Rooh E Rayaan By Zarish Noor

 



Urdu Nonvillains is a platform for all social media writers. Here you find variety of novels having different plot and concept about life of a human being who faces difficulties in every walk of life. 

Each story has its own moral every story teaches us a new lesson as it contains experience of every human life.

Here you find revenge based, Islamic based, Rude hero, Doctor, Lawyer based with many more exciting tragedies.

 Zarish Noor is one of the fabulous novel that get attention by readers after reading it you will love this novel. Download this novel by clicking below the given link.

Rooh E Rayaan By Zarish Noor




If you have any queries regarding downloading let us know by commenting below. After reading this novel also leave your precious comments below and let us know about your thoughts and novel selection which type of novels would you like to read????? and which type you want to be posted here we will try to bring novels according to your choice of 
selection. Thanks for Reading!!!!!!


Sneak Peak No: 1



سر آپ سے کوئی لڑکی ملنے آئی ہے نام بھی نہیں بتا رہی اور یہاں سے جا بھی نہیں رہی کہہ رہی ہے جب تک وہ آپ سے نہیں ملے گی یہاں سے نہیں جاۓ گی۔

اوکے بھیجو اسے!
یس سر!
وہ سست قدموں سے اس عالی شان گھر میں داخل ہوئی اس کچھ پتہ نہیں تھا کے وہ کہاں کہاں سے گزر کر یہاں تک پہنچی تھی ۔ اس نے نظر اوپر اٹھائی وہ اس کی طرف پیٹھ کیے کھڑا تھا وہ صرف جینز میں ملبوس تھا اس کے جسم سے پانی کی بوندیں گر رہی تھی۔

بولو لڑکی!
لگتا تھا اس کی دو آنکھیں پیچھے کی طرف بھی ہیں۔

سر مجھے میرے ایک دوست نے آپ کے بارے میں بتایا ہے ۔ میرا ایک ہی بھائی ہے اس کا نام سالار ہے وہ پیچھلے سات دن سے گھر نہیں آیا ۔ یہ اس کی تصویر ہے اس نے تصویر سامنے پڑے ٹیبل پر رکھی ۔ اگر آپ اسے ڈھونڈنے میں میری مدد کر دیں۔

سر آپ کے سگنیچر چاہیے ہیں ایک آدمی فائل اٹھاۓ مودب انداز میں اس کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔ رونی نے سگنیچر کر کے نظر اوپر اٹھائی تو واپس پلٹنا بھول گیا۔

کیا نام ہے تمہارا؟؟
جی یشال!
اس لڑکی کا ایڈریس اور نمبر نوٹ کر لو اور اسے گھر چھوڑ کر آؤ۔


Sneak Peak No: 2


سالار لانچ کے بعد سائیڈ ایریا پر آیا کچھ نئی مشینری آئی تھی وہی دیکھنے کے لئے۔وہ جہاں جہاں سے گزر رہا تھا سب لوگ کھڑے ہو رہے تھے لیکن ایک ٹیبل کے پاس سے گزرتے ہوۓ وہ ٹھٹھک کر رک گیا۔وہ یشال تھی جو دوسری طرف مڑی کوئی سکرو ٹائیٹ کر رہی تھی۔ سالار نے اسے یہاں لیبر پر رکھا تھااور کام بھی بہت مشکل تھا۔وہ چلتا ہوا یشال کے پاس آیا۔ مس کیا کر رہی ہیں آپ یہاں ؟

جی کام
جی وہ مجھے بھی نظر آ رہا ہے۔کیا کام کر رہی ہیں جی یہ سکرو ٹائیٹ کر رہی ہوں۔ مس میڈی آپ آئیں یہاں یہ سکرو آکر ٹائیٹ کریں۔

وہ آئی اور ایک منٹ میں وہ کام کر کے چلی گئی تھی۔یشال نے شرمندہ ہو کر سر جھکا لیا۔
آپ کا کیا نام ہے؟

جی یشال۔
اوکے۔
احمر مس یشال کو کام کرنا نہیں آتا اگر ایک ہفتے میں انہوں نے کام نہ سیکھا تو انہیں فائر کر دیں۔
یشال حیران تھی یہ کیا چیز ہے۔

وہ یہ جاب کھونا بھی نہیں چاہتی تھی نیدی سے اسے پتہ چل گیا تھا کے سالار کو اب بہت کم تنخواہ مل رہی ہے۔اس لئے وہ سالار پر بوجھ نہیں بننا چاہتی تھی۔

