Dasht E Ishq By Namish Shah

 


Urdu Nonvillains is a platform for all social media writers. Here you find variety of novels having different plot and concept about life of a human being who faces difficulties in every walk of life. 

Each story has its own moral every story teaches us a new lesson as it contains experience of every human life.

Here you find revenge based, Islamic based, Rude hero, Doctor, Lawyer based with many more exciting tragedies......

Dasht E Ishq   is one of the fabulous novel that get attention by readers after reading it you will love this novel. Download this novel by clicking below the given link.


If you have any queries regarding downloading let us know by commenting below. After reading this novel also leave your precious comments below and let us know about your thoughts and novel selection which type of novels would you like to read????? and which type you want to be posted here we will try to bring novels according to your choice of selection. Thanks for Reading!!!!


Dasht E Ishq By Namish Shah


Download


Sneak Peak No 1:

جنت اٹھو پلیز۔۔ مجھے معاف کر دو لیکن میں نے جان بوجھ کر یہ سب نہیں کیا یار غصے میں دروازہ بند کیا تھا پتہ نہیں کیسے لاک ہو گیا۔۔۔ وہ اس کے ہاتھ تھام کر اپنے ہاتھوں سے رگڑتے اسے ہوش میں لانے کی کوشش کرتا اسے صفائیاں پیش کر رہا تھا جو ویسے ہی بے سدھ پڑی تھی
من ویر نے سائڈ ٹیبل سے پانی کا گلاس اٹھا کر اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے جس سے وہ ہلکا سا کسمسائی اور آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں تو اپنے سامنے کی اسے دیکھ کر فوراً آنکھیں بند کر گئی جس سے من ویر کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی
سفید رنگ، لمبی ترچھی پلکیں ،کٹاؤ دار ہونٹ، ٹھوڑی پر پڑتا گڑھا اور بھرا بھرا جسم وہ حسن کا پیکر تھی جو کسی کو بھی بہکا سکتا تھا من ویر نے آہستہ سے انگلی اس کی گھنی پلکوں پر پھیری جو کہ لرز رہی تھیں
جنت نے حیرانگی سے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا جس کی نظریں جنت پر ہی ٹکی تھیں تنہائی، ماحول میں چھائی معنی خیز خاموشی اور اپنے اوپر جھکے اس لمبے چوڑے وجود کو دیکھ کر جنت کو ایک دم گھبراہٹ سی ہونے لگی اس نے نا محسوس طریقے سے حلق تر کیا جو کے مقابل ہی زیرک نگاہوں سے بچا نہ رہ سکا
پپ پیچھے ہٹیں ڈاکٹر صاحب۔۔ جنت نے خشک ہوتے لبوں پر زبان پھیرتے بمشکل لڑکھڑاتی سی زبان میں کہا دل جیسے باہر آنے کو تھا مگر مقابل تو جیسے کچھ سن ہی نہیں رہا تھا اس کی نظریں تو جنت کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں جس سے اس کی جان پہ بن آئی تھی
ابھی جنت نے مزید کچھ کہنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کے من ویر نے جھک کر اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔۔ وہ جو پہلے سے گھبرا رہی تھی ہونٹ پہ اس کا لمس محسوس کرتی پھڑپھڑا کر رہ گئی اور بے ساختہ ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا جو مدہوش سا اس کی سانسوں سے چھیڑ چھاڑ کر رہا تھا۔۔
وہ جو اس کے نرم گرم سے ہونٹوں کو قبضے میں لیے مدہوش تھا اس کی سانسوں کی مدھم پڑتی رفتار سے ہوش میں آیا اور آہستہ سے اس سے الگ ہوا مگر چہرے پر کوئی شرمندگی نہیں تھی جبکہ مقابل تو ابھی تک اپنی سانسوں کو سنبھالنے کی جدوجہد میں ہلکان تھی۔۔ من ویر کے لب متبسم ہوۓ اس کی حالت دیکھ کر۔۔ وہ چہرا جو کچھ دیر پہلے زردی مائل تھا اب گلابی ہوا پڑا تھا


Sneak Peak No 2:

انھیں تھامتے وہ فکر مندی سے بولا اور ساتھ ہی ان کا سانس ہموار کرنےلگا
"یہ یہ کون ہے۔۔؟"
انھوں نے فائل اس کے سامنے کی جہاں امجد تتلا کی تصویر نظر آ رہی تھی
"ارے یہ یہ تو ایک مجرم ہے جس کا کیس میں ہینڈل کرنے والا ہوں آپ کی بہو کے ساتھ مل کر۔۔۔"
وہ بتاتا آخر میں شرارت سے بولا تو بدر صاحب نے لمبا سانس کھینچا
"یہ مجرم نہیں ہے طلال یہ گناہ گار ہے ہم سب کا میرا تمہارا ہم سب کا۔۔"
وہ کہتے اسے ساری بات بتانے لگے کہ کس طرح اس آدمی نے نوشین پر گولی چلائی اور اس کے بعد وہ سب ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا
طلال تو بلکل سن تھا آنکھوں میں شعلے بھر گئے تھے پہلے تو وہ اپنا فرض سمجھ کر سب کر رہا تھا مگر اب اس شخص کو ایسی ابرتناک سزا دے گا کہ سب کی روح کانپ اٹھے گی
اس نے جلدی سے بدر صاحب کو پانی پلایا اور انہیں ریلیکس کرتے تسلی دی کے اب اس انسان کے گناہوں کا پٹارا بھر چکا ہے اس لیے جلد ہی وہ اپنے انجام کو پہنچ جاۓ گا
ابھی وہ انھیں تسلی دینے میں مصروف تھا جب بدر کا موبائل چیخ پڑا تو انھوں نے جیب سے موبائل نکال کر دیکھا مگر برسوں بعد اس نمبر سے آتی کال۔کو دیکھ کر ان کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا آنسو خودبخود آنکھوں سے نکل آئے کتنا ترسا تھا وہ اپنی ہی ماں کی آواز کو جو بہت ہی سنگدل ہو گئی تھیں
"ہے ہیلو۔۔۔"
انھوں نے کانپتے ہاتھوں سے کال یس کر کے موبائل کان کو لگایