Jis Tan Nu Lagdi O Tan Jane By Farwa Yousuf

 


Urdu Nonvillains is a platform for all social media writers. Here you find variety of novels having different plot and concept about life of a human being who faces difficulties in every walk of life. 

Each story has its own moral every story teaches us a new lesson as it contains experience of every human life.

Here you find revenge based, Islamic based, Rude hero, Doctor, Lawyer based with many more exciting tragedies.

Farwa Yousuf  is one of the fabulous novel that get attention by readers after reading it you will love this novel. Download this novel by clicking below the given link.

Jis Tan Nu Lagdi O Tan Jane By Farwa Yousuf Complete Pdf


Sneak Peak No: 1


"اٹھو۔۔"
اسنے اجالا کو جھڑکا۔۔ وہ سہم گی۔۔ ساتھ ہی ہوش کی دنیا میں وآپس لوٹی تھی۔۔

"حیدر۔۔ یہ سب۔۔" اسکے پہلو میں کھڑے اسنے نم لہجے میں کہا۔۔ اسے اپنی آواز کسی گہری کھائی سے آتی محسوس ہوئی تھی۔۔

"ضامن۔۔ ضامن شاہ کہو۔۔" شہادت کی انگلی اسکے سامنے لہراتے وہ کڑے تیور لئے اسکی جانب دیکھ رہا تھا۔۔

"تمھیں کیا لگا؟؟؟ تم مجھ سے شادی کرو گی؟؟؟(شہادت کی انگلی سے سینے پہ ٹہوکا دیا) ہونہہ۔۔" اسنے تلخی سے سر جھٹکا تھا۔۔

"تم ضامن شاہ کی بیوی کہلانے لائق نہیں۔۔ تم۔۔(اجالا کی جانب اشارہ کیا) ضامن شاہ کے قابل ہرگز نہ تھی۔۔ ضامن شاہ کی زندگی میں شامل ہونے کی اوقات نہیں تمہاری۔۔" تلخی سے کہتے وہ مسکرایا۔۔ عنیزہ کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا تھا۔۔ اسنے ایک پل کو بھی ضامن کے چہرے سے نگاہیں نہ ہٹائیں تھیں۔۔ ایک قیامت خیز منظر تھا جس سے وہ گزر رہی تھی اور باقی سب تماشائی بنے دیکھ رہے تھے۔۔

"نی۔۔نیک۔۔نکاح۔۔" نم لہجے میں اٹکتے وہ بامشکل بولی تھی۔۔ مسلسل رونے سی اسکی ہچکی بندھ چکی تھی۔۔ ضامن نے اسکی حالت پہ ایک بھرپور قہقہ لگایا تھا۔۔

"نکاح۔۔ وہ نکاح نہیں تھا مس عنیزہ ہمدان فاروقی۔۔ وہ دو طرفہ معاہدہ تھا۔۔ تم واقعی بہت احمق ہو۔۔" سینے پہ ہاتھ باندھے وہ تھوڑی تلے انگلی ٹکائے سوچنے لگا۔۔ پھر اسے دیکھ سر نفی میں ہلاتا ہنسنے لگا۔۔ عنیزہ پیشانی پہ بل ڈالے اسے دیکھے گئی۔۔ وہ کیوں ہنس رہا تھا۔۔کیا کہ رہا تھا۔۔؟ اسے کچھ سمجھ نہ آ رہی تھی۔۔ اگر کچھ تھا جو وہ سمجھ رہی تو محض یہ کہ اسکی سانسیں اکھڑ رہی تھیں۔۔دل میں درد کی لہر اٹھ رہی تھی۔۔ضامن نے ایک سفید کورا کاغذ جیب سے نکالتے عنیزہ کی جانب بڑھایا تھا۔۔

"اس پر جس شخص کے دستخط ہیں وہ اس دنیا میں ایگزیسٹ ہی نہیں کرتا۔۔ اور یہ فرضی کاغذ ہیں کوئی نکاح نامہ نہیں۔۔ ان پہ وہی حروف درج ہیں جو میں تمھیں دکھانا چاہتا تھا۔۔ تو مس عنیزہ ہمدان فاروقی۔۔" ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں ٹھونستے وہ دو قدم بڑھاتا اسکے قریب آیا تھا۔۔

