Kuch Rung Pyar Kay Aise Bhi By Tabinda Noor

 



Urdu Nonvillains is a platform for all social media writers. Here you find variety of novels having different plot and concept about life of a human being who faces difficulties in every walk of life. 

Each story has its own moral every story teaches us a new lesson as it contains experience of every human life.

Here you find revenge based, Islamic based, Rude hero, Doctor, Lawyer based with many more exciting tragedies.

Tabinda Noor is one of the fabulous novel that get attention by readers after reading it you will love this novel. Download this novel by clicking below the given link.


Kuch Rung Pyar Kay Aise Bhi By Tabinda Noor



If you have any queries regarding downloading let us know by commenting below. After reading this novel also leave your precious comments below and let us know about your thoughts and novel selection which type of novels would you like to read????? and which type you want to be posted here we will try to bring novels according to your choice of 
selection. Thanks for Reading!!!!!!


Sneak Peak


تو اُس کی نظر بھی بیڈ پر بیٹھی لال چُنری اوڑھے مشارب پر پڑ جاتی ہے,
ایک پل کے لیے تو وہ بھی حیران رہ جاتا ہے,
یہ وہ مشارب سلطان تو نہیں تھی,
جسے وہ کل تک دیکھتا آیا تھا,
یہ تو کوئی اور لڑکی تھی,
روئی ہوئی سرخ آنکھیں,
سُوجے ہوئے پپوٹے,
پیلا زرد رنگ,

بکھرے بال,
کمزور سی لڑکی,
مشارب سلطان نہیں تھی,
ہاں یہ وہ لڑکی نہیں تھی,
بلکہ یہ وہ مشارب تھی,
جو سلجوق آفندی کے لیے, اُس کی محبت کے لیے,

اپنی جان دینے کی کوشش کر چُکی تھی,
جو سلجوق آفندی کی دیوانی تھی,
وہ اِن خیالات سے نظریں چُراتا سامنے صوفے پر بیٹھ جاتا ہے,
جہاں مولوی صاحب پہلے سے موجود ہوتے ہیں,
مولوی صاحب جیسے ہی نکاح پڑھانا شروع کرتے ہیں,

سلجوق کو سب غائب ہوتا محسوس ہوتا ہے,
وہ دور کہیں خیالوں میں کھو جاتا ہے,
اُسے مشارب کی وہ تمام باتیں, تمام حرکتیں یاد آنے لگتی ہیں,
جن کی وجہ سے وہ اُس سے نفرت کرنے لگا تھا اُس سے دور رہنے لگا تھا,
لیکن وہی لڑکی اُس کی زندگی میں لکھ دی گئی تھی,
اور وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکا تھا,

وہ اپنی سوچوں میں نا جانے کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا تھا,
ارسلان صاحب کے کندھا ہلانے سے ہوش میں آتا ہے,
مولوی صاحب تم سے کچھ پوچھ رہے ہیں سلجوق,
کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے ؟
وہ زور سے آنکھیں بند کر کے کھولتا ہے,
"" جی قبول ہے ""

تین بار " قبول ہے " کہہ کر وہ جلدی سے نکاح نامے پر سائن کرتا ہے,
اور وہاں سے اُٹھ کر جانے لگتا ہے,
جب شاہ زر اور ہشام اُسے پکڑ کر واپس بٹھا دیتے ہیں,
تو وہ بے بسی سے اُن کی طرف دیکھتا ہے,

اُس کی آنکھوں ضبط سے سرخ انگارہ ہو چُکی تھیں,
شاید اُس کے صبر کا پیمانہ یہی تک تھا,
اِسی لیے وہ یہاں سے بھاگ جانا چاہتا تھا,
شاہ زر کے آنکھیں دکھانے سے وہ چُپ چاپ نظریں زمین پر گاڑے پھر سے صوفے پر بیٹھ جاتا ہے,
مولوی صاحب اُس کے پاس سے کب اُٹھ کر گئے,
وہ نہیں جانتا تھا,
کمرے میں کون کیا کر رہا تھا وہ اِس سب سے بھی لا علم تھا,
وہ وہاں ہوتے ہوئے بھی وہاں موجود نہیں تھا,
مولوی صاحب کے بار بار نکاح کے الفاظ دوہرانے پر وہ بُری طرح چونکتا ہے,
کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے ؟

مولوی صاحب کے تیسری بار پوچھنے پر مشارب چُپ رہتی ہے,
سب سوالیہ نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگتے ہیں,
تو وہ لا تعلق سا بنا بیٹھا نا چاہتے ہوئے بھی نگاہیں اُس کی طرف گُھماتا ہے,
مشارب یک ٹک اُسے دیکھے جا رہی ہوتی ہے,

سرخ آنکھوں میں چمکتا پانی سلجوق کو صاف نظر آ رہا تھا,
گلابی لب خاموش تھے جیسے آج کچھ نا بولنے کی قسم کھائی ہو,
اُس کی آنکھوں میں سلجوق کو عجیب سی کشش محسوس ہوتی ہے,
وہ اُن جھیل سی گہری آنکھوں میں دیکھتا چلا جاتا ہے,

مِشی بیٹا بولو قبول ہے,
وہ نم آنکھوں سے دادا فرقان آفندی کو دیکھتی ہے,
جو پیار سے اُس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہیں,
"" قبول ہے ""
مشارب کے آخری بار " قبول ہے " کہنے پر سب سکون کی سانس لیتے ہیں,
نکاح نامے پر دستخط کرنے کے بعد بھی اُس کی بہتی آنکھیں اُس انسان پر ٹکی ہوتی ہیں
جس کے نام وہ اپنا سب کچھ لکھ بیٹھی تھی,

سب سلجوق سے گلے ملتے اُسے مبارکباد دے رہے تھے,
گھر کے بڑے باری باری مشارب کے سر پر پیار کرتے اُسے ڈھیروں دعاؤں سے نوازتے ہیں,
لیکن وہ سب فراموش کیے ترسی نظروں سے اُسے دیکھتی چلی جا رہی تھی,
جیسے وہ آج کے بعد اُسے پھر کبھی دیکھ نہیں پائے گی,

وہ سب سے ملتا ایک نظر بھی اپنی منکوحہ پر ڈالے بغیر کمرے سے نکل جاتا ہے,
اور مشارب کے آنسوؤں میں روانی آ جاتی ہے,
شاید یہ انمول موتی اب ساری زندگی بہنے والے تھے

Post a Comment

Previous Post Next Post