رخصتی ۔۔۔۔۔ تو۔۔؟؟ ابرش نے بولنا چاہا۔
رخصتی۔۔ آج ابھی اسی وقت ہوگی۔ ابرش ابتسام علی پیرزادہ۔۔۔!
دھیمی آواز۔۔۔۔
سلگتا لہجہ۔۔۔
اور بنا پلک جھپکے ۔۔۔ کہتا وہ ابرش کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسی دوڑا گیا ۔
ایسا۔۔۔ ایسا۔۔ طے۔۔۔نہیں۔؟؟؟
حلق تر کرتے ابرش نے کہنا چاہا۔
طے کیا ہوا تھا کیا نہیں۔ فیصلہ ہو گیا ہے۔۔ اور میں اپنے فیصلہ میں ردو بدل کا قاٸل نہیں۔۔
اتنا استحاق بھرا انداز۔۔۔؟؟ ابرش کو تو سلگا ہی گیا۔
اور۔۔ میں بھی طے شدہ بات سے پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں۔۔ رخصتی نہیں ہوٸ۔۔ تو ۔۔ نہیں۔۔ جا سکتی۔۔۔ سمجھےآپ۔۔۔!
ماتھے پے بل ڈالے کہتے وہ باہر جانے کے لیے مڑی تھی۔
کہ ابتسام نے باٸیں ہاتھ سے اسکی کلاٸ تھام کے اسے اپنی طرف کھینچا۔
وہ مڑتی اچانک سے اسکے سینے آلگی ۔
مجھے نہ سننے کی عادت نہیں۔ مسز۔۔۔! اور نکاح کی خواہش مند بھی تم تھی۔ ہر لفظ بڑاے نپے تلے انداز میں کہتا وہ ابرش کی آنکھو ں میں جھانکتا اسے سمٹنے پے مجبور کر گیا۔
چھوڑیں مجھے۔۔۔! وہ سٹپٹاٸ۔
اب گھر چل کے بات کرتے ہیں باقی کی۔ ٹھیک ہے۔
ابتسام نے عام سے انداز میں کہہ کے بات ختم کرنا چاہی۔
آپ کو ایک بات سمجھ نہیں آتی۔۔؟
فضول میں گلے پڑ ہے ہیں۔ ایک بار کہہ جو دیا۔کہ نہیں۔۔۔؟؟؟
ماتھےپے بل ڈالے وہ چاہ کے بھی اپنی آواز میں سختی پیدا نہ کر سکی۔
میں آرام سے سمجھا رہا ہوں۔ لگتا ہے تمہیں سمجھ نہیں آرہی۔۔؟
تمہاری زبان میں بات کروں۔۔؟؟
اپنے درد کی پرواہ کیے بنا وہ پھر سے غصے سے اسکی کلاٸ تھام گیا۔
ابتسام۔۔۔ پیرزادہ۔۔۔!یہ نکاح صرف۔۔۔ پیپرز تک ہے۔۔۔اور اس کی کوٸ حیثیت نہیں۔۔۔!
یہ نکاح پیپرز تک ہے۔۔۔؟؟ ایسا کس نے کہا۔۔؟؟
باقاعدہ نکاح ہوا ہے۔ مولوی صاحب نے نکاح پڑھایا ہے۔۔
صرف کاغزی کارواٸ نہیں ہوٸ۔۔۔ سمجھی۔۔۔!
اور تمہارے بابا کی اجازت سے نکاح میں لیا ہے اپنے۔۔۔!
