Haq Mehar By Muntaha Chauhan

 


Urdu Nonvillains is a platform for all social media writers. Here you find variety of novels having different plot and concept about life of a human being who faces difficulties in every walk of life. 


Each story has its own moral every story teaches us a new lesson as it contains experience of every human life.


Here you find revenge based, Islamic based, Rude hero, Doctor, Lawyer based with many more exciting tragedies......


Haq Mehar   is one of the fabulous novel that get attention by readers after reading it you will love this novel. Download this novel by clicking below the given link.


Haq Mehar By Muntaha Chauhan Complete Pdf


Download



Sneak Peak No : 1


یہ۔۔۔ یہ۔۔کیا ۔۔?
آپ۔۔۔کہاں جا رہے ہیں۔۔||
ابرش اس کے خطرناک تیور دیکھ دہل کے رہ گٸ۔
کوشش کروں گا جلدی آجاٶں۔۔ اور تمہیں تمہارے بابا سے ملوا لاٶں ۔۔ ورنہ کل تک ویٹ کر لینا۔۔۔ اکیلی مت جانا ۔۔ میں خود لے کے جاٶں گا۔سمجھی۔۔۔
اسکی بات کو نظر انداز کرتا وہ اسے ہدایت دیتا باہر جانے لگا۔
گن اسنے اپنی ساٸیڈ پاکٹ میں رکھی۔
رکیں۔۔ مسٹر۔۔ پیرزادہ۔۔۔ آپ یوں نہیں جا سکتے۔۔۔ آپ۔۔یہ گن کہاں۔۔ لے کے جارہے ہیں۔ ???
ابرش نے اسکا راستہ دروازے کے آگے ہاتھ رکھتے روکا۔
ابتسام نے اسکا بازو پکڑکے مروڑ کے اسکی پشت اپنے سینے سے لگاٸ۔ وہ جی جان سے سلگ اٹھی۔
بہت حق نہیں جتاۓ جا رہے۔۔۔۔||
اسکی کان میں گھمبیر آواز میں سرگوشی کرتا وہ اسکی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑا گیا۔
ببب۔۔۔بیو۔۔ی۔۔ ہوں۔۔۔ حق تو ہے۔۔۔۔!
ہکلاتے ہوۓ بمشکل گردن موڑ کے اسے دیکھتے کہا۔وہ نہی جانتی تھی۔ کہ یہی الفاظ اسکو کہاں لے جانے والے تھے۔ اور وہ ابتسام کے اندر سوۓ شیر کو جگا گٸ تھی۔
حق۔۔۔ بیوی۔۔۔||
پھر تو یہ بھی جانتی ہوگی۔۔۔ شوہر کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں۔۔۔ وہ پھر کب دے رہی ہو۔۔۔!!!!!
اسے اپنے لفظوں میں الجھا کے ایک بار پھر اسے لاجواب کر گیا۔
آپ۔۔ جاٸیں آپ کو دیر۔۔ ہو رہی ہوگی۔۔۔
۔
دانت پیستی وہ اسے گھور کے بولی۔
گڈ گرل۔۔۔ اسکا ہاتھ چھوڑتا وہ اسکا گال تھپتھپاتا باہر کی جانب بڑھا ۔ جبکہ ابرش نے گہرا سانس خارج کیا۔
اف۔۔۔۔۔ کتنا خطرناک انسان ہے۔۔ اس سےدور رہنا ہی بہتر ہے۔۔۔ !!
گہرے سانس لیتی وہ بابا کو فون ملانے لگی۔ جو بند جا رہا تھا۔ وہ مزید پریشان ہوگٸ۔
ابھی وہ انہی سوچوں میں غلطاں تھی۔ کہ اسے ان ناٶن نمبر سے کال آٸ۔ وہ حیران تو ہوٸ لیکن کال پک کر لی۔
جیسے جیسے وہ سنتی جا رہی تھی۔ اسکا دل بیٹھا جا رہا تھا۔ آنسو بہہ نکلے۔