"اب تم اپنی بچی ہوئی زندگی یہی سوچتے گزارنا کہ تم شادی شدہ ہو یاں کنواری۔۔" ضامن شاہ نخوت سے بولا پھر اسکے مزید قریب ہوا۔۔ عنیزہ اپنی جگہ ساکت کھڑی تھی۔۔ قدم منجمد ہو گئے تھے۔۔ جسم سے جان نکلتی محسوس ہونے لگی۔۔

"کل کی رات کے لئے بہت شکریہ۔۔ That was realy beautiful" ضامن نے اسکے کان کے قریب سرگوشی کی۔۔ عنیزہ کرنٹ کھا کر دو قدم دور ہٹی تھی۔۔

"اب تم خود شرافت سے یہاں سے جاؤ گی یاں میں گارڈز کو بلاؤں اور بھرے مجمع میں تمہاری خاطر تواضع کرواؤں۔۔"

"تم یہ نہیں کر سکتے۔۔" نفی میں گردن ہلاتی وہ بےیقینی سے کہہ رہی تھی۔۔

"I Just did.."
اسنے لاپرواہی سے کندھے اچکائے۔۔ "تم مجھ سے محبت کرتے ہو۔۔"
"آھہ۔۔ وہ صرف ایک جھوٹ تھا۔۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔۔" سر کھجاتے وہ لاپرواہی سے کہہ رہا تھا۔۔

"تم نے مجھ سے کہا تھا تم مجھے کبھی نہیں چھوڑ کر جاؤ گے۔۔"

"میں نے بہت کچھ کہا تھا لیکن اب میں اپنی ہر بات وآپس لیتا ہوں۔۔"

"کیا یہ سب اتنا آسان ہے۔۔ کیا تمھیں ذرا سی بھی تکلیف نہیں ہوتی۔۔" وہ حلق کے بل چلائی۔۔ سبھی دم سادھے اس منظر سے لطف اٹھا رہے تھے۔۔

"میری زندگی برباد کر کے تم یہ کہہ رہے ہو کہ میں اپنی ہر بات وآپس لیتا ہوں۔۔ کیا یہ سب اتنا آسان ہوتا ہے۔۔" اسکی سانس پھول چکی تھی۔۔ وہ گہرے سانس لینے لگی۔۔

"ضامن شاہ کے لئے کچھ مشکل نہیں۔۔" عنیزہ کی سانس رک گئی۔۔ وہ خاموشی سے اسے دیکھے گئی۔۔ چند گارڈز ہال میں داخل ہوئے تھے۔۔ اسٹیج پہ چڑھتے انہوں نے عنیزہ کا بےجان ہوتا وجود تھاما۔۔ اب اسی احساس ہوا کہ وہ بلکل خوبصورت نہ بولتا تھا، وہ تو زہر اگلتا تھا۔۔ اس نےچہرے پر ایک اچھے انسان کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا اور اب جونہی نقاب اترا تو اسکا اصل واضح ہوا جو ایک درندے سے بھی بدتر تھا۔۔
گارڈز اسے تقریباً گھسیٹتے وہ ہال کی چوکھٹ کی جانب بڑھ رہے تھے۔۔

"چھوڑو مجھے۔۔" ہوش کی دنیا میں وآپس لوٹتی وہ اپنا ہاتھ ان کی گرفت سے آزاد کرواتے الٹے قدموں وآپس آئی تھی۔۔ جہاں وہ اسٹیج پہ ہنوز کھڑا اپنے کوٹ پہ لگی فرضی دھول صاف کر رہا تھا۔۔

