Shararat By Nabeela Aziz

 




Urdu Nonvillains is a platform for all social media writers. Here you find variety of novels having different plot and concept about life of a human being who faces difficulties in every walk of life. 

Each story has its own moral every story teaches us a new lesson as it contains experience of every human life.

Here you find revenge based, Islamic based, Rude hero, Doctor, Lawyer based with many more exciting tragedies.

Nabeela Aziz  is one of the fabulous novel that get attention by readers after reading it you will love this novel. Download this novel by clicking below the given link.


Shararat By Nabeela Aziz 




If you have any queries regarding downloading let us know by commenting below. After reading this novel also leave your precious comments below and let us know about your thoughts and novel selection which type of novels would you like to read????? and which type you want to be posted here we will try to bring novels according to your choice of 
selection. Thanks for Reading!!!!!!


Sneak Peak


" نہیں ہوں میں تمہاری بیوی..... نہیں ہوں سمجھے تم"وہ یک چلا اٹھی۔۔۔۔۔۔۔

" تو پھر یہاں میرے بیڈ روم میں کیا کر رہی ہو؟" وہ انتہائی اطمنان سے کہ رہا تھا

"سزا بھگت رہی ہوں اپنے کیے کی سزا"وہ چبا کرکہنے لگی
مہروز اسے سرتاپا دیکھ کر رہ گیا۔روئی روئی سرخ آنکھیں مٹا مٹا سامیک اپ کندھوں پر بکھرے شولڈر کٹنگ سلکی بال اور بنا دوپٹے کے اجاگر ہوتی رعنائیاں نظر ہٹ نہیں رہی تھی.......

" تمہارے لیے سزا ہے مگر میرے لیے تو اللہ کی عطا کردہ ایک خاص نعمت ہو تم" اس نے گھمبھیر لہجے میں کہتے ہوئے اس کے گال کو چھوا وہ اس کے انداز پر بھڑک اٹھی۔۔

" کہا ہے نا مجھے ہاتھ مت لگانا۔ہاتھ پیچھے ہٹاؤ" اس نے سخت لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔مہروز کے ہاتھ اس کی کمر کو چھو رہے تھے اسے ایسا لگا جیسے اس کے جسم پر بچھو رینگ رہے ہوں۔

"اتنا صبر نہیں ہے مجھ کہ میں آج کی رات پیچھے ہٹ جاؤں٬ بلکہ جو کل کی رات گزاری تھی وہ بھی خدا جانتا ہے" اس نے کہتے ہوئے اسے زور سے بھیچ لیا تھا

" میں کہ رہی ہوں مجھے ہاتھ مت لگاؤ" وہ پھنکار کر کہتی ہوئی اس پر جھپٹ پڑی وہ اسے اپنے ناخنوں سے نوچنے کی کوشش کر رہی تھی اور وہ اپنے بچاؤ کے لیے اس کے ہاتھ روک رہا تھا لیکن جیسے ہی ربیع کے ناخنوں نے اس کی گردن پہ خراش ڈالی وہ اپنا غصہ کنٹرول نہیں کر سکا اور یکدم اس کا ہاتھ اٹھ گیا
وہ اس کے بھاری ہاتھ سے تھپڑ کھا کر پیچھے کی طرف بیڈ پر گری

" بس بہت ہوگیا تمہارا تماشا ہر چیز کی حد ہوتی ہے اپنی حد میں رہنا سیکھو" وہ پہلی بار یوں غصہ سے دھاڑا
" تم مجھے حد بتا رہے ہو؟ حد تم نے پار کی ہے" وہ تھپڑ کی تکلیف بھول کر پھر سیدھی کھڑی ہوئی

" مجھے حد پار کرنے کا راستہ تم نے دکھایا تھا" وہ زور دے کر بولا

"میں نے توایک شرارت کی تھی" وہ روہانسی ہوئی

" لیکن میں نے کوئی شرارت نہیں کی میں کل بھی سنجیدہ تھا آج بھی ہوں، تم کسی بھی کورٹ میں چلی جاؤ میرا قصور کہیں بھی ثابت نہیں ہوگا" اس نے چبا کر کہا۔۔۔۔

" تم اتنے بے قصور بھی نہیں ہو" وہ چیخی۔۔۔۔

" میں اتنا قصور وار بھی نہیں ہوں" اس نے کاندھے اچکائے

" تم پچھتاؤ گے اپنے فیصلے پر"

"فلحال تو پچھتانے کا وقت تمہارا ہے" وہ پھر پر سکون ہو چکا تھا۔۔۔۔۔

" سید مہروز بخت تم نے خصارے کا سودا کیا ہے"
" ہونہہ تمہیں کیا پتا کہ سب سے زیادہ فائدہ مجھے ہی حاصل ہوا ہے تمہاری صورت میں" وہ اس کے سراپے کو مسکراتی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔

" خوش فہمی ہے تمہاری" وہ نفرت سے بولی

" یہ تو بعد کی بات ہے نا کہ کون خوش فہم ہے اور کون غلط فہم؟ پہلے تم یہ بتاؤ تم چینج کرو گی یا لائٹ آف کردوں؟" اس کے لہجے اور نظروں کا مفہوم وہ انجان ہوکر بھی سمجھ گئی تھی اور اس کے جسم میں سنسنی دوڑ گئی اس کا خون کھول اٹھا تھا۔۔۔۔
" تم کہنا کیا چاہتے ہو؟"

" جو تم سمجھ چکی ہو"

وہ کہتا ہوا اس کی طرف بڑھا لیکن وہ بدک کر پیچھے ہٹی
" میں ہنگامہ مچادوں گی اگر تم نے مجھے ہاتھ لگانے کی کوشش بھی کی تو" اس نے دھمکی دی۔۔۔

" مسز ربیع مہروز بخت یہ آپ کی بھول ہے کہ میں آپ کی دھمکیوں میں آکر آپ کو چھوڑ دوں گا اور اپنے حق سے دست بردار ہوجاؤں گا میں ایسے لوگوں میں سے نہیں میں اپنی ضد پوری کرنا جانتا ہوں اور بہتر ہے آپ میرے ساتھ سیدھی طرح پیش آئیں ورنہ مجھے الٹا پیش آنے میں بھی وقت نہیں لگتا یہ تو آج آپ دیکھ چکی ہیں" وہ اسے کلائی سے پکڑ کر اپنے طرف کھینچ چکا تھا

ایک مرد سے مقابلہ کرنا اس کے بس سے باہر ہوگیا تھااس کی ساری جدوجہد ناکام ہوگئی تھی وہ بے بسی سے تڑپ تڑپ کر رونے لگی مگر مہروز پر اس کے آنسوؤں اور سسکیوں کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا...
اب چاہے وہ تڑپتی یا بلکتی اسے پرواہ نہیں تھی بقول اس کے اس نے اپنا حق وصول کیا تھا......


Post a Comment

Previous Post Next Post