Dill Muntazir Mera By Rimsha Hussain

 



Urdu Nonvillains is a platform for all social media writers. Here you find variety of novels having different plot and concept about life of a human being who faces difficulties in every walk of life. 


Each story has its own moral every story teaches us a new lesson as it contains experience of every human life.


Here you find revenge based, Islamic based, Rude hero, Doctor, Lawyer based with many more exciting tragedies.....


Dill Muntazir Mera is one of the fabulous novel that get attention by readers after reading it you will love this novel. Download this novel by clicking below the given link.


If you have any queries regarding downloading let us know by commenting below. After reading this novel also leave your precious comments below and let us know about your thoughts and novel selection which type of novels would you like to read????? and which type you want to be posted here we will try to bring novels according to your choice of selection. Thanks for Reading!!!!


Dill Muntazir Mera By Rimsha Hussain Complete Pdf


CLICK BELOW THE DOWNLOAD BUTTON


حیا فورن سے کمرے میں آتی حمزہکو کال کرنے لگی پر اُس کا نمبرمسلسل بند جارہا تھا حیا کو ٹیشنہونے لگی پورے گھنٹے لگاتار وہ کال

کرتی رہی پر نمبر بند جارہا تھا تھک

ہار کر اپنا سر پکڑ کر وہ بیڈ پہ بیٹھگئ۔میرے خدایا اب کیا ہوگا میں توحمزہ کے نکاح میں ہوں اور گھر والے

کسی اور سے نکاح کروانے کا سوچ

رہے ہیں۔ حیا پریشانی سے ا     کو مخاطب ہوئی۔حمزہ کا فون کیوں بند ہے۔ حیا کشن زمین پہ پھینک کر بولی۔

کل بات ہوگی تو بتادوں گی۔ حیا

خود کو تسلی دینے لگی پر دل کو ایک پل سکون میسر نہیں ہورہا تھا۔

💕💕💕💕آج مسٹر اسحاق ظفر اور ان کیبیوی راحیلہ کشف کو انگھوٹی

 پہنانے آئے تھے۔ماشاا بہت پیاری بچی ہے آپ کیراحیلہ بیگم نے کشف کو دیکھ کرکہا جو روبوٹ کی طرح بیٹھی ہوئی تھی۔

جی بس ا      نصیب اچھا کریں۔

 سومل بیگم نے مسکراکر کہا۔ایسکیوز پلیز۔ کشف سنجیدگی سےکہتی وہاں سے اُٹھ گئ۔لگتا ہے شرماگئ۔ راحیلہ بیگم نےاندازہ لگایا جس پہ سومل بیگمزبردستی مسکراہٹ چہرے پہ سجاکر

 سرہلایا۔

💕💕💕💕💕صبح سے حیا کو اپنی طبیعت ٹھیکنہیں لگ رہی تھی حمزہ کے آفسجاکر اُس کو پتا لگا کہ وہ کجھ دِنوںسے آوٴٹ آف کنٹری یہ بات حیا کےلیے کسی جھٹکے سے کم نہیں تھیایسا پہلی بار ہوا تھا حمزہ بنا بتائےکہیں گیا تھا اب جب اُس کو زیادہحمزہ کی ضرورت تھی وہ موجودنہیں تھا وہ جو پہلے ہی پریشان تھیطبیعت خراب ہونے پہ کلینک آگئتھی جہاں ایک اور نئ خبر اُس کیمنتظر تھی جو اس کے لیے کسی قیامت سے کم نہ تھی۔کانگریس آپ ایکسیپٹ کررہی ہیں۔

ڈاکٹر نجمہ نے کہا تو وہ گنگ سی انکا چہرہ تکنے لگی چہرے کے رنگ

 لٹھے مانند سفید ہوگیا تھا۔آپ کو شاید کوئی غلط فہمی ہوئیہوگی۔ حیا نے ماتھے سے ننہی بوندیں صاف کرتے ہوئے کہا۔