ابتسام کو سخت غصہ ہی آگیا اسکی بات پے۔
ابرش لب بھینچے زمین کو گھورنے لگی۔
جب احد نے کہا۔۔ کہ جھوٹ ہی سہی صرف پیپرز تک کر لیں ۔ بعد میں اسکی کوٸ ویلیو نہیں ہوگی۔ تو تب کیاکہا تھا تم نے۔۔۔؟
میں عدالت میں جھوٹ کیسے بولوں گی۔۔؟؟ نکاح ہو نہ ۔۔۔اور نکاح کا جھوٹا ناٹک کیسے کروں۔۔؟؟
ابتسام۔نے اسے اچھا خاصا لتاڑ کے رکھ دیا۔ ابرش کو لگا تھا۔ یہ کم بولتا ہے۔یا شاید اسے بولنا نہیں آتا ہے۔۔ لیکن آج اس نے ساری کسر پوری کر دی تھی۔
حسرت ہی نہ رہی کہ یہ کم کیوں بولتا ہے۔۔؟؟
یہ نکاح۔۔۔ تمہاری مرضی سے ہوا تھا۔۔ لہذا اب بھگتو۔۔۔اور میرے ساتھ میرے گھر ہی چلو گی تم۔۔ !
ابتسام نے ہر لفظ پے زور دے کے کہا۔
آپ ۔۔۔ زبردستی نہیں کر سکتے میرے ساتھ۔۔۔۔! ایسا کوٸ حق نہیں دیا میں نے آپ کو۔۔۔کمزور سا احتجاج کرنا چاہا۔ دل تھا کہ زوروں سے دھڑک رہا تھا۔
اپنے سارے حقوق تم میرے نام کر چکی ہو۔
اس کے کان کے قریب ہوتا سرگوشی میں کہتا وہ اسکے اند رکی دنیا تک ہلا گیا۔
اور میں کیا کر سکتا ہوں کیا نہیں۔۔ تمہاری سوچ ہے۔۔۔!
دھمکی آمیز لہجہ۔۔ اب کی بار ابرش کو سخت غصہ آیا۔
ٹھیک ہے۔۔ اگر ایسی بات ہے ۔۔ تو آپ مجھے ڈاٸیورس۔۔۔۔!!
چپ۔۔۔ ایک دم۔۔ چپ۔۔۔! اسکی بات پوری ہونے سے پہلے اسکے بالوں میں ہاتھ ڈالتا اپنی طرف کھینچتا قہر آلود آنکھیں اسکی کالی آنکھو ں میں گاڑیں ۔۔ کہ اپنا عکس واضح نظر آیا۔
خبردار جو یہ لفظ اپنی زبان سے نکالا بھی تو۔۔۔ !
آنکھیں بند کرتا اپنا غصہ ضبط کرتا وہ دوبارہ سے نارمل انداز میں اس سے بولا۔
مسز۔۔! اب مزید بحث نہیں۔۔۔ گھر چلیں۔۔ !
اب کی بار نرم۔لہجے میں کہا۔ تو وہ خاموشی سے اسے یوں بدلتے دیکھتی سوچ میں ڈوب گٸ۔
یہ کایا پلٹ کیسے۔۔۔۔؟؟ کیوں وہ اس پے حق جتا رہا ہے۔۔۔؟؟ پہلے تو نکاح کرنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ اور اب نکاح ختم نہیں کرنا چاہتا۔۔۔؟
کیا شخص تھا وہ۔۔۔ ؟
ایک پہیلی۔۔۔ جو وہ چاہ کے بھی نہیں سلجھا پا رہی تھی۔
فی الحال ابرش نے خاموش رہنا مناسب سمجھا۔ ابتسام کے دماغ میں چل کیا رہا تھا۔۔؟
اسے وہ جاننا تھا۔
اور اسکے لیے اسے خاموشی سے اسکی ہاں میں ہاں ملانی تھی۔
دونوں باہرنکلے تو ارتسام اور ارحام باہر ویٹ کرتے نظر آۓ۔
ہاں۔۔ جی۔۔۔! کیا ارادے ہیں آپ دونوں کے۔۔؟؟
ارحام کی زبان پھسلی۔
یہ۔۔ ہمارے ساتھ ہمارے گھر چلیں گیں۔
ایک نظر ابرش کو دیکھتا وہ سپاٹ لہجے میں بولا۔
ہرا۔۔۔۔! بے اختیار ارحام۔کے منہ سے پھسلا۔ تو ارتسام نے مڑ کے اسے گھورا۔ تو وہ سر کھجانے لگا۔
ٹھیک ہے بھاٸ ۔۔! آپ لوگ چلیں۔۔ میں شام تک واپس آتا ہوں۔۔۔! ارتسام نے کہا تو ارحام۔کا منہ بنا۔
نو۔۔نو۔۔۔ آپ بھی ساتھ چل رہے ہیں۔۔ بھاٸ اور بھابھی اپنی گاڑی میں آٸیں گے۔۔ آپ میرے ساتھ چلیں۔ ہم۔۔ نے انکا ویلکم بھی تو کرنا ہے ناں۔۔۔! آجاٶ۔۔۔۔ یار۔۔۔!
