Tujh Sang Lage Jo Man Piya By Mahwish Chaudhry

 



Urdu Nonvillains is a platform for all social media writers. Here you find variety of novels having different plot and concept about life of a human being who faces difficulties in every walk of life. 

Each story has its own moral every story teaches us a new lesson as it contains experience of every human life.

Here you find revenge based, Islamic based, Rude hero, Doctor, Lawyer based with many more exciting tragedies.

Mahwish Chaudhry is one of the fabulous novel that get attention by readers after reading it you will love this novel. Download this novel by clicking below the given link.


Tujh Sang Lage Jo Man Piya By Mahwish Chaudhry




If you have any queries regarding downloading let us know by commenting below. After reading this novel also leave your precious comments below and let us know about your thoughts and novel selection which type of novels would you like to read????? and which type you want to be posted here we will try to bring novels according to your choice of 
selection. Thanks for Reading!!!!!!


Sneak Peak No: 1


سلہ کیا ہے تمہارا۔۔۔۔وہ غراتا ہوا اسکی طرف آیا
تحمل سے جواب دے رہا ہوں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ سر پر چڑھ جاؤ۔۔۔۔اپنی حد مت بھولو تم
بھول چکی ہوں میں سب۔۔۔۔یاد ہے تو بس اتنا کہ میں آپکی بیوی ہوں اور آپ کے بچے۔۔۔۔۔
اسٹاپ دس نان سینس۔۔۔۔یوں چلا کر کیا باور کروانا چاہ رہی ہو تم۔۔۔۔۔یا پھر یہ سمجھ رہی ہو کہ تمہارا یہ واویلا تمہارے کام آئے گا اور میں تمہاری طرف مائل ہو جاؤں گا۔۔۔۔تو یہ بھول ہے تمہاری ہیر بی بی۔۔۔۔تم میری شرعی بیوی ہو اور میں نے تم سے جائز تعلق بنایا ہے۔۔۔تمہیں کوئی تکلیف ہے تو رہے آئی ڈیم کئیر۔۔۔یشب نے سرخ آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا
مجھے کوئی شوق نہیں ہے آپ کو اپنی طرف مائل کرنے کا کیونکہ اگر مجھے ایسا کوئی شوق ہوتا تو آپ تین ، چار ماہ بھی خود کو کنٹرول نہیں کر سکتے تھے یشب خان آفریدی
اور اگر آپ کو کئیر نہیں تو مجھے بھی نہیں ہے سمجھے آپ۔۔۔۔۔میں کل ہی اپنے گھر والوں سے ملنے جاؤں گی اور اگر آپ نے مجھے روکنے کی کوشش کی تو خود بھی سکون سے نہیں بیٹھوں گی اور نہ ہی آپکو بیٹھنے دوں گی۔۔۔ہیر نے دھمکی دی
ناجانے اتنی بہادری اس میں آئی کہاں سے تھی جو وہ ماضی کی نڈر ہیر بن چکی تھی شاید ماں بننے کے جزبے نے ہی اسے اتنی ہمت دی تھی جو وہ یشب کو دوبدو جواب دے رہی تھی۔۔۔
کل کی کل دیکھی جائے گی۔۔۔فلحال بیڈ سے اٹھ کر اپنی جگہ پر جاؤ۔۔۔
کیوں جاؤں۔۔۔۔۔جب تعلق جائز ہے تو پھر آپ کو تکلیف کس چیز کی ہے۔۔۔۔
یشب اسکی بدتمیزی اور بدزبانی پر ٹیمپر لوز کرتا اس پر چڑھ دوڑا
ایک۔۔۔دو۔۔۔۔وہ تیسرا ٹھپڑ مارنے ہی والا تھا کہ بیچ میں رک گیا
آج کے بعد زبان درازی کی تو سزا اس سے بھی بدتر ہو گی سمجھی اس لیے کسی خوش فہمی میں مت رہنا۔۔۔۔وہ وارننگ دیتا سیگرٹ اور لائٹر اٹھا کر بالکونی میں نکل گیا۔۔۔۔۔
پیچھے ہیر گھٹنوں میں سر دئیے سسک اٹھی۔۔۔۔وہ تو سمجھی تھی کہ شاید اسکی سزا ختم ہونے جا رہی ہے مگر نہیں وہ غلط سمجھی تھی شاید۔۔۔



