Zulm Ki Inteha By Wajiha Gull

 



Urdu Nonvillains is a platform for all social media writers. Here you find variety of novels having different plot and concept about life of a human being who faces difficulties in every walk of life. 

Each story has its own moral every story teaches us a new lesson as it contains experience of every human life.

Here you find revenge based, Islamic based, Rude hero, Doctor, Lawyer based with many more exciting tragedies.

Wajiha Gull is one of the fabulous novel that get attention by readers after reading it you will love this novel. Download this novel by clicking below the given link.


Zulm Ki Inteha By Wajiha Gull



If you have any queries regarding downloading let us know by commenting below. After reading this novel also leave your precious comments below and let us know about your thoughts and novel selection which type of novels would you like to read????? and which type you want to be posted here we will try to bring novels according to your choice of 
selection. Thanks for Reading!!!!!!


Sneak Peak

"کیا , کیا کہا آپ نے شادی کرنے والے ہیں آپ اس سے"
کنول نے بے یقینی سے اسکے الفاظ دہرائے تھے

"ہاں کرنا چاہتا ہوں میں اس سے شادی اور دوسری شادی کرنا کوئی گناہ نہیں ہے"
اسفند نے جواب دیا تھا

"بلکل دوسری شادی کرنا گناہ ہر گز نہیں ہے مگر کیا آپ دونوں بیویوں کے حقوق ادا کر سکتے ہیں دوسری عورت کے آتے ہی ابھی وہ آپ کے نکاح میں بھی نہیں ہے اور آپ نے مجھے اور میرے بیٹےکو کچرے کی طرح ایک طرف پھینک دیا تو جب وہ شادی کر کے اس گھر میں آئےگی تب تو آپ مجھے اور میرے بیٹے کو اس گھر سے ہی نکال دینگے "
کنول نے بھیگے لہجے میں کہا تھا دروازے کے قریب کھڑے ارمان کی آنکھوں سے بھی آنسو نکلتے اسکے گالوں پہ پھسل رہےتھے

"دونوں کو برابر حقوق دینا وغیرہ وغیرہ سب ہوجائے گا میں ویسے بھی اسے اس گھر میں نہیں رکھوں گا الگ گھر لے کر دوں گا نور کو"
اسفند نے جواب دیا تھا اور وہاں سے جانے لگا تھا مگر مڑنے سے پہلے ہی کنول کے سرد لہجے میں کہے گئے الفاظ اسکے کانوں میں گونجے تھے

"ٹھیک ہے کرنا چاہتے ہو تم اس لڑکی سے شادی تو کر لو اب سب ختم ہوچکا ہے تم آخری حد بھی پار کر چکے ہو اب مجھے تم سے کوئی امید نہیں رہی مگر میری ایک بات کان کھول کر سن لو کہ اس لڑکی کے ساتھ نکاح سے پہلے تمہیں مجھے طلاق دینی پڑے گی میں مزید تمہارے ساتھ رہنا نہیں چاہتی"
بولتے ہوئے کنول کے چہرے پر چٹانوں کی سی سختی چھا گئی تھی جبکہ طلاق کا لفظ سنتے ہی اسفند اپنی جگہ پہ واپس رک گیا تھا

"کیا کہا تم نے ؟, دوبارہ کہو ذرا کیا چاہئے تمہیں؟"
قدم قدم چل اسکے قریب آتے ہوئے اسفند نے خونخوار لہجے میں کنول سے پوچھا تھا جو اب ڈٹ کر اس کے سامنے کھڑی تھی دروازے کے پاس کھڑے ارمان نے ڈر کر سختی سے دروازے کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا تھا اسکا دل خوف و ہراس سے زور و شور سے دھڑک رہا تھا

"مجھے طلاق چاہئے نہیں رہنا چاہتی میں تمہارے ساتھ سنا تم نے میں مزید اپنی زندگی کا ایک ایک دن گھٹ گھٹ کر نہیں گزارنا چاہتی تم تو سارا دن اس عورت کے ساتھ کے ساتھ ہوٹلوں میں پھرتے رہتے ہو جبکہ میں یہاں گھر پہ سوچ سوچ کر خود کو ہلکان کرتی ہوں نہیں مرنا چاہتی میں یوں گھٹ گھٹ کر میں بھی اپنی زندگی میں آرام و سکون چاہتی ہوں اور میرے آرام و سکون کے لیے میرا بیٹا کافی ہے تم خوش رہو اپنی ہونے والی بیوی کے ساتھ میں اپنے بیٹے کے سہارے اپنی ساری زندگی گزار سکتی ہوں آذاد کر دو مجھے اس کھوکھلے رشتے سے"
کنول نے سسکتے ہوئے کہا تھا

"میری ایک بات کان کھول کر سن لو اور اچھی طرح سے ذہن میں بٹھا لو کہ میں تمہیں کبھی بھی طلاق نہیں دوں گا کسی صورت میں بھی نہیں چاہے میں تین شادیاں ہی کیوں نا کر لوں مگر میں تمہیں کبھی نہیں چھوڑسکتا کبھی بھی نہیں تم اور ارمان اسی گھر میں رہو گے کہیں نہیں جانے دوں گا تم دونوں کو یہاں سے"
انگلی اٹھا کر وارن کرتے ہوئے اسفند ہذیانی کیفیت میں بولا تھا جس پر کنول کو یہ سوچ کر مزید غصہ آیا تھا کہ خود چاہے دوسری لڑکیوں سے عشق معشوقی کرتا پھرے اور وہ اپنے حق کی بات بھی ناکریں۔

"سوچ ہے آپکی کہ آپ مجھے اس گھر میں باندھ کر رکھیں گے اگر آپ نے مجھے طلاق نہیں دی تو میں خلع لے لوں گی آپ سے"
ارمان ابھی بھی روتے ہوئے دروازہ میں کھڑا تھا جبکہ اسفند تو یقیناً پاگل ہو چکا تھا جو ایک ہی چست میں کنول کے قریب پہنچا تھا اور انگلی اٹھا کر اسے وارن کرتے ہوئے بولا تھا

"دوبارہ اگر طلاق کی بات بھی کی نا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا تمہیں طلاق دینے سے بہتر ہے کہ میں تمہیں اپنے ہاتھوں سے تمہیں مارڈالوں"
اسفند ابھی بول ہی رہا تھا جب ارمان نے ان دونوں کے درمیان حائل ہوتے ہوئے اپنی پوری طاقت لگا کر اسفند کو دھکہ دیا تھا۔

"دور رہے میری مما سے سنا آپ نے"
ماں کو تڑپتے دیکھ کر ارمان اسفند پہ پوری قوت سے چیخا تھا

Post a Comment

Previous Post Next Post