بابا۔۔۔۔! بے اختیار باپ کو پکارا ۔



Sneak Peak No : 2

اب کیا ہوا۔۔؟؟ ابتسام نے اب کی بار زچ و کے گھورتے ہوۓ پوچھا وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے اسکی ناک میں دم کیےہوۓ تھی۔
آپ ہر بات اتنے آرام سے کہہ دیتے ہیں۔۔ اب بھلا۔۔۔ اس ایک روم میں۔۔۔ میں آپ کے ساتھ اکیلے کیسے رہ سکتی ہوں۔؟؟
اپنی پریشانی پے وہ منہ بنا کے بولی۔ ابتسام کو۔اسکی دماغی حالت پے شک ہوا۔
کیا مطلب۔۔؟؟ ویسے ہی۔۔ جیسے سب ہسبینڈ واٸف رہتے ہیں۔۔
اسکی بات کو سرسرے انداز میں ٹالتے کہا۔
لیکن۔۔۔؟؟ ابرش نے لب بھینچے۔
آپ کے روم میں بیڈ بھی ایک ہے۔۔۔! اتنے زیادہ امیر ہیں۔۔ بندہ روم۔میں دو بیڈ سیٹ کروا لیتا ہے۔۔۔ اب میں کہاں سوٶں گی۔۔؟؟
ابرش کو اپنے سونے کی فکر لگی وہ بھی تو آج کا سارا دن اچھا خأصا تھک چکی تھی۔
مسز۔۔۔! کسی بھول میں مت رہنا۔۔۔ نہ ہی یہ کوٸ ڈرامہ ہے اور نہ ہی کسی فلم کی شوٹنگ۔۔ کہ میں آپ کو کہوں۔۔ آجاٶ آپ بیڈ پے سوجاٶ۔۔ میں صوفے پے سوجاتا ہوں۔۔ یہ حقیقی دنیا ہے بہتر ہوگا۔ اپنی خیالی نیا سے باہر آجاٶ۔۔
ابتسام نے اسکی اچھی خاصی طبعیت صاف کی۔
میڈیسن وہ لے چکا تھا۔ اور اسے اب نیند آنے لگی تھی
۔
اوپر سے ابرش کا بے فضول تنگ کرنا۔ وہ اب سر تکیے پے رکھے۔ آنکھیں موند گیا۔
میں بھی کوٸ کسی فلم کی مظلوم ہیروٸین نہیں۔۔ کہ قربانی دے دوں۔مجھے۔۔۔ صوفے پے نیند نہیں آتی۔۔۔
مججے رخصت کر کے آپ لاۓ ہیں۔ تو اب آپ کی زمہ داری ہے۔ کہ میرے سونے کے لیے بیڈ کا بندوبست کریں۔
ابرش نے آج قسم۔کھالی تھی اسے اچھی طرح تنگ کرنے کی ۔
مسز۔۔۔! کروٹ اسکی طرف لی۔ آنکھیں نیند سے بوجھل ہو رہی تھیں۔
بیڈ کا ساٸز کافی بڑا ہے۔ آپ یہاں آکے سو سکتی ہیں۔۔
لیکن۔۔ پلیز ۔۔منہ بند کر کے۔۔۔! مجھے مزید آواز نہ آۓ اب آپ کی۔۔۔! غصہ میں وہ اسے آپ کہہ کے ہی پکار رہا تھا۔ اتنا ابرش کو آٸیڈیا ہوگیا تھا۔