Sneak Peak No: 2



مم۔۔۔۔۔مجھے سردی لگ رہی ہے
اوہ تو سردی سے بچنے کے لیے میرے لحاف میں گھسنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔؟؟؟یشب نے سیگرٹ سلگاتے پوچھا
نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔وہ میں۔۔۔۔صوفے پر
میں نے تمہاری جگہ تمہیں بتا دی تھی پھر کس کی اجازت سے تم صوفے پر جا رہی تھی۔۔۔۔۔وہ تیز لہجے میں بولا
سر۔۔۔سردی بہت۔۔۔ہے۔۔۔۔میں گرمیوں میں زمین پر لیٹ جایا کروں گی۔۔۔۔وہ سر جھکائے جلدی سے بولی
کافی سے زیادہ چالاک ہو اپنے بھائی کیطرح۔۔۔۔طنز کیا گیا
میرے بھائی نے کچھ نہیں کیا۔۔۔۔۔ہیر یشب کی بات پر چلا کر بولی
یشب اسکے چلانے پر رضائی ہٹاتا اس تک آیا
تمہارے لاڈلے بھائی نے کچھ نہیں کیا تو پھر کس نے مارا ہے یشار خان کو ہوں۔۔۔۔
لالہ نے جان بھوج کر نہیں۔۔۔۔غلطی سے۔۔۔۔
ہیر کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی یشب کے بھاری ہاتھ کا ٹھپڑ اسکی بولتی بند کروا گیا
میرے سامنے دوبارہ اس کتے کی حمایت میں مت بولنا ورنہ۔۔۔۔۔
ورنہ کیا۔۔۔۔۔؟؟؟ ہیر کو اپنے لالہ کے لیے لفظ کتا برداشت نہیں ہوا تھا اسی لیے ہمت کرتی بولی
ورنہ کیا کریں گے۔۔۔۔مجھے ماریں گے۔۔۔۔ پیٹیں گے۔۔۔۔۔۔یا پھر جان سے مار دیں گے تو مار دیں۔۔۔۔مار دیں مجھے۔۔۔۔۔میں بھی اس اذیت بھری زندگی کو جینا نہیں چاہتی اسلیے مہربانی ہو گی اگر آپ مجھے مار کر اپنا بدلہ پورا کر لیں۔۔۔۔وہ روتی ہوئی سر گھٹنوں میں دے گئی۔۔۔
یشب نے اسکے ہچکیوں لیتے وجود کو دیکھ کر جھٹکے سے اسکا سر اٹھا کر منہ جکڑا۔۔۔
مجھے روتی ،بلکتی عورتوں سے سخت نفرت ہے اس لیے آج کے بعد اگر تم نے دوبارہ میرے سامنے رو دھو کر خود کو مسکین شو کرنے کی کوشش کی تو واقعی جان سے مار دوں گا سمجھی۔۔۔۔وہ وارننگ دیتا کمرے سے ملحق ٹیرس پر نکل گیا
ہیر اسکے جانے کے بعد بلند آواز میں ہچکیوں سے رونے لگی...


