Mera Maan Ho Tum By Aiman Raza Season 1

 



Urdu Nonvillains is a platform for all social media writers. Here you find variety of novels having different plot and concept about life of a human being who faces difficulties in every walk of life. 

Each story has its own moral every story teaches us a new lesson as it contains experience of every human life.

Here you find revenge based, Islamic based, Rude hero, Doctor, Lawyer based with many more exciting tragedies.


Mera Maan Ho Tum is one of the fabulous novel that get attention by readers after reading it you will love this novel. Download this novel by clicking below the given link.


Mera Maan Ho Tum By Aiman Raza Season 1




If you have any queries regarding downloading let us know by commenting below. After reading this novel also leave your precious comments below and let us know about your thoughts and novel selection which type of novels would you like to read????? and which type you want to be posted here we will try to bring novels according to your choice of selection. Thanks for Reading!!!!!!

SNEAK PEAK NO: 1

ارمان نے آؤ دیکھا نہ تاؤ عینی پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی بلکہ سب کے سامنے اسکا منہ ہاتھوں میں بھرتے اسکا ماتھا چوما ۔۔۔۔
یہ منظر اندر آنے والے حویلی کے سبھی افراد نے دیکھا تھا جو عینی سے ملنے آئے تھے۔
عینی اسکی حرکت پر سٹپٹا کر رہ گئی۔۔۔
برخدار ہم ابھی یہیں ہیں احمد صاحب شریر لہجے میں بولے ۔۔۔


وہ کھسیا کر رہ گیا۔۔۔
باقی سب بھی عینی کے جواب کے منتظر تھے۔۔۔
ہم یہیں تھے کل سے کہیں گئے ہی نہیں عینی نے ارام سے سب کے سروں پر بم پھوڑا۔۔۔
کیا مطلب کہاں تھی تم۔۔۔
ہم اریبہ کے کمرے میں تھے۔۔۔
سب نے گھور کر اریبہ کو دیکھا تو وہ خوامخوا شرمندہ ہو گئی۔۔۔


آپ لوگ اسے کیوں گھور رہے ہیں ہم نے ہی اسے کہا تھا کہ کسی کو کچھ نہ بتائے۔۔۔
آخر یہاں کسی کو کوئی سکون بھی تو نہیں لینے دیتا۔۔۔
اب آپ سب نے ہمیں دیکھ لیا تو آپ جا سکتے ہیں یہ ہمارا فیملی ٹائم ہے اور ہمیں اس میں باہر والے قطعی پسند نہیں ۔۔۔
عینی نے روکھے لہجے میں کہا۔۔۔


پھپو اپ امی کو نا گھوریں انہیں ہم نے ہی باہر جانے سے منع کیا تھا عینی نے بلقیس بیگم کو رقعیہ بیگم کو گھورتے پایا تو کہا۔۔۔
جہاں سب عینی کے رقعیہ بیگم کو امی بلانے پر حیرت زدہ تھے تو وہیں بلقیس بیگم جل بھن گئیں ۔
آہستہ آہستہ سب نکلتے چلے گئے۔۔۔
سوائے ارمان کے جو ابھی بی عینی کو تک رہا تھا ۔۔۔


کیا ہے ایسے مت دیکھو ہم دو تین دن تک اریبہ کے کمرے میں ہی رہیں گے ارمان نے اسے گھور کر دیکھا۔۔۔
اور عینی نے اپنا کہا سچ کر دکھایا۔۔۔
وہ واقعی تین دن سے اریبہ کے کمرے میں ڈیرا جمائے ہوئی تھی۔۔۔
ارمان کی اب بس ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔

SNEAK PEAK NO: 2

پےشنٹ کی حالت بہت خراب ہے ہمیں نہیں لگتا ہم بچے کو بچا پائیں گے۔۔۔باقی رہی پیشنٹ تو انکی طبیعت خون بہ جانے کی وجہ سے بہت بگڑ چکی ہے۔۔۔۔
فوراً O- بلڈ کا ارینج کریں۔۔۔
وہ یہ کہتے ہی چلی گئی جبکہ بچے کا سن کر تو دونوں خاندانوں کو شدید دھچکا لگا تھا تو کیا وہ اپنے وارث کو اس دنیا میں انے سے پہلے ہی کھو چکے تھے۔۔۔