پچیس سال کا تجربہ ہے میں ڈاکٹر

ہوں رپورٹ آجائے گی تو آپ کو بھییقین ہوجائے گا۔ ڈاکٹر نجمہ نےمسکراکر کہا۔گھر آکر حیا نے حمزہ سے رابطہ کیا

مگر سب نے سود ای میل پہ اُس بےایک سب کجھ بتادیا پر سکون کیگھڑیاں جیسے چھین لی گئ تھیفاریہ مرزا کی آمد میں بھی چند دنرہ گئے تھے

💕💕💕💕💕

امی آپ ڈیڈ سے بات کریں مجھے

نہیں کرنی شادی۔ کشف نے التجایہ انداز میں سومل بیگم سے کہا۔کشف فضول کی ضد مت کرو جس

کے لیے تم ماں باپ کے فیصلے پہ

اختلاف کررہی ہو اُس کے ساتھ رُل

جانے کے علاوہ تمہیں کجھ حاصلنہیں ہوگا۔ سومل بیگم نے سختلہجے میں کہاآپ لوگ ایک دفع مل تو لیں۔ کشفنے بے بسی سے کہا۔وہ بھی تمہیں چاہتا ہے؟ سومل بیگمنے جاننا چاہا جس پہ کشف کا سر نفی میں ہلا۔تو ہم کیا کریں گے اُس سے مل کر۔ سومل بیگم نے طنزیہ کہا۔آپ راضی ہوجائے موحد میں راضیکرنا میرا کام ہے۔ کشف نے سنجیدگی سے کہا۔کشف ہمیں سختی کرنے پہ مجبورمت کرو جو ہورہا ہے اُس کو ہونے دوبھول جاؤ دوسرے لڑکے کو۔سوملبیگم اس کی بات سنے بنا بولی۔

💕💕💕💕💕کسی ہیں؟ ماہر نے مسکراکر منہا سےپوچھا جو یونی کے گیٹ پہ کھڑی ساگر کا انتظار کررہی تھی۔آپ یہاں؟ منہا حیران ہوکر بولی۔جی میں آپ کے ساتھ لنچ کا پروگرام

بنایا ساگر کو بتادیا ہے وہ نہیں آئے

گا آپ کو لینے دوسرا یہ کے میںماموں جاں سے اجازت لیں چُکا ہوں۔ماہر نے مسکراکر ایک سانس میںسب بتادیا جب سے منہا اُس کے

ساتھ منسوب ہوگئ تھی اُس کو سب

کجھ خوبصورت لگنے لگا تھا سرشارسی کیفیت ہر وقت اپنے اندر محسوس ہوتی تھی۔

 ٹھیک ہے۔ منہا نے بس اتنا کہا۔

چلیں پھر۔ ماہر نے کہا پھر وہ اُس کے ساتھ گاڑی کی طرف آئی۔بابا نے اجازت دے دی؟ منہا نے سوالکیا کیونکہ ان کے یہاں منگنی ہونےکے بعد جب تک شادی نہ ہوجائے لڑکا

لڑکی کا ایک دوسرے سے ملنا معیوب

 سمجھا جاتا تھا۔جی بلکل میں نے کہا اِس انداز سےکے وہ انکار نہیں کرپائے۔ ماہر نے جواب دیا۔

لنچ کا پروگرام کیوں بنایا آپ نے؟

 منہا نے دوسرا سوال داغا۔پوچھنا چاہتا تھا آپ رشتے سےخوش ہیں یا نہیں کیونکہ میں توبہت خوش ہوں۔ماہر نے مسکراکر

