Piya Na Samjhe By Farheen Shah

 


Urdu Nonvillains is a platform for all social media writers. Here you find variety of novels having different plot and concept about life of a human being who faces difficulties in every walk of life. 

Each story has its own moral every story teaches us a new lesson as it contains experience of every human life.

Here you find revenge based, Islamic based, Rude hero, Doctor, Lawyer based with many more exciting tragedies.

Piya Na Samjhe By Farheen Shah is one of the fabulous novel that get attention by readers after reading it you will love this novel. Download this novel by clicking below the given link.

Piya Na Samjhe By Farheen Shah Complete Pdf


Sneak Peak

ڈر لگ رہا ہے۔۔۔۔؟
وہ اسکی کپکپاہٹ پہ چوٹ کرتا طنزیہ مسکرایا۔۔۔۔ جھک کر اپنی ٹھوڑی اس کے کندھے پر ٹکا دی اور گہری سانس بھر کر اس کے وجود سے اٹھتی خوشبوؤں کو اپنے اندر اتارا۔۔۔۔

ظاہر ہے۔۔۔۔ ایک وحشی حیوان میرے قریب ہے۔۔۔۔ ڈر تو لگے گا۔۔۔۔

اس سے نظریں ملائے بغیر علیشہ مضبوط لہجے میں بولی۔۔۔۔

زوار نے اپنی خمار سے بند ہوتی آنکھوں کو پٹ سے کھولا اور اگلے ہی پل جارحانہ انداز میں علیشہ کو بازو سے پکڑ کر اپنے مقابل کیا۔۔۔۔ علیشہ کا پانچ فٹ پانچ انچ کا قد اس چھہ فٹ سے نکلتے شخص کے آگے بہت بوٹا لگ رہا تھا۔۔۔۔ زوار نے اسے دونوں بازوؤں سے جکڑ کر اونچا کیا تھا۔۔۔۔ علیشہ کے پیر ایڑھیوں کی طرف سے اوپر کو اٹھ گئے۔۔۔۔ زوار کا چہرہ اس کے چہرے کے اتنے نزدیک تھا کہ وہ باآسانی اس کی گرم سانسوں کو اپنے چہرے پر محسوس کر سکتی تھی۔۔۔۔ اس کی سانسوں میں سگریٹ کی بو بھی شامل تھی مگر اس وقت علیشہ کے لیے یہ چیز کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی۔۔۔۔ زوار کے جارحانہ انداز اور آہنی گرفت نے اس کا دماغ ماؤف کر دیا تھا۔۔۔۔ بولتی بند کر دی تھی۔۔۔۔

زوار کچھ پل اس کی آنکھوں سے جھانکتے خوف کو دیکھتا رہا پھر ایک دم سر پیچھے کو گرا کے قہقہ لگا کر ہنس پڑا۔۔۔۔ علیشہ کو اس وقت وہ کوئی پاگل لگا۔۔۔۔

تم تو یوں ڈر رہی ہو جیسے میرا لمس نیا ہو تمہارے لیے۔۔۔۔ کم آن ہنی۔۔۔۔ بی بریو۔۔۔۔ چیخ پکار اس رات بہت مچ گئی تھی۔۔۔۔ آج کی نائٹ ہم انجوائے کرتے گزارتے ہیں۔۔۔۔ کم۔۔۔۔

انتہائی عامیانہ الفاظ کہتے ہوئے وہ علیشہ کو اہانت کی گہرائیوں میں اتار گیا تھا۔۔۔۔ جب زوار نے اس کے بازو چھوڑ کر ہاتھ تھامتے ہوئے بیڈ کی طرف قدم بڑھائے تب ہوش میں لوٹتی علیشہ نے پوری قوت سے اس کا ہاتھ جھٹکا تھا۔۔۔۔ زوار کی گرفت ہاتھ پر بہت نرم تھی۔۔۔۔ اس کا ہاتھ باآسانی پیچھے ہوا تھا۔۔۔۔

آپ کتنے گھٹیا انسان ہیں۔۔۔۔ اپنے گناہ کو گناہ نہیں مانتے۔۔۔۔ ایک پل کو نادم نہیں دیکھا میں نے آپ کو۔۔۔۔ ایک لفظ معزرت کا نہیں کہا آپ نے مجھ سے۔۔۔۔ اس گناہ کو آپ بس ایک غلطی سمجھتے ہیں جسے دنیا سے چھپانے کے لیے آپ نے مجھ سے نکاح کر لیا۔۔۔۔ آپ سمجھتے ہیں نکاح کرنے سے آپ کے نامہ اعمال سے بھی وہ گناہ دھل جائیگا۔۔۔۔؟

وہ بولتے بولتے رکی۔۔۔۔ حلق خشک ہو گیا تھا سو کھانسی۔۔۔۔ پھر اسی ٹون میں دوبارہ شروع ہو گئی۔۔۔۔

اب جب آپ نے مجھ سے نکاح کر کے مجھ پر عظیم "احسان" کر ہی دیا ہے تو مجھ سے بیوی کی طرح ہی بیہیو کریں۔۔۔۔ نکاح کیا ہے آپ نے مجھ سے۔۔۔۔ نکاح کے اس پاک رشتے کے تقدس کا خیال رکھیں۔۔۔۔ خرید کے نہیں لائے جو جیسا چاہینگے ویسا کرینگے۔۔۔۔ آئندہ مجھ سے اس گھٹیا لہجے میں بات کرنے کی غلطی مت کیجئے گا۔۔۔۔ بیوی ہوں بیوی سمجھیں۔۔۔۔ عزت کرنا سیکھیں اس رشتے کی بھی اور میری بھی۔۔۔۔

تو بیوی کی طرح ہی تو بیہیو کر رہا ہوں۔۔۔۔

اس کی بات کے درمیان ہی ساری باتوں میں اپنے مطلب کی بات کا جواب دیتے ہوئے زوار ڈھٹائی سے بولا۔۔۔۔ علیشہ کی تمام تقریر اس نے سینے پر بازو لپیٹ کر کسی من پسند دھن کی طرح سنی تھی۔۔۔۔

علیشہ چپ سی ہو کر بے بسی سے اسے تکنے لگی۔۔۔۔ آنکھوں میں جمع پانی بھل بھل بہہ نکلا۔۔۔۔ وہ ڈھیٹو کا سردار تھا۔۔۔۔ اسے کچھ بھی سمجھانا دیوار سے سر پھوڑنے جیسا تھا۔۔۔۔

یہ سب بیوی کے ساتھ ہی تو کرتے ہیں نا۔۔۔۔

معصومیت تو جیسے ختم تھی اس پر۔۔۔۔ علیشہ نے جھنجھلا کر ڈریسنگ روم کا رخ کیا تھا مگر زوار نے اسے کمر سے تھام کر اس کی پشت اپنے سینے سے لگا لی اور اس کے بالوں میں اپنا چہرہ چھپا لیا۔۔۔۔ علیشہ کی سانس سینے میں اٹک کر رہ گئی۔۔۔۔

برق کیا ہے عکسِ بدن نے تیرے ہمیں اے تنگ قبا۔۔۔۔
تیرے بدن پہ جتنے تل ہیں سارے ہم کو یاد ہوئے۔۔۔۔

زوار کی بھاری مدہوش آواز کمرے میں گونجی تھی۔۔۔۔ علیشہ کے ہر ہر مسام سے پسینہ پھوٹ نکلا تھا۔۔۔۔ وہ اس کی نرم مگر مضبوط گرفت میں پھڑپھڑا کے رہ گئی۔۔۔۔

Post a Comment

Previous Post Next Post