ہم میں سے o- بلڈ کس کا ہے۔۔۔
مگر سب کے سر نفی میں ہلنے پر علی لب بھینچ کر رہ گیا۔۔۔۔
بھائی کا بلڈ میچ کرتا ہے بھابی سے مگر وہ فون نہیں اٹھا رہے۔۔۔ثانیہ نے روتے ہوئے کہا۔۔۔
علی اسکی بات سنتے ہی باہر بلڈ ارینج کرنے بھاگا۔۔۔


اس سے پہلے کے وہ ہسپتال سے باہر جاتا اسکا ٹکراو شہری اور ابراھیم سے ہوا۔۔۔
او ہو کیا ہوا علی برو اتنی جلدی میں کہاں جا رہے ہو۔۔۔شہری نے اسے پہچانتے ہی پوچھا۔۔۔
وہ عینی وہ۔۔۔۔
اسنے بےربط الفاظ میں کہا تو انہیں کسی انہونی کا احساس ہوا ۔۔۔


کیا ہوا اسے ۔۔۔شہری نے سنجیدگی سے پوچھا۔۔۔
اسکے لیے o- بلڈ چاہیئے ۔۔۔
علی نے انہیں تمام صورتِ حال سے آگاہ کیا۔۔۔
میرا بلڈ بھی o- ہے جلدی چلو ابراھیم نے جلدی سے کہا تو وہ سب بغیر وقت ضائع کیے اوپریشن تھیٹر کی طرف بڑھے۔۔۔


ابراھیم نے عینی کو خون تو دے دیا مگر ڈاکٹرز ابھی بی ناامید نظر آ رہے تھے۔۔۔
شہری نے فون کر کے نمرہ کو بھی بلا لیا تھا جسکا رو رو کر برا حال ہو چکا تھا۔۔۔
شہری اسے کہو نا وہ مجھے چھوڑ کر نا جائے میں اسکے بغیر کیسے رہوں گی۔۔۔


نمرہ نے روتے ہوئے شہری کو جھنجوڑا جو خود آنکھوں میں انسو لیے اسے تسلی دے رہا تھا۔۔۔
اسے واپس انا ہی ہو گا میری عینی اتنی کمزور نہیں وہ تو سب کو ہرا دیتی ہے۔۔۔


نمرہ نے اپنے اپ سے بڑبڑاتے کہا۔۔۔۔
رات کے دو بج چکے تھے جب ایک ڈاکٹر تیزی سے انکی طرف بڑھتا ہوا آیا۔۔۔
سب آنکھوں میں امید لیے اسے دیکھ رہے تھے جبکہ وہ انکی آنکھوں میں امید دیکھتا دکھی لہجے میں بولا۔۔۔
I am very sorry
انکی طبیعت بہت بگڑ چکی ہے وہ آخری سانسیں لے رہی ہیں ۔وہ اپ سب سے ملنا چاہتی ہیں وقت کم ہے جلدی کریں ۔۔۔


جبکہ اتنا سننا تھا کہ سب اپریشن تھیٹر کی طرف بڑھے۔۔۔۔
عینی بیٹا میری جان آنکھیں کھولو دیکھو بابا جان آئے ہیں کریم صاحب کی آواز ضبط کے باوجود رندھی ۔۔۔۔
انکی آواز پر عینی جو پٹیوں میں جکڑی تھی اسنے آنکھیں کھولیں اور دھیما سا مسکرائی پھر باری باری سب کو دیکھا۔۔۔۔
اسکی آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے تھے۔
ثانیہ پر نظریں پڑتے ہی اسکی نظریں تھم گئیں۔۔۔۔