Sneak Peak No: 3


کیا نظر لگانے کا ارادہ ہے ؟ رایان نے مذاق میں کہا۔
نہیں دیکھ رہی ہوں دھوکے باز لوگوں کے چہرے کیسے ہوتے ہیں؟

یشال ! رایان کے منہ سے بس اتنا ہی نکلا۔
کیوں ! شوکڈ ہو گئے۔یشال نے ہنستے ہوۓ کہا۔اس کی آواز میں ایک کاٹ تھی۔

تم اس وقت ہوش میں نہیں ہو۔۔
ہوش میں تو میں ابھی آئی ہوں۔۔
کیا دھوکہ کیا ہے میں نے تمہار ے ساتھ۔
رایان یہ بات کرتے ہوۓ بھول گیا کے اس نے اس رشتے کی بنیاد ایک دھوکے پر رکھی ہے۔

میں شادی کے ان سات مہینوں میں آپ کے سامنے نظریں نہیں اٹھا سکی کے آپ میرے محسن ہیں۔میں ایک ایسی لڑکی ہوں جس کی بارات نہیں آئی اور آپ جیسے مہان آدمی نے مجھ سے شادی کر کے مجھ پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔اور ۔۔۔۔۔۔۔آج مجھے پتہ چلا ہے کے وہ احسان نہیں وہ تو دھوکہ تھا ۔کھیلے ہیں آپ میری زندگی کے ساتھ اتنے لوگوں کی موجودگی میں آپ تھے وہ جنھوں نے میرا اور میرے بھائی کا سر جھکایا تھا۔

دیکھو یشال میں اس سب کے لئے تم سے اور سالار دونوں سے معافی مانگتا ہوں۔
لیکن میں اپنے دل کے ہاتھوں مجبور تھا میں تمہیں کسی اور کاہوتے ہوۓ نہیں دیکھ سکتا تھا۔وہ اٹھ کر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا ہوا یشال کے پاس پہنچا۔ اس نے یشال کے ہاتھ پکڑنے چاہے۔
یشال نے بہت زور سے اس کے ہاتھ جھٹک دئیے۔

رایان نے ایک کوشش اور کی اور پھر سے اسے کندھوں سے تھامنا چاہا۔
مجھے اپنے یہ منحوس ہاتھ مت لگانا مسٹر رایان۔۔
اب کی بار رایان کے ماتھے پر سلوٹیں بڑھی ۔اس نے دونوں ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈالے۔۔۔آچھا نہیں تو تم کیا کر لوگی۔

میں ابھی کے ابھی جا رہی ہوں یہاں سے۔
آچھا کہاں جاؤ گی!!رایان اب کی بار صوفے پر بیٹھ گیا۔
جہاں بھی جاؤں گی آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ کہہ کر وہ کمرے کی طرف بڑھ گئی اپنا سامان لینے کے لئے۔

اور وہ نہیں جانتی تھی کے رایان بھی یہی چاہتا تھا کے وہ کمرے میں جاۓ۔
اس کے کمرے میں جانے کے بعد رایان بھی اس کے پیچھے کمرے میں پہنچا۔وہ زور وشور سے الماری سے اپنے کپڑے نکال کر بیگ میں ڈال رہی تھی۔رایان نے اپنی واچ اتار کر سائیڈ ٹیبل پر رکھی ۔پھر شوز اتارنے کے لئے صوفے پر بیٹھ کر اور ساتھ ساتھ یشال کی کاروائی بھی ملاحظہ کر رہا تھا۔

حیدر تیزی سے گاڑی سے نکلا اور دوسرے وجود کو گھسیٹتے ہوۓ اندر لے جا کر بڑے ہال میں صوفے پر پھنکنے کے انداز میں بٹھایا ہال میں موجود اس وقت گھر کے ساری ہی لوگ موجود تھے۔ سکند شہباز خان اٹھے اور آ کر حیدر کو ایک زور دار تھپڑ رسید کیا اس کے بعد وہ زویا کی طرف بڑھے لیکن راستے میں حیدر دیوار بن گیا۔ میں اسے یہاں واپس اسی شرط پر لایا ہوں کے اسے کوئی ہاتھ نہیں لگاۓ گا۔۔۔۔۔۔