Sneak Peak No: 3


جی یہ پائل آپ کی ہے۔۔۔۔شمس نے گلا کھنکارتے ہوئے کہا
میں جانتی ہوں یہ میری ہی ہے۔۔۔۔پر یہ آپ کے پاس کیسے آئی۔۔۔۔؟؟؟مہرو نے سوالیہ نظریں شمس کے سنجیدہ چہرے پر فوکس کرتے پوچھا
آپ کو یاد ہو گا جب زبیر نے MBA کے تھرڈ سمیسٹر میں کلاس میں سب سے زیادہ Gp لی تھی تو اسنے ہم سب کلاس فیلوز کو پارٹی دی تھی اپنی حویلی میں۔۔۔۔۔۔
اوہ۔۔ہ۔۔ہ۔۔ہ۔۔۔۔۔مہرو نے لمبی سی سانس لی اسے وہ دن یاد تھا
جب شمس لالہ نے اپنے تھرڈ سمیسٹر میں کلاس میں ٹاپ کیا تھا پیچھلے دو سمیسٹرز میں وہ تیسرے نمبر پر تھے پر اس بار انہوں نے بتایا تھا کہ وہ اپنے دوستوں سے بیٹ لگا چکے ہیں کہ اس سمیسٹر میں وہ اگلے دونوں بوائز کو کراس کریں گے اور ایسا ہی ہوا تھا۔۔۔وہ واقعی انہیں کراس کر گئے تھے۔۔۔۔جس پر لالہ نے اپنی کلاس کے سولہ سترہ جتنے بھی بوائز تھے سب کو حویلی میں ٹریٹ دی تھی۔۔۔
مہرو دالان میں میگزین گود میں رکھے بےزار سی بیٹھی تھی جب شہربانو اسکے پاس آئی
ایسے کیوں بیٹھی ہو مہر۔۔۔۔؟؟؟
کچھ نہیں بور ہو رہی ہوں۔۔۔۔۔مہرو سیدھی ہوئی
ارے بھئی اتنی اونچی میوزک کو سن کر بھی بور ہو رہی ہو۔۔۔
(یہ اونچی میوزک مردانے میں زبیر خان اور اسکے دوستوں نے اپنی پارٹی میں لگا رکھا تھا)
خالی خولی میوزک سے کیا خاک انجوائے کروں گی میں۔۔۔انجوائے تو وہ سب لڑکے کر رہے ہوں گے ناچ کود کر۔۔۔۔مہرو چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں لے کر حسرت سے بولی
اونہہ۔۔۔۔کس قدر واہیات ناچتے ہیں یہ لڑکے۔۔۔؟؟؟بانو نے ناک چڑھایا
تمہیں یاد نہیں ابرار لالہ کی شادی میں ان کے دوستوں نے مل کر کسقدر گندا اور واہیات ڈانس کیا تھا۔۔۔۔بانو وہ ڈانس یاد کرکے سخت بدمزا ہوئی
ہاں اور ہم سب لڑکیاں اسی واہیات ڈانس کو دیکھنے رات 2 بجے تک چھت پر رہیں تھیں۔۔۔۔۔مہرو نے ابرو چڑھا کر بانو کا مذاق اڑایا
وہ تو تمہیں اور زرکا کو شوق تھا دیکھنے کا اور ہم باقی سب مفت میں پس گئی تھیں۔۔۔۔۔۔بانو کو اس رات زبیر خان سے پڑنے والی ڈانٹ اچھی طرح یاد تھی
شوق تو مجھے اب بھی ہے۔۔۔۔۔مہرو نے مسکراہٹ دبا کر آنکھ ماری
شہربانو اسکی بات سمجھ کر اچھلی۔۔۔ نہ بابا نہ۔۔۔۔۔میں ایسا کچھ نہیں کرنے والی۔۔۔۔۔اس نے ہاتھ کان کو لگا کر منع کیا
مان جاؤ ناں پلیز۔۔۔۔۔۔پلیزززززز۔۔۔۔۔پلیز بانو۔۔۔۔۔
ہر گز نہیں۔۔۔اگر خالو ) مہرو کے بابا) کو یا پھر زبیر لالہ کوپتہ چل گیا تو۔۔۔۔۔؟؟؟شہربانو ابھی بھی رضامند نہ تھی
نہیں چلے گا ناں ان کو پتہ وہ ڈیرے پر ہیں میں نے گل کو بھیج کر پتہ کروا لیا تھا اور لالہ اپنے دوستوں میں بزی ہیں۔۔۔۔۔بس تھوڑی دیر کے لیے۔۔۔۔مجھے بس یہ دیکھنا ہے کہ پڑھے لکھے لڑکے کیسا ڈانس کرتے ہیں۔۔۔
تف ہے تم پر۔۔۔۔۔۔بانو نے اسکے منہ پر ہاتھ سیدھا کیا
چھوڑو یہ لعن طعن آ کر کر لینا فلحال چلو جلدی کرو۔۔۔۔۔چلوووووو۔۔۔۔۔۔مہرو اسکا بازو گھسیٹتی زبردستی ساتھ لے کر مردانے کی طرف چل پڑی
