وہ ان کا کیا کرتا یہ تو بتانا نہیں پڑے گا نا مجھ کو......... "وہ اس کے بازو چھوڑتا آغا جان کی طرف مڑتے ہوئے بولا........
"یہ میرے ساتھ آئی تھی باہر اور اسے حویلی سے نکلنے کیلئے تمہاری اجازت کی کوئی ضرورت نہیں......... اور تم..... تم بے غیرت ہو چکے ہو جو اپنی بیوی پر سب ملازموں کے سامنے جاہلوں کی طرح چلائے جا رہے ہو......... اگر اس نے تصویریں لیں ہیں تو اس میں اسکا کو کیا قصور ہے ہاں............"
آغاجان کے بولنے سے پہلے ہی وہاں سکندر شاہ جو کہ اس کی باتیں سن چکے تھے شاہ سے غصے میں بولے....... انہیں بہت کم غصہ آتا تھا لیکن جب آتا تو انتہا کا آتا تھا......
وہ اب اس کی طرف بڑھے اور اسے اپنی آغوش میں لیا جو مسلسل روئے جا رہی تھی...... اسے کہاں عادت تھی اسطرح کے سخت رویوں کی.......
"سکندر شاہ گاڑی میں بیٹھو.... "
آغا جان سکندر شاہ کو اسے ساتھ لانے کا اشارہ کرتے وہاں سے چلے گئے جبکہ سب نے ان کے یوں خاموشی سے چلے جانے پر انہیں دیکھا تھا........
پھر سکندر شاہ بھی اس کو ساتھ لیتے زوار شاہ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئے اور حویلی کیلئے واپس نکل گئے.....
جبکہ شاہ جو اپنی غلطی شدت سے محسوس ہوئی تھی....... .
" شاہ تمہارا غصہ کسی دن تمہیں لے ڈوبے گا........ "
وہ اپنے بالوں کو مٹھی میں لیتا خود سے بولا تھا......... اور پھر وہ ملازم سے گاڑی کی چابی لے کر گاڑی میں بیٹھا اور وہاں سے نکلتا چلا گیا...... جبکہ اب اس کی منزل حویلی ہر گز نا تھی.........
Sneak Peak
No: 2
"پلیز نہیں ناااااا مجھے سونا ہے چھوڑیں مجھے...."
اب کہ اس کی آنکھوں میں نمی آئی تھی......
"اوکے...... لیکن ایک شرط پر "
وہ اس کی کمر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا. .....جبکہ وہ اس کے لمس پر جھنجھلا رہی تھی.......
"کیا شرط ہے...... "
وہ چباتے ہوئے بولی تھی.....
"جہاں ابھی تم نے کاٹا ہے اور جہاں شام میں کاٹا تھا وہاں ایک کس کرنی ہو گی...... نہیں تو ایسے ہی سونا پڑے گا....... "
وہ اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا.....
"آپ کو کس چاہئے....... "
اس کی بات سن کر عینی کا چہرہ غصے سے لال ہوا تھا...... اور پھر اس کے اندر عینی دی گریٹ گرل کی پاور آئی تھی....
اس نے اپنے بازو آزاد کراتے ہوئے ازلان شاہ کے بال پکڑتے تھے اور پھر اس بار اس کی بالوں سے بھری تھوڑی پر پہلے سے زیادہ شدت سے اپنے دانت گاڑ دیئے تھے........جبکہ غصے سے اس کا پورا جسم کانپ رہا تھا.........
اور ازلان شاہ کی صحیح معنوں میں دن میں تارے نظر آ گئے تھے اسے صحیح میں عینی سے ایسی امید نہیں تھی........
ازلان شاہ نے اپنے گھٹنوں کے درمیان اس کی ٹانگیں بھینچی اور اپنے ایک بازو سے اس کی کمر کو زور سے پکڑا اور پورا زور لگا کر پلٹا اور اسے اپنے نیچے بھینچ لیا. ......اور پھر اس کے دونوں بازو اپنی گرفت میں لیتا بیڈ کے ساتھ لگا گیا........
جبکہ اس سب کے دوران عینی کے دانت ازلان شاہ کی تھوڑی چھوڑ چکے تھے.......
"جنگلی بلی........ کیا آج ہی سارے کا سارا کھا جانے کا ارادہ ہے.......؟؟؟؟؟...
اللہ..... کتنی ظالم ہو تم....... آف میرے بال....... "
وہ اس کے اوپر جھکا بول رہا تھا...
جبکہ عینی اب خود کو اس کے رحم و کرم پر محسوس کرتی آنسوں سے بھری آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی..... ...
جبکہ ازلان شاہ سے اپنی پرنسس کے آنسو نا دیکھے گئے.... اور وہ اس کو آزاد کرتا بیڈ پر سیدھا لیٹ گیا. ..... جبکہ دونوں ہاتھ اپنے سینے پر باندھ کر نظریں چھت پرجما دیں........