جواب دیا اُس کو منہا کا سوال کرنااچھا لگ رہا تھا۔اچھا۔ منہا اتنا کہہ کر خاموش ہوگئ۔جی تو بتائے آپ خوش ہیں؟ ماہر نے ڈرائیونگ کرتے سوال پوچھا۔جی میں خوش ہوں۔ منہا نے جواب دیا۔ خوش ہوئی جان کر۔ایک سوال پوچھو؟ منہا نے اجازت چاہی۔ جی پوچھے۔میں آپ سے دو سال چھوٹی ہوں پھرآپ مجھے آپ؛ کیوں کہتے ہیں؟ منہانے جاننا چاہا اُس کو یاد آیا نعیم باربار اُس کو تم؛ کہہ کر مخاطب کررہاتھا جب کی ماہر ہمیشہ آپ؛ کہہ کراحترام سے بات کرتا تھا۔کیوں کی آپ ان کو کہتے ہیں جن کیآپ عزت کرتے ہیں اور یہ کہاں لِکھاہے جو آپ سے عمر میں بڑا ہو بس ان

کو آپ کہہ کر مخاطب کیا جائے دل

میں اگر کسی کی عزت ہو تو چاہےآپ سے کوئی چھوٹا ہی کیوں نہ ہومنہ سے ان کے لیے آپ ہی نکلتا ہے۔

ماہر نے آرام سے بتایا تو منہا مُسکرادی۔

باتیں اچھی کرلیتے ہیں آپ باتوں سےلوگوں کو آرام سے اپنی طرف راغبکرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ منہا نے کہاتو کیا میرا یہ ہنر آپ پہ بھی کامآگیا؟ ماہر نے شرارت سے اس کی

جانب دیکھ کر کہا جس پہ منہامسکراکر دوسرے طرف دیکھنے لگیپر ماہر کو اپنا جواب مل گیا تھاریسٹورنٹ پہنچ کر ماہر نے گاڑی

روک کر منہا کی طرف آیا پھر دونوں

 اندر کی طرف بڑھے۔

💕💕💕💕💕محبت کا کتنا عجیبرشتا ہےدل تکلیف میں ہے

 اور/تکلیفدینے والا دل میں

کشف نے آج موحد کو کال کی تھیجو پانچ چھ کالز کے بعد موحد نےریسیو کرلی تھی تبھی کشف نے شعر پڑھا۔کیوں بار بار کال کررہی ہو؟ موحد نے بے زاریت سے پوچھا۔تمہیں پتا ہے موحد میں نے ہمیشہاپنے ہاتھ کی انگلی پہ تمہارے نامکی انگھوٹی پہننے کا سوچا تھا پردیکھو میرے ہاتھ کی انگلی میںکسی اور کے نام کی انگھوٹی ہے۔کشف نے ہاتھ میں پہنی انگھوٹی کو دیکھ کر اُداس مسکراہٹ سے بتایا۔اچھی بات ہے۔ موحد بس اتنا بول پایا۔تمہارے لیے اچھی بات ہوگی تم نےسوچا ہوگا جان چھوٹی پر موحدایک بات بتادوں میں ہمیشہ تمہیںچاہوں گی میرا دل ہمیشہ تمہارا منتظر رہے گا۔ کشف نے کہا۔زندگی میں آگے بڑھ جانا بھول جاؤ

تمہاری زندگی میں کوئی موحد بھی

تھا۔موحد نے گہری سانس بھر کرکہا۔تم میری زندگی میں کہاں تھے موحدوہ تو میں پاگل تھی جو تمہیں اپنی

زندگی سمجھ بیٹھی۔کشف کے

جواب پہ موحد کجھ بولنے کے قابلنہ رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حیا ماؤف دماغ کے ساتھ ہاتھ میں

رپورٹ تھامتی گھر میں داخل ہوئیتھی آج اُس کو ہوسپٹل سے کال آئیتھی کے آکر اپنی رپورٹس لیں جائےجی کی اُس کی پریگنسی کی تھیاور پوزیٹو آئی تھی یہ بات جان کر