بھابی پلیز مجھے معاف کر دیں ثانیہ نے آگے بڑھ کر عینی کا ہاتھ پکڑتے کہا جسپر اسنے دھیمی سی مسکراہٹ سے جواب دیا۔۔۔
مجھے تم سے کوئی گلا نہیں ثانیہ تم تو بہت اچھی ہو ہم تمہارے اور دبیر کے لیے بہت خوش ہیں ۔۔۔
کچھ بھی ہو جائے اسے سرِ راہ نا چھوڑنا اسنے دبیر کو دیکھتے کہا جسنے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے ثانیہ کا ہاتھ تھام لیا جس پر عینی مسکرا دی۔۔۔
مگر اسکی مسکراہٹ تھمی۔۔۔


مگر ہم ارمان کو کبھی معاف نہیں کر پائیں گے وہ قاتل ہے ہمارا اور ہمارے بچے کا عینی کی آنکھوں سے آنسوؤں کا نا رکنے والا سلسلا جاری ہو چکا تھا۔۔۔
جس پر سبھی رو دیے۔۔۔


وہ تڑپے گا اور اسے سکون میسر نہیں ہوگا ۔۔۔ہم اسے بددعا نہیں دے رہے ہم جانتے ہیں اسے اب تک اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہو گا اسنے جو بھی کیا اسے پھنسایا گیا تھا مگر اب اسکے ساتھ ہم نہیں ہوں گے تو وہ روئے گا اور پچھتائے گا۔۔۔
کیونکہ وہ اپنی محبت پر یقین نا کر سکا۔۔
اسے کہنا کہ بےشک ہم اپنی محبت کی خاطر اسے معاف کر بھی دیتے مگر ایک ماں اسے معاف نہیں کرے گی کبھی۔۔۔
اسکی سانسیں تیز ہو گئیں تھیں اسنے علی کی طرف دیکھا جو اسکے لیے رو رہا تھا۔۔۔
اسنے کانپتا ہوا ایک ہاتھ وا کیا تو وہ اس سے آ لگا۔۔۔
"اے چھٹکی میں تمہیں ایسے نہیں جانے دوں گا ابھی تو ہم نے بہت سارا جینا ہے ۔۔۔میں نہیں رہ سکتا یار تمہارے بغیر"
آخر میں وہ بچوں کی طرح رو دیا۔۔۔۔


ہمارے بعد تمہیں ہی سبکو سمبھالنا ہے اسنے علی کا پیار سے دیکھتے کہا ۔۔۔
اب اسکی توجی نمرہ پر تھی جو سب کا لحاظ بھلائے روئے جا رہی تھی۔۔۔
نمرہ میری جان ہمیں آج تک تم جیسا دوست نہیں ملا۔ہم خوشقسمت ہے جو تم جیسی دوست اور شہری اور ابراھیم جیسے بھائیوں سے نوازے گئے ۔۔۔
اسکا اتنا کہنا تھا کے وہ بھاگ کر اسکے گلے لگ گئی۔۔۔


بابا جان ہم اس دنیا میں سب سے زیادہ پیار آپ سے کرتے ہیں اور دادا جان آپ سے بھی عینی نے کریم صاحب کے بعد مہمت شاہ کو مخاطب کیا جو مضبوط ہونے کے باوجود رو دیے تھے۔۔۔
اچانک اسکی ہارٹبیٹ تیز ہونے لگی۔۔۔
علی ڈاکٹر کو بلانے بھاگا۔۔۔


ہماری آخری خواہش ہے کہ ہمیں یہیں سے کفن بند کیا جائے اور کسی کو ہمارا چہرہ نا دکھایا جائے اور قبر کی تختی بھی خالی ہو کیوں کہ جیسے ہم دنیا میں ماں باپ کے بغیر رہے ویسے ہی ہمارے شوہر نے بھی ہم سے رشتہ توڑ لیا تو اب کسی نام کی گنجائش نہیں۔۔۔۔
اسے سانس نہیں آ رہا تھا اسکی سانس اکھڑ رہی تھی۔۔۔
ثانیہ اور نمرہ تو زور سے رو دیں ان سے دیکھا نہیں جا رہا تھا۔۔۔


