Mera Dil Pukarey Tujhe By Farwa Khaid

 


Urdu Nonvillains is a platform for all social media writers. Here you find variety of novels having different plot and concept about life of a human being who faces difficulties in every walk of life. 

Each story has its own moral every story teaches us a new lesson as it contains experience of every human life.

Here you find revenge based, Islamic based, Rude hero, Doctor, Lawyer based with many more exciting tragedies.

Mera Dil Pukarey Tujhe  is one of the fabulous novel that get attention by readers after reading it you will love this novel. Download this novel by clicking below the given link.



If you have any queries regarding downloading let us know by commenting below. After reading this novel also leave your precious comments below and let us know about your thoughts and novel selection which type of novels would you like to read????? and which type you want to be posted here we will try to bring novels according to your choice of selection. Thanks for Reading!!!!!!

Sneak Peak  No: 1

" اِشمل سلمان آپ کا نکاح ارسلان احمد کے ساتھ باعیوض تین لاکھ حق مہر کیا جاتا ہے کیا آپ کو قبول ہے.؟ "
مولوی صاحب کی آواز اُس کے کانوں میں گونجی تھی.


" اِتنی بھی کیا جلدی ہے آپ کو مولوی صاحب کے دلہے کے آنے کا انتظار بھی نہیں کیا آپ نے."
اِس سے پہلے کے وہ اقرار میں جواب دیتی جب کمرے میں اُبھرتی ایک اور آواز سن کر وہ اپنی جگہ ساکت ہوئی تھی. جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا تھا وہ اُس تک پہنچ چکا تھا.


اِشمل نے جھٹکے سے چہرہ اُوپر اُٹھایا تھا جس کی وجہ سے گھوگنھٹ کی شکل میں لیا دوپٹہ شانوں پر ڈھلک گیا تھا. آہان رضا میر چہرے پر سرد تاثرات سجائے اُسے غصے سے گھور رہا تھا. اسلحہ سے لیس گارڈز اُس کے پیچھے موجود تھے.


"مولوی صاحب آپ نکاح شروع کریں میری بیٹی کا نکاح ارسلان سے ہی ہوگا."
سلمان صاحب اُسے وہاں دیکھ کر دل میں موجود ڈر کے باوجود اپنے لہجے کو مضبوط بناتے بولے.


جب سلمان صاحب کی بات کو نظر انداز کرتے وہ شہانہ چال چلتا آگے بڑھ کر اِشمل کے ساتھ بیٹھی سدرہ کو ہٹنے کا اشارہ کرتا اُس کے ساتھ جا بیٹھا تھا.


"تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہاں آنے کی اور یہ..."
اِشمل اُس کی حرکت پر طیش میں آتی ابھی بولی ہی تھی جب آہان کے اشارہ کرنے پر اُس کے آدمیوں نے اِشمل کے پاپا اور بھائی کے سر پر بندوق رکھی تھی. اِشمل نے آنکھیں پھاڑے آہان کی طرف دیکھا تھا. جو وارن کرتی نظروں سے اُسے دیکھ رہا تھا.


"اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے میں کچھ بھی کر سکتا ہوں. اِس کا ثبوت بھی تمہیں مل جائے گا اپنے باپ اور بھائی کھو کر اگر تم نے میرے ساتھ نکاح سے انکار کیا تو. بولو تیار ہو میرے ساتھ نکاح کے لیے."
اُس کی بات سنتے اِشمل نے روتی آنکھوں سے سلمان صاحب اور احد کی طرف دیکھا تھا اور بے بسی سے سر اثبات میں ہلایا تھا. اِس کے علاوہ اُس کے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا.


"اِشمل تم ایسا کچھ نہیں کرو گی. کرنے دو اِسے جو یہ کرنا چاہتا ہے. "
سلمان صاحب غصے سے آہان کی طرف دیکھتے چلاتے ہوئے بولے.


"دیکھیے سر آپ لوگوں نے پہلے ہی فرار ہوکر جو اتنی بڑی غلطی کی ہے اُس کی سزا ابھی باقی ہے مزید کچھ ایسا نہ کریں جس پر آپ لوگوں کو پچھتانہ پڑے. معاف تو میں کسی کو کرتا نہیں ہوں کیونکہ یہ لفظ میری ڈکشنری میں ہے ہی نہیں.'
آہان نے سخت لہجے میں اُنہیں باور کروایا تھا


"بیٹا پلیز خدا کے لیے ایسا مت کرو میری بیٹی تم سے نکاح نہیں کرنا چاہتی. کیوں کر رہے ہو زبردستی. چھوڑ دو اِنہیں."
اسما بیگم روتے ہوئے اُس کے سامنے ہاتھ جوڑتی بولی تھیں. وہاں موجود باقی لوگ بلکل خاموشی سے اپنی جگہ ڈرے بیٹھے تھے. کوئی بھی اِن کے معاملے میں گھس کر اپنی جان خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا.


"دیکھیں والدہ صاحبہ آپ میرے لیے بہت قابلے عزت ہیں ایسا مت کریں. اور اِس سب کا فائدہ بھی نہیں ہے. جب میں اپنی مرضی کرنے پر آؤں تو میری سگی ماں بھی مجھے نہیں روکتیں کونکہ وہ جانتی ہیں میں اپنا کہا پورا کرکے رہوں گا تو پلیز یہ سب کرکے مجھے شرمندہ کرنے کی ناکام کوشش مت کریں."
وہ ڈھٹائی سے بولتا اُنہیں خاموش کروا گیا تھا. اور اِشمل کا دوپٹہ پکڑ کر واپس گھوگھنٹ کی طرح اُس کے چہرے پر ڈال دیا تھا.


جب اُس کے اشارے پر مولوی صاحب نے نکاح پڑھوانا شروع کیا تھا اور وہ کچھ ہی دیر میں ناچاہتے ہوئے بھی اِشمل سلمان سے اِشمل آہان رضا میر بن چکی تھی.


Post a Comment

Previous Post Next Post