Sneak Peak No : 3

رخصتی ۔۔۔۔۔ تو۔۔؟؟ ابرش نے بولنا چاہا۔
رخصتی۔۔ آج ابھی اسی وقت ہوگی۔ ابرش ابتسام علی پیرزادہ۔۔۔!
دھیمی آواز۔۔۔۔
سلگتا لہجہ۔۔۔
اور بنا پلک جھپکے ۔۔۔ کہتا وہ ابرش کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسی دوڑا گیا ۔
ایسا۔۔۔ ایسا۔۔ طے۔۔۔نہیں۔؟؟؟
حلق تر کرتے ابرش نے کہنا چاہا۔
طے کیا ہوا تھا کیا نہیں۔ فیصلہ ہو گیا ہے۔۔ اور میں اپنے فیصلہ میں ردو بدل کا قاٸل نہیں۔۔
اتنا استحاق بھرا انداز۔۔۔؟؟ ابرش کو تو سلگا ہی گیا۔
اور۔۔ میں بھی طے شدہ بات سے پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں۔۔ رخصتی نہیں ہوٸ۔۔ تو ۔۔ نہیں۔۔ جا سکتی۔۔۔ سمجھےآپ۔۔۔!
ماتھے پے بل ڈالے کہتے وہ باہر جانے کے لیے مڑی تھی۔
کہ ابتسام نے باٸیں ہاتھ سے اسکی کلاٸ تھام کے اسے اپنی طرف کھینچا۔
وہ مڑتی اچانک سے اسکے سینے آلگی ۔
مجھے نہ سننے کی عادت نہیں۔ مسز۔۔۔! اور نکاح کی خواہش مند بھی تم تھی۔ ہر لفظ بڑاے نپے تلے انداز میں کہتا وہ ابرش کی آنکھو ں میں جھانکتا اسے سمٹنے پے مجبور کر گیا۔
چھوڑیں مجھے۔۔۔! وہ سٹپٹاٸ۔
اب گھر چل کے بات کرتے ہیں باقی کی۔ ٹھیک ہے۔
ابتسام نے عام سے انداز میں کہہ کے بات ختم کرنا چاہی۔
آپ کو ایک بات سمجھ نہیں آتی۔۔؟
فضول میں گلے پڑ ہے ہیں۔ ایک بار کہہ جو دیا۔کہ نہیں۔۔۔؟؟؟
ماتھےپے بل ڈالے وہ چاہ کے بھی اپنی آواز میں سختی پیدا نہ کر سکی۔
میں آرام سے سمجھا رہا ہوں۔ لگتا ہے تمہیں سمجھ نہیں آرہی۔۔؟
تمہاری زبان میں بات کروں۔۔؟؟
اپنے درد کی پرواہ کیے بنا وہ پھر سے غصے سے اسکی کلاٸ تھام گیا۔
ابتسام۔۔۔ پیرزادہ۔۔۔!یہ نکاح صرف۔۔۔ پیپرز تک ہے۔۔۔اور اس کی کوٸ حیثیت نہیں۔۔۔!
یہ نکاح پیپرز تک ہے۔۔۔؟؟ ایسا کس نے کہا۔۔؟؟
باقاعدہ نکاح ہوا ہے۔ مولوی صاحب نے نکاح پڑھایا ہے۔۔
صرف کاغزی کارواٸ نہیں ہوٸ۔۔۔ سمجھی۔۔۔!
اور تمہارے بابا کی اجازت سے نکاح میں لیا ہے اپنے۔۔۔!
ابتسام کو سخت غصہ ہی آگیا اسکی بات پے۔
ابرش لب بھینچے زمین کو گھورنے لگی۔
جب احد نے کہا۔۔ کہ جھوٹ ہی سہی صرف پیپرز تک کر لیں ۔ بعد میں اسکی کوٸ ویلیو نہیں ہوگی۔ تو تب کیاکہا تھا تم نے۔۔۔؟
میں عدالت میں جھوٹ کیسے بولوں گی۔۔؟؟ نکاح ہو نہ ۔۔۔اور نکاح کا جھوٹا ناٹک کیسے کروں۔۔؟؟
ابتسام۔نے اسے اچھا خاصا لتاڑ کے رکھ دیا۔ ابرش کو لگا تھا۔ یہ کم بولتا ہے۔یا شاید اسے بولنا نہیں آتا ہے۔۔ لیکن آج اس نے ساری کسر پوری کر دی تھی۔
حسرت ہی نہ رہی کہ یہ کم کیوں بولتا ہے۔۔؟؟
یہ نکاح۔۔۔ تمہاری مرضی سے ہوا تھا۔۔ لہذا اب بھگتو۔۔۔اور میرے ساتھ میرے گھر ہی چلو گی تم۔۔ !
ابتسام نے ہر لفظ پے زور دے کے کہا۔
آپ ۔۔۔ زبردستی نہیں کر سکتے میرے ساتھ۔۔۔۔! ایسا کوٸ حق نہیں دیا میں نے آپ کو۔۔۔کمزور سا احتجاج کرنا چاہا۔ دل تھا کہ زوروں سے دھڑک رہا تھا۔
اپنے سارے حقوق تم میرے نام کر چکی ہو۔
اس کے کان کے قریب ہوتا سرگوشی میں کہتا وہ اسکے اند رکی دنیا تک ہلا گیا۔
اور میں کیا کر سکتا ہوں کیا نہیں۔۔ تمہاری سوچ ہے۔۔۔!
دھمکی آمیز لہجہ۔۔ اب کی بار ابرش کو سخت غصہ آیا۔
ٹھیک ہے۔۔ اگر ایسی بات ہے ۔۔ تو آپ مجھے ڈاٸیورس۔۔۔۔!!
چپ۔۔۔ ایک دم۔۔ چپ۔۔۔! اسکی بات پوری ہونے سے پہلے اسکے بالوں میں ہاتھ ڈالتا اپنی طرف کھینچتا قہر آلود آنکھیں اسکی کالی آنکھو ں میں گاڑیں ۔۔ کہ اپنا عکس واضح نظر آیا۔
خبردار جو یہ لفظ اپنی زبان سے نکالا بھی تو۔۔۔ !