ہم جان تے ہیں ہماری آخری خواہش کا احترام کیا جائے گا۔۔۔
عینی نے کریم صاحب کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔
جو خود بھی بےجان نظر آ رہے تھے۔۔۔
کتنا خو بصو۔۔رت لم۔۔حہ ہے اپنوں کے بیچ۔۔۔۔ آخری سا۔۔۔۔نس۔یں لینا بھی عینی نے درد بھری مسکراہٹ سے کہا۔۔۔
ڈاکٹرز اسے دیکھ رہے تھے۔۔۔
ہم اپ سب ک و بہت چاہتے ہیں ۔۔۔اسکا یہ کہنا تھا کہ اسنے ایک آخری ہچکی لی اور اسکی ہارٹ بیٹ لائین

سیدھی ہو گئی جس میں زندگی کی رمق بھی باقی نا تھی۔۔۔۔
سب کو گویا سانپ سونگھ گیا تھا۔۔۔
سب چونکے تب جب ڈاکٹر نے اسکے منہ پر سفید کپڑا ڈال دیا۔۔۔
She is no more....
سب کی نا رکنے والی چیخ و پکار شروع ہو چکی تھی۔۔۔کریم صاحب وہیں حوش و خرد سے بےگانہ ہو چکے تھے۔۔۔


عینی کو اسکے کہے کے مطابق وہیں سے کفن بند کیے آفندی ہاؤس لے جایا جا رہا تھا۔۔۔۔
جب آفندی ہاؤس کے باہر ایمبولنس کے سائرن گونجے تو سب گھر والوں نے دل تھام لیے۔۔۔


مرد حضرات فوراً باہر بڑھے جہاں کسی کو چارپائی پر ڈالے اندر لایا جا رہا تھا۔۔۔
وہ سب صدمے کی سی کیفیت میں تھے۔۔۔
حدید جلدی سے آگے بڑھا اور علی سے پوچھا ۔۔۔علی یہ کون ہے جسپر علی نے لال آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا اور اسکے گلے لگ کر بچوں کی طرح رو دیا۔۔۔
وہ ہمیں چھوڑ کر کیسے جا سکتی ہے۔۔۔
علی کی بات پر حدید کے الفاظ اپنی موت اپ مر گئے ۔۔۔
یہ وہ کیا کہ رہا تھا یہ کوئی مزاق تھا یہ انکا امتحان سب ہی اندر کی طرف بڑھے جہاں خواتین کا حال ان سے بھی برا تھا۔۔۔۔


زرینہ بی بے ہوش ہو چکیں تھیں۔۔۔۔
ماہین،ماہرہ،مشال کی تو رو رو کر ہچکیاں بندھ گئیں تھیں۔۔۔۔
کسی کے پاس دلاسہ دینے کا ایک لفظ نہیں تھا۔۔۔۔
صبح سبھی لوگ رفتہ رفتہ آنا شروع ہو چکے تھے۔۔خواتین نے اسکا آخری دیدار کرنے کی ضد کی تو انہیں عینی کی آخری خواہش کے بارے میں بتایا گیا۔۔۔۔
جس پر وہ چپ سادھ گئیں۔۔۔۔
جنازہ اٹھا تو دل دہلا دینے والی آہ وپکار شروع ہو گئی۔۔۔


کونسا ایسا فرد ایسا تھا جو رویا نا ہو وہاں تو جیسے غموں کا بسیرا ہو چکا تھا۔۔۔
کریم صاحب نے ساتھ جانے کی بہت ضد کی مگر ان کو ڈاکٹر نے سختی سے بیڈ سے نا اترنے کی تاکید کی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
جب علی نے عینی کو دفنایا تو اسکا دل کرلایا ۔۔۔وہ اپنا ایک حصہ یہاں دفن کر رہا تھا وہ کیسے رہتا اسکے بغیر اسنے شدت سے ارمان کے مرنے کی دعا کی۔۔۔۔


جب وہ شام تک وہیں قبر پر بیٹھا رہا تو کبیر اسے نا نا کرنے کے باوجود بھی گھر لے گیا۔۔۔۔
جہاں سے اب یقیناً خوشیاں بہت دور جا چکیں تھیں۔۔۔۔

Post a Comment

Previous Post Next Post