ارحام نے کہتے ہی زبردستی ارتسام۔کوکھینچا۔ جو نفی میں سرہلاتا اسکے ساتھ ہولیا۔
توبہ ہے۔۔۔ تینوں ہی عجوبے ہیں۔۔ ابرش نے دل ہی دل میں سوچا۔۔۔
چلیں۔۔ ! ابتسام نے اسکا ہاتھ تھاما۔ بے اختیار ابرش کی نظر اپنے نازک ہاتھ اور اسکے مضبوط ہاتھ کی گرفت پے گٸ۔ تو ایکبار پھر دل ایک سو بیس کی رفتار سے دھڑکنا شروع کر دیا۔
وہ اسے ایک نظر دیکھتا واپس سامنے کی جانب رخ کیا۔ ابرش نے پلکیں اٹھا کے اس پل پل رنگ بدلتے شخص کو د یکھا۔ اور اسکے ہر بڑھتے قدم کے ساتھ اپنا قدم بھی بڑھایا۔
ابتسام ہی جانتا تھا۔ کہ وہ یہ سب کیوں کر رہا تھا۔۔
اس میں ابرش کی بہتری تھی۔ وہ اپنے گھر سیکور نہیں تھی۔
مجیب شمس نے اکیلے میں ساری بات ابتسام کو بتا دی تھی۔ وہ جو ابرش سے بھی چھپا رہے تھے۔
اور ابتسام پے چھوڑ یا کہ وہ جو مرضی فیصلہ کرے۔
اور نکاح کے وقت ہی اس نے دل۔میں تہیہ کر لیا تھا۔ وہ رخصتی لے گا ابرش کی۔ لیکن ابی جان کے آنے کے بعد اور عدالت میں کیس ختم ہونے کے بعد ۔۔ ۔!
کچھ پل کو ابتسام کو لگا کہ کیا پتہ مجیب صاحب غلط بیانی کر رہے ہوں۔ تاکہ ابرش کی رخصتی ہو جاۓ۔۔
لیکن۔۔ عدالت کے باہر ابرش پے اٹیک۔۔ مجیب صاحب کی بات پے سچاٸ کی مہر لگا گٸ۔ اور لمحے کےہزارویں حصے میں اس نے ابرش کو اپنے ساتھ رکھنے کا فیصلہ کیا۔
اسکی سیکیورٹی۔۔ پیرزادہ منشن سے زیادہ کہیں نہیں ہو سکتی تھی۔ صرف اسکی سلامتی کے لیے اس نے یہ فیصلہ لیا۔
لیکن وہ نہیں جانتا تھا۔۔ فیصلہ تو یہی رہنا تھا۔۔ لیکن
آہیستہ آہیستہ بہت جلد وجہ بدلنے والی تھی۔
If you have any queries regarding downloading let us know by commenting below. After reading this novel also leave your precious comments below and let us know about your thoughts and novel selection which type of novels would you like to read????? and which type you want to be posted here we will try to bring novels according to your choice of selection. Thanks for Reading!!!!