"تم کبھی سکون سے نہیں رہو گے۔۔ تم نے میری زندگی عذاب بنائی ہے نہ۔۔ تم بھی سکون سے نہیں رہو گے۔۔" گالوں پہ بہتے آنسو بےدردی سے رگڑتے وہ نگاہوں میں تپش لئے اس ظالم کو دیکھ رہی تھی جو اسکی زندگی برباد کر چکا تھا۔۔۔ اور اسے ذرہ برار بھی افسوس اور پچتاوا نہ تھا۔۔ "میرا کیا۔۔ آج نہیں تو کل، میں تو مر جاؤں گئی۔۔ لیکن تم( شہادت کی انگلی ضامن کی جانب اٹھائی) تم کبھی سکون میں نہیں رہو گے۔۔ تم موت کو پکارو گے لیکن تمھیں موت نہیں آئے گئی۔۔ تم بھی اس محبت کا مزہ چکھو گے جس نے مجھے اس مقام تک پہنچایا ہے۔۔ تم موت کو پکاروگے، خود کو نقصان پہنچاؤ گے لیکن تمھیں ایک خروچ تک نہیں آئے گے تم تڑپو گے ضامن شاہ۔۔ آج میں اس بھرے مجمع میں ہاتھ اٹھا کر تمھیں بددعا دیتی ہوں کہ (ہاتھ فضا میں اٹھاتے آسمان کی جانب دیکھا) تم برباد ہو جاؤ۔۔ در در کی ٹھوکریں کھاؤ۔۔ موت کے سوا کوئی اور راستہ تمھیں دکھائی نہ دے لیکن تمھیں موت نہ آئے۔۔ محبت میں مر جانا آسان ہے لیکن جیتے جی اس محبت کے عذاب کو جھیلنا بہت مشکل ہے۔۔ میرا خدا دیکھ رہا ہے ضامن شاہ۔۔تم پہ بھی آئے گا یہ وقت۔۔ تم محسوس کرو گے میری تکلیف۔۔ میری بےبسی۔۔ تم برباد ہوگے۔۔ برباد۔۔" بےدردی سے آنسو رگڑتی وہ ہال سے نکل گئی۔۔ ضامن کا وجود پتھر کا ہو چکا تھا۔۔ وہ اپنی جگہ شل سا کھڑا رہا۔۔ "ایسا کچھ نہیں ہوتا۔۔" سر جھٹکتے وہ کارلر درست کرتا اسٹیج سے نیچے اترا تھا۔۔ بددعا اثر انداز ہونی تھی یاں نہیں، یہ تو وقت ہی بتانے والا تھا۔۔ اور وقت نے بتایا تھا۔۔ ضامن نے عنیزہ کو دنیا و آخرت میں رسوا کیا تھا۔۔اللّٰہ کی نیک بندی کو صراطِ مستقیم سے ہٹاتے غلط راہوں کی جانب موڑ گیا تھا۔ ان سنسان گلیوں کی جانب جہاں تاریکی کا ڈیرہ تھا اور پھر اسکی انگلی چھوڑ وہ اسے تنہا چھوڑ گیا۔۔ مگر وقت کا چکر گول ہوتا ہے۔۔ اور بہت جلد ضامن شاہ کا برا وقت شروع ہونے والا تھا۔۔



Sneak Peak No: 2

ضامن کی سانس تھم سی گئی۔۔ وقت تھم گیا۔۔ اطراف میں موجود لوگوں کا وجود پتھر کا مجسمہ بن گیا۔۔ انکا اپنا وجود یوں تھا گویا کاٹو تو بدن میں لہو باقی نہ رہا ہو۔۔ اگر کچھ بارگشت کر رہا تھا تو وہ تھے دونوں کے دل، جو ایک دوسرے کیلئے دھڑکتے تھے۔۔

"تم زندہ تھی۔۔۔" نم لہجے میں وہ کہہ رہا تھا۔۔ عنیزہ کی آنکھیں بھیگ رہی تھیں۔۔ "مجھ سے۔۔۔" ضامن کے حلق میں گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی۔۔ "مجھ سے چھپ کر زندگی گزار رہی تھی۔۔"