وہ سچ میں ماں بننے والی ہے اُس کا

خون خشک ہوگیا تھا گھر میں کسیکو پتا چل گیا تو کیا کہے کیا سوچےگے کیا ہوگا یہ باتیں سوچ سوچ کراُس کا دل گھبراہٹ کا شکار ہوگیا تھا

رپورٹس کو چھپاتی وہ سیدھا کشف

کے کمرے میں آئی جو کال پہ باتکررہی تھی وہ اِس کنڈیشن میںنہیں تھی کجھ سمجھ پاتی پر بےدھیانی میں کشف کے الفاظوں نے

اس کی باتیں سننے پہ مجبور کردیا۔زندگی میں نہ ہمیں ہر چیز ملتی ہےپر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ کوئیجان سے زیادہ پیارا ہوجاتا ہے پھرا   وہ ہم سے چھین لیتا ہے یا دورکردیتا ہے پھر ہماری ساری زندگیایک اس لاحاصل کی حسرت میںگزُر جاتی ہے تم میری ہر دعاؤں میںشامل ہوتے ہو مجھے لگتا تھا تمہیںمیری محبت نظر ضرور آئے گی پر تمنے مجھے موقف تک نہیں دیا میںخود کو ایسے بنالیتی جیسا تم چاہتےہو میں کبھی کوئی فرمائش نہ کرتیفاقے کی زندگی بھی تمہارے ساتھہنسی خوشی گزُار لیتی پر تم نےمجھے موقع نہیں دیا ایک بار بھینہیں۔کشف روتے ہونے بولتی کال کاٹکر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی حیا اپناغم تکلیف بھولاتی کشف کی طرفبڑھی۔

کشف سنبھالوں خود کو۔ حیا اس کو

 اپنے ساتھ لگاتی بولیحیا میں بہت چاہتی ہوں اُس کو پلیزاُس کو کہو میری محبت قبولکردے۔ کشف حیا کے ہاتھ تھامتی

 اُمید سے بولی۔

وہ تمہیں نہیں چاہتا اگر چاہتا توکبھی تمہیں کسی اور کا ہوتا نہدیکھتا۔ حیا نے سمجھانے کی خاطر

کہا کشف خالی خالی نظروں سے اُسکو دیکھنے لگی۔

 حضرت علی رضہمولا علی رضہ فرماتے ہیں تم کسیکو چاہوں اور وہ تمہیں ٹھکرادے تویہ اُس کی بدنصیبی ہے اُس کے بعد

بھی اگر تم اُس کو زبردستی اپنانا

چاہوں تو یہ تمہارے نفس کی زلتہے۔حیا اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتی بولی۔

میں کیا کروں اُس کو بھولنا میرے

بس میں نہیں۔کشف بے بسی سےبولیصبر کرلوں اگر وہ تمہاری قسمتمیں نہیں تو سمجھ لوں ا     نے کجھ

اور بہتر لِکھا ہے ا کے ہر کام میںمصلحت ہوتی ہے۔ حیا نے نرمی سےکہا تو پہلی دفع کشف کا دھیان اُسکے زرد چہرے اور سوجھی آنکھوں کی طرف گیا۔تمہیں کیا ہوا ہے چہرے کا رنگ پیلاکیوں ہورہا ہے آنکھیں بھی لال ہورہیہیں۔ کشف نے فکرمندی سے پوچھاجس پہ حیا زخمی مسکرادی اور اُٹھکر بنا کجھ کہے رپورٹس اُٹھاکرکشف کی طرف بڑھائی کشفناسمجھی سے اس کو دیکھ کررپورٹس پاتھ میں لیکر کھول کردیکھنے لگی جیسے جیسے دیکھتیگئ اُس کی آنکھیں پھٹنے کی حدتک کھل گئ۔

یہ کیا حماقت کرڈالی تم نے۔ کشفنے غصے سے رپورٹس اُس کی طرف

 پھینک کر کہا۔


Post a Comment

Previous Post Next Post