آنکھیں بند کرتا اپنا غصہ ضبط کرتا وہ دوبارہ سے نارمل انداز میں اس سے بولا۔
مسز۔۔! اب مزید بحث نہیں۔۔۔ گھر چلیں۔۔ !
اب کی بار نرم۔لہجے میں کہا۔ تو وہ خاموشی سے اسے یوں بدلتے دیکھتی سوچ میں ڈوب گٸ۔
یہ کایا پلٹ کیسے۔۔۔۔؟؟ کیوں وہ اس پے حق جتا رہا ہے۔۔۔؟؟ پہلے تو نکاح کرنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ اور اب نکاح ختم نہیں کرنا چاہتا۔۔۔؟
کیا شخص تھا وہ۔۔۔ ؟
ایک پہیلی۔۔۔ جو وہ چاہ کے بھی نہیں سلجھا پا رہی تھی۔
فی الحال ابرش نے خاموش رہنا مناسب سمجھا۔ ابتسام کے دماغ میں چل کیا رہا تھا۔۔؟
اسے وہ جاننا تھا۔
اور اسکے لیے اسے خاموشی سے اسکی ہاں میں ہاں ملانی تھی۔
دونوں باہرنکلے تو ارتسام اور ارحام باہر ویٹ کرتے نظر آۓ۔
ہاں۔۔ جی۔۔۔! کیا ارادے ہیں آپ دونوں کے۔۔؟؟
ارحام کی زبان پھسلی۔
یہ۔۔ ہمارے ساتھ ہمارے گھر چلیں گیں۔
ایک نظر ابرش کو دیکھتا وہ سپاٹ لہجے میں بولا۔
ہرا۔۔۔۔! بے اختیار ارحام۔کے منہ سے پھسلا۔ تو ارتسام نے مڑ کے اسے گھورا۔ تو وہ سر کھجانے لگا۔
ٹھیک ہے بھاٸ ۔۔! آپ لوگ چلیں۔۔ میں شام تک واپس آتا ہوں۔۔۔! ارتسام نے کہا تو ارحام۔کا منہ بنا۔
نو۔۔نو۔۔۔ آپ بھی ساتھ چل رہے ہیں۔۔ بھاٸ اور بھابھی اپنی گاڑی میں آٸیں گے۔۔ آپ میرے ساتھ چلیں۔ ہم۔۔ نے انکا ویلکم بھی تو کرنا ہے ناں۔۔۔! آجاٶ۔۔۔۔ یار۔۔۔!
ارحام نے کہتے ہی زبردستی ارتسام۔کوکھینچا۔ جو نفی میں سرہلاتا اسکے ساتھ ہولیا۔
توبہ ہے۔۔۔ تینوں ہی عجوبے ہیں۔۔ ابرش نے دل ہی دل میں سوچا۔۔۔
چلیں۔۔ ! ابتسام نے اسکا ہاتھ تھاما۔ بے اختیار ابرش کی نظر اپنے نازک ہاتھ اور اسکے مضبوط ہاتھ کی گرفت پے گٸ۔ تو ایکبار پھر دل ایک سو بیس کی رفتار سے دھڑکنا شروع کر دیا۔
وہ اسے ایک نظر دیکھتا واپس سامنے کی جانب رخ کیا۔ ابرش نے پلکیں اٹھا کے اس پل پل رنگ بدلتے شخص کو د یکھا۔ اور اسکے ہر بڑھتے قدم کے ساتھ اپنا قدم بھی بڑھایا۔
ابتسام ہی جانتا تھا۔ کہ وہ یہ سب کیوں کر رہا تھا۔۔
اس میں ابرش کی بہتری تھی۔ وہ اپنے گھر سیکور نہیں تھی۔
مجیب شمس نے اکیلے میں ساری بات ابتسام کو بتا دی تھی۔ وہ جو ابرش سے بھی چھپا رہے تھے۔
اور ابتسام پے چھوڑ یا کہ وہ جو مرضی فیصلہ کرے۔
اور نکاح کے وقت ہی اس نے دل۔میں تہیہ کر لیا تھا۔ وہ رخصتی لے گا ابرش کی۔ لیکن ابی جان کے آنے کے بعد اور عدالت میں کیس ختم ہونے کے بعد ۔۔ ۔!
کچھ پل کو ابتسام کو لگا کہ کیا پتہ مجیب صاحب غلط بیانی کر رہے ہوں۔ تاکہ ابرش کی رخصتی ہو جاۓ۔۔
لیکن۔۔ عدالت کے باہر ابرش پے اٹیک۔۔ مجیب صاحب کی بات پے سچاٸ کی مہر لگا گٸ۔ اور لمحے کےہزارویں حصے میں اس نے ابرش کو اپنے ساتھ رکھنے کا فیصلہ کیا۔
اسکی سیکیورٹی۔۔ پیرزادہ منشن سے زیادہ کہیں نہیں ہو سکتی تھی۔ صرف اسکی سلامتی کے لیے اس نے یہ فیصلہ لیا۔
لیکن وہ نہیں جانتا تھا۔۔ فیصلہ تو یہی رہنا تھا۔۔ لیکن
آہیستہ آہیستہ بہت جلد وجہ بدلنے والی تھی۔

If you have any queries regarding downloading let us know by commenting below. After reading this novel also leave your precious comments below and let us know about your thoughts and novel selection which type of novels would you like to read????? and which type you want to be posted here we will try to bring novels according to your choice of selection. Thanks for Reading!!!!


Post a Comment

Previous Post Next Post