تم یہ کہہ کر سکندر خان حیدر کی طرف بڑھے ۔
سکندر رک جاؤ !! میں نے اسے یہ گارنٹی دی تھی ۔
سکندر مٹھیاں بھینچ کر ایک طرف بیٹھ گئے اور خون خوار نظروں سے دونوں کو دیکھنے لگے۔
بس جو ہونا تھا ہو چکا !! اب آگے کی سوچئے فاروق جو بیٹی کی حالت سیکھتے ہوۓ پریشان سے کہہ رہے تھے۔
ہہم !! ٹھیک کہہ رہے ہو تم فاروق تمُ لڑکے والوں کو کوئی بہانہ بنا کر نہ کر دو اور آج شام کو حیدر اور زویا کا نکاح ہو گا۔

حیدر کو لگا اس کے سر پرکسی نے بم برسا دیا ہو ۔ وہ ایک جھٹکےسے مڑا۔
لیکن میں زویا سے نکاح نہیں کروں گا۔
کیوں نہیں کرو گے اب کی بار شہباز کی غصے سے بھری گرج دار آواز آئی۔جب تم اسے گھر سے بھگا کر لے جا سکتے ہو شادی کیوں نہیں کر سکتے۔

میں! میں اسے گھر سے بھگا کر لے کے گیاہوں۔
لڑکی بولو کیا میں تمہیں گھر سے بھگا کر لے کر گیا ہوں ۔ حیدر نے اپنی توپوں کا رخ زویا کی طرف کیا۔
سب لوگوں کی نظریں اس بار زویا پر جمی تھیں زویا نے سب کی طرف دیکھا اور ہولے سے گردن اثبات میں ہلا دی۔
حیدر یک ٹک اس کے جھوٹ پر اسے دیکھنے لگا ۔

زویا نے ایک نظر حیدر کے بے یقین چہرے پر ڈالی اور واپس جھکا لی۔
زویا کا جواب سن کر سب لوگ ایک ایک کر وہاں سے جانے لگے اور حیدر وہاں اکیلا رہ گیا۔ تبھی حیدر کے موبائل رنگ ہوئی اس کا اس وقت کسی سے بھی بات کرنے کا دل نہیں کر رہا تھا۔ حیدر نے کال کاٹنے کے لئے موبائل نکالا لیکن سکرین پر موجود نمبر دیکھ کر اس نے جھٹ سے کال ریسیو کی۔

شاہریز تیزی سے اٹھا اور اسے بازو سے پکڑ کر روم سے باہر نکالا۔
ڈور پر کھڑے ہو کر انگلی سے اسے وارن کیا ۔تم نے یہ سب جس مقصد کے لئے بھی کیا ہو لیکن ایک بات یاد رکھنا !وہ اگر مجھ خود چھوڑ بھی دے تب بھی میں اسے ایسا نہیں کرنے دوں گا۔

اور ہاں ایک آخری بات میری زندگی میں اب کسی اور عورت کی جگہ نہیں ہے۔
نہ ہی کوئی اس کی جگہ لے سکتا ہے۔
اسے بے شک مجھ سے محبت نہ ہو لیکن مجھے اس سے عشق ہے۔

دوبارہ مجھےکبھی نظر آنا! تمہارے لئے یہی بہتر ہو گا۔
وہ واپس کمرے میں آ کر زروہ کے پاس نیچے بیٹھ گیا تم میرا یقین کرو میں نہیں جانتا کے وہ رات بھر یہاں کیا کرتی رہی ہے۔

میں نے رات کو آپ دونوں کو ایک ساتھ گھر سے نکلتے دیکھا تھا۔
اس کی بات پر شاہ ریز نے جھٹکے کے ساتھ مڑ کر اسے دیکھا اور اپنی جگہ سے اٹھ کر واش روم میں گھس گیا۔
زروہ کو کچھ ہوش نہیں تھا کس طرح وہ واپس گھر پہنچی ۔

اس واقعہ کو ایک ماہ گزر چکا تھا شاہ ریز اور اس کے درمیان بات چیت بالکل بند تھی۔
آج وہ آفس سے واپس آیا تو وہ پیکنگ کر رہی تھی۔
شاہ ریز اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ گیا۔

کہاں جا رہی ہو؟؟
اپنے گھر۔
کون سے گھر؟؟
ماں باپ کے گھر ۔
ٹھیک ہے! لیکن ایک بات یاد رکھنا میں تمہیں اپنے کردار کے حوالے سے کوئی وضاحت نہیں دوں گا ۔
جاؤ جب تک تمہارا دل کرے وہاں رہو لیکن اگر کبھی مجھ سے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کی تو اس کے بعد نتائج کی زمہ دار تم خود ہو گی۔

زروہ نے درزیدہ نظروں سے اسے دیکھا ۔اسے لگا تھا وہ اسے نہیں جانے دے گا۔

Post a Comment

Previous Post Next Post