"بندے کو ایسے کام ہی نہیں کرنے چاہئیں جس کی سزا وہ برداشت نا کر سکے....... "
تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد ازلان شاہ بولا تھا......
"اب وہ دونوں بیڈ پر ایک دوسرے کے ساتھ سیدھے لیٹے اپنے اوپر چھت کو گھور رہے تھے....... فرق صرف اتنا تھا کہ عینی کی آنکھوں میں آنسو تھے اور ازلان شاہ کی آنکھیں سنجیدہ.......
"تو آپ نے کیوں اتنی بری شرط رکھی تھی..... ..؟؟؟؟؟"
وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی تھی........
"پہلےمجھے چکی بھی تو تم نے کاٹی تھی نا ....میں تو آرام سے سو رہا تھا...... "
وہ اسی پوزیشن میں لیٹے آرام سے بولا.....
"تو آپ میرے اوپر چڑھ کر کیوں سو رہے تھے........ ؟؟؟؟.......میری سانس بند ہو رہی تھی.... میں نے آپ کو اپنے اوپر سے ہٹانے کی کوشش کی تھی لیکن آپ کا ویٹ ہی اتنا زیادہ ہے کہ.......
پھر اسی لئے میں نے چکی کاٹی تھی........ "
آواز میں خفگی ہنوز تھی..........
اب کی بار ازلان شاہ نے اپنا چہرہ اس کی طرف گھمایا
جبکہ چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی.......
Sneak Peak
No: 3
"تم- تمہاری ہمت کیسے ہوئی ہمارے کمرے میں اپنے منہوس قدم رکھنے کی.........
کیا تمہیں اپنی جان پیاری نہیں کے یاں ازلان شاہ کے جلال سے ناواقف ہو تم...... ؟؟؟؟"
وہ دھیمے لیکن انتہائی سرد لہجے میں بولا نہیں بلکہ پھنکار تھا........
جس سے مناہل شاہ (جو کہ اب بیڈ سے آٹھ کر کھڑی ہو چکی تھی) کی ریڑھ کی ہڈی میں خوف کی ایک لہر گھومی تھی جبکہ خوف سے ماتھے پر پسینے کے قطرے چمک گئے تھے........
"چچ-چھوٹے شاہ خدارا ایسا نا کریں اپنی باندی بنا لیں مجھے لیکن اس طرح کی بے رخی نا برتیں.....
میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں.......
اور ویسے بھی وہ اس نے ابھی تک کونسا اپنے فرائض ادا کئے ہیں....... وہ شہر کی پلی بڑھی لڑکی پتا نہیں کس کس کے ساتھ چکر چلا ہو گا اس کا اور سنا ہے کہ جہاں رہتی تھی اس گھر میں بھی جوان لڑکا تھا ہو سکتا ہے اس سے ب-------
وہ ازلان شاہ کے قریب آتی اس کے سینے پر ہاتھ رکھتی وہ بکواس پر بکواس کئے جا رہی تھی اور جب بات عینی کے کردار پر آئی تو بس پھر ازلان شاہ کا حوصلہ جواب دے گیا تھا.......
ازلان شاہ کا ہاتھ اٹھا اور اس کے منہ پر پڑتے ہوئے اس کا منہ بند کروا گیا تھا.......
"محبت کرتی ہو نا تم ازلان شاہ سے ہاں...... "
ازلان شاہ نے اس کو بالوں سے پکڑ کر اس کا چہرہ اٹھایا....... اور غصے سے چباتے ہوئے بولا.......
جبکہ مناہل شاہ کی آنکھوں سے مسلسل آنسو گر رہے تھے.........
"بولو........ محبت کرتی ہو ازلان شاہ سے کہ نہیں........ ؟؟؟؟"
وہ اس دفعہ اونچی آواز میں بولا....
"ہہہ- ہاں....... ککر کرتی ہوں.... "
وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے لڑکھڑاتے ہوئے بولی..... جبکہ آنسو مسلسل بہہ رہے تھے.......
"ہمممممم........ چلو آج تمہاری محبت کا امتحان لیا جائے....... دیکھیں تو سہی کہ مناہل شاہ ہم سے کتنی محبت کرتی ہے....... "
وہ اس کے بال چھوڑتا اس کے بازو سے پکڑ کر باہر کی طرف گھسیٹتے ہوئے بولا.......
وہ حقیقتاً ڈر گئی تھی ازلان شاہ کے انداز سے لیکن اپنی کہی بات پر ثابت قدم رہنا تھا اسی لئے خاموشی سے اس کے ساتھ کھنچی چلی گئی........
ازلان شاہ اسے اپنے پیچھے گھسیٹتے ہوئے سیڑھیاں اتر رہا تھا اور اس کے چہرے پر غصے کے اشتعال سے سرخی نمایا تھی حتی کہ کان تک سرخ پڑ گئے تھے........
Sneak Peak
No: 4
"د- د-دیکھیو تم ج- جو کوئی بھی ہو..... ا-ابھی اسی وقت یہاں سے چلے جاؤ..... و--ورنہ میں ---- تم مجھے جانتے نہیں ……….
"ششششش..... "
وہ ہکلاتے ہوئے خود کو بہادر ظاہر کرنے کی کوشش کرتی اس کو ڈرا رہی تھی ازلان شاہ نے اس کے کانپتے ہونٹوں پر انگلی رکھتے اسے خاموش کروایا......
جبکہ وہ جو اس کی بارعب پرسنالٹی سے پہلے ہی ڈری ہوئی تھی...... اس جرأت سے اس کا خلق تک خشک ہو گیا........
وہ آنکھیں پھاڑے اسے اپنے نزدیک آتے دیکھ رہی تھی.......
"نو.... تم عنیزہ دی گریٹ گرل ہو...... تم اس جلاد نما انسان سے نہیں ڈر سکتی....... آج شیری بھائی کی سکھائی گئی سیلف ڈیفنس تکنیکس کا استعمال تو کرنا ہی ہو گا....... "
وہ اس کو قریب آتے دیکھ دل میں پلان ترتیب دینے لگی...... اور جیسے ہی وہ قریب آیا وہ اس کی ناک پر جھپٹی..... اس کا ارادہ ازلان شاہ کی ناک کے سوراخوں میں انگلیاں ڈال کر ناک چیرنے کا ارادہ تھا کہ ازلان شاہ جو کہ اپنی ڈول کو اچھی طرح جانتا تھا…..اور اس کے ہاتھوں کی انگلیوں کی حرکت سے ہی اس کا اگلا وار سمجھ چکا تھا..... اس نے پھرتی سے اس کے ہاتھوں پر گوفت مضبوط کرتے انھیں دیوار سے لگایا تھا.......
"ہممممم نائس...... "
انداز میں ستائش تھی.....
وہ اپنا دوسا نشانہ ببی خطا ہوتے دیکھ...... اور اپنے ہاتھوں کو قید دیکھ کر اس کی گرفت میں پھڑپھڑاتے ہوئے خود کوآزاد کروانے کی کوششوں میں نڈھال ہو رہی تھی......
"چھوڑو...... مجھے ڈیم تمہاری ہمت کیسے ہوئی عنیزہ خان کو ہاتھ لگانے کی..... "
وہ غراتے ہوئے بولی.....
"آ -آ -آ..... زمرہ عنیزہ خان نہیں عنیزہ شاہ.....
عنیزہ ازلان شاہ..... "
وہ اس کی تصحیح کرتے ہوئے بولا.......
اور اس پر عینی کی مزاحمت رکی تھی......
اور پھر وہ ہوا جس کی امید ازلان شاہ کو بھی نہیں تھی.....
ازلان شاہ نے اس کی مزاحمت رکنے پر اپنی گرفت اس کے ہاتھوں پر ڈھیلی کی ہی تھی کہ عینی نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے کندھے پر اپنا پورا زور لگا کر دانت گاڑھ دیئے....... اور اپنے ناخن اس کی گردن میں گھسا دیئے.......
جبکہ ازلان شاہ اپنی محبت سے ملنے والے اس نذرانے مسکارتے ہوئے ہونٹ دانتوں میں دبا گیا اور دونوں بازو عینی کے گرد باندھ دیئے.......
اور اسے اپنا غصہ نکالنے دیا.......
"بس کچھ نہیں ہوا...... میں کچھ نہیں کہ رہا...... "
وہ نرمی سے اس کی کمر سہلاتے ہوئے اسے پچکارتے ہوئے بولا.......
اور اس طرح عینی کے دانتوں کی شدّت میں کمی آتی گئی اور ہاتھوں سے اس کی گردن چھوڑ کر اس کی قمیض کو اپنی مٹھیوں میں جھگڑ کر ہچکیوں سے رونے شروع ہو گئی........
عینی کا غصہ کم کروانے کا یہ انداز تو اس کے باباجان کا تھا....... اسے اس لمس میں اپنے بابا جان محسوس ہوئے تھے....... جو ہمیشہ شیری سے لڑائی ہونے پر ایسے ہی اس کو سینے سے لگا کر اس کی کمر سہلایا کرتے تھے......
اب وہ اپنا وزن ازلان پر ڈالے رونے میں مصروف تھی......
ازلان شاہ اسے ایسے ہی اپنے ساتھ لگائے صوفے پر لے گیااور اسے اپنے ساتھ لے کر بیٹھ گیا....
جبکہ وہ ایسے ہی اس کے کندھے پر اپنا سر رکھے آنسوں بہا رہی تھی.........