"میں۔۔ میں مر مر کر جی رہی تھی ضا۔۔۔ ضامن۔۔" بامشکل اٹکتے وہ کہہ رہی تھی۔۔ "اس تکلیف کو برداشت کرنا۔۔" سر پہ ہاتھ رکھے اس نے کرب سے آنکھیں موندیں۔۔ "مجھے لگتا تھا ایک دن۔۔۔ ایک دن تو ایسا ہو گا جب آپ لوٹ کے آئیں گے۔۔ میں۔۔ سوچتی تھی کہ جب آپ ملیں گے تو آپکے۔۔" اس نے اپنی ہتھیلی ضامن کے سینے پہ رکھی۔۔ ضامن نے کرب سے آنکھیں موند لیں۔۔ دل کی دھڑکنیں اکھڑنے لگیں تھیں۔۔ "سینے سے لگ کے خوب روؤں گی۔۔ شاید پھر یہ تکلیف کم ہو جائے۔۔"

عنیزہ نے نگاہیں اٹھائیں۔۔ ضامن کا چہرا آنسوؤں سے بھیگا تھا۔۔ "آپ میری تڑپ محسوس نہیں کر سکتے۔۔ کوئی نہیں کر سکتا۔۔ آپ کو دیکھنے کیلئے تڑپتی تھی۔۔ لیکن پھر۔۔۔" وہ زخمی سا مسکرائی۔۔ "سوچتی تھی کہ جانے زندگی اتنی مہلت دے گی یاں نہیں۔۔"

"نہیں۔۔ اب میں ایسا نہیں ہونے دونگا۔۔" ضامن نے اسکے قریب ہوتے، عنیزہ کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لئے۔۔ "اگر تمہیں کچھ ہوا تو میں سب برباد کردوں گا۔۔ ایک عرصہ انتظار کیا ہے۔۔ امید تھی کہ تم ہو۔۔ میں محسوس کر سکتا تھا۔۔" وہ دیوانہ وار کہہ رہا تھا۔۔

"ضامن۔۔ نہیں۔۔ میں۔۔۔"
"عنیزہ۔۔ میں روز مرتا تھا۔۔ تمہیں آج یوں دیکھ کہ ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے اللّٰہ نے مجھے ایک نئی زندگی بخشی ہو۔۔"

"ضامن۔۔ مجھے جانا ہو گا۔۔" اسکے ہاتھوں کی گرفت اپنے ہاتھوں سے ہٹاتے عنیزہ نے اپنے اور ضامن کے درمیان فاصلہ قائم کرنا چاہا۔۔ ضامن نے اسے اچھنبے سے دیکھا۔۔

عنیزہ مڑی۔۔ ضامن نے اس کی کلائی تھامی۔۔ "نہیں۔۔" ضامن کا ہاتھ ہوا میں معلق رہ گیا۔۔ عنیزہ کا عکس ہوا میں تحلیل ہو گیا۔۔ اسنے رخ پھیر کر دیکھا۔۔ وہ کہیں نہیں تھی۔۔ "ایسا نہیں ہو سکتا۔۔ وہ۔۔ وہ یہیں تھی۔۔ میری آنکھیں دھوکا نہیں کھا سکتیں۔۔" دیوانہ وار ایڑیوں پہ گول گھومتا، وہ بال مٹھیوں میں بھینچے اطراف میں دیکھ رہا تھا۔۔ مال تقریبا خالی تھا۔۔

"کام ہو چکا ہے۔۔ جلدی وآپس لوٹو۔۔" آئیر پیس سے سکندر صاحب کی بارعب آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی۔۔ بائیں ہاتھ سے آئیر پیس نکالتے، اسنے بےدردی سے اسے زمین پہ دے مارا۔۔ یہ ضامن کا وہم تھا یاں حقیقت، وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔۔ خود کو پرسکون کرتا وہ گہرے سانس اندر کھینچنے لگا۔۔ اسے جواب چاہئے تھا۔۔ کیا وہ واقعی زندہ تھی۔۔؟ اور ضامن جانتا تھا اسکے ہر سوال کا جواب ایک ہی شخص کے پاس موجود تھا۔۔
ایک نگاہ سارے پہ ڈھوراتا وہ لمبے ڈگ بھرتا مال سے باہر آ نکلا۔۔ اسکے اٹھتے قدم اسکی منزل کی نشاندہی کرنے کیلئے کافی تھے۔۔


Post a Comment

Previous Post Next Post