وہاں پہنچ کر مہرو نے آگے جا کر ساری راہداری چیک کی اور راستہ کلئیر دیکھ کر کافی پیچھے کھڑی شہربانو کو ہاتھ ہلا کر آنے کو کہا
شہربانو اسکے اشارے پر ادھر أدھر دیکھتی ڈرتی جھجھکتی اس تک آئی
شکر ہے بانو ہال کا دروازہ کھلا ہے۔۔۔۔مہرو نے ایکسائیٹڈ ہو کر سرگوشی کی
جلدی دیکھو جو بھی دیکھنا ہے۔۔۔۔شہربانو اکتا کر بولی
تم نیچے بیٹھ کر دیکھنا میں اوپر سے دیکھو گی اوکے
ہوں۔۔۔۔شہربانو نے مروت میں ہلکا سا سر ہلا دیا ورنہ اسے یہ سب دیکھنے کا کوئی شوق نہیں تھا
مہرو نے ہال کے پاس پہنچ کر دیوار سے لگ کر ہلکا سا سر آگے کو جھکایا اور اندر جھانکا
اووئے۔۔۔۔واہ۔۔۔۔۔بانو وہ دیکھو کالی شرٹ والا بریک ڈانس کر رہا ہے بلکل ویسا ہی جیسا اس دن ٹی وی میں۔۔۔۔
بانو دیکھ رہی ہو۔۔۔۔بانو۔۔۔۔مہرو نے آگے کو جھکے جھکے ہی نیچے اور پیچھے ہاتھ مار کر بانو کو تلاشہ مگر بانو وہاں ہوتی تو ملتی۔۔۔۔۔
کہاں گئی۔۔۔۔۔؟؟وہ مشکوک ہوتی سیدھی ہو کر پیچھے پلٹی
اور پیچھے کھڑے مسکراہٹ دباتے لڑکے کو دیکھ کر اسکا سانس رک چکا تھا
چند لمحے منہ کھول کر اسے دیکھنے کے بعد مہرو نے جلدی سے چادر کے پلو سے منہ ڈھانپا جیسے پہلے شمس وہاں آنکھیں بند کیے کھڑا ہو۔۔
شمس اسکی حرکت پر کھل کر مسکرا دیا۔۔
وہ۔۔۔وہ آپ پلیز زبیر لالہ کو مت بتائیے گا کہ آپ نے مجھے یہاں دیکھ لیا ہے۔۔۔۔مہرو زبان تر کر کے بولی
آپ زبیر لالہ کی کیا لگتی ہیں۔۔۔۔۔؟؟؟شمس نے مسکراہٹ دبا کر پوچھا
مم۔۔۔میں۔۔۔۔۔
جی آپ۔۔۔۔۔۔وہ ابھی بھی مسکراہٹ دبائے ہوئے تھا
میں انکی کچھ نہیں لگتی۔۔۔۔مہرو اسکی ابھرتی مسکراہٹ پر کنفیوز ہو کر کہتی بھاگ کھڑی ہوئی
شمس پلٹ کر اسے بھاگ کر جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا
مہرو بھاگتی ہوئی راہداری کے اینڈ پر پڑے گملے میں اڑ کر دھڑام سے زمین بوس ہوئی
شمس اسے گرتے دیکھ کر اسکی طرف بڑھا
مہرو نے منہ موڑ کر پیچھے دیکھا اور شمس کو آتے دیکھ کر پھرتی سے اٹھی اور جلدی سے راہداری مڑ کر مردانے سے نکل کر حویلی کے رہائشی حصے میں داخل ہوئی۔۔۔
شمس جب وہاں پہنچا تو مہرو تو جا چکی تھی مگر گملے کے پاس اسکی پائل گری تھی جسے شمس نے جھک کر اٹھایا اور ہتھیلی پر پھیلا کر مسکرا دیا۔۔۔۔
"کیا سوچ کہ تم باندھتی ہو پیروں میں پائل،
ان کی چھن چھن سے ہزاروں ہو چکے ہونگے گھائل۔۔۔"
۔۔۔۔
اوہ۔۔۔۔ہ۔۔۔۔یہ تو نو دس سال پہلے کی بات ہے اور آپ نے اتنی پرانی چیز سنبھال رکھی تھی۔۔۔۔۔مہرو حال میں لوٹتی حیران سی پوچھ رہی تھی
میں آپ کو تب ہی لوٹا دینا چاہتا تھا مگر کس کے ہاتھ لوٹاتا۔۔۔۔زبیر کو بتانے سے آپ نے منع کیا تھا اور میں کسی ملازم کے ہاتھ نہیں بھجوا سکتا تھا کہ ناجانے وہ کیا سمجھتا۔۔۔۔
اسی لیے آپکی پائل کو آپکی امانت کے طور پر سنبھال لیا تھا۔۔۔۔شمس ایک پرسکون سانس ہوا کے سپرد کرتا بولا

Post a Comment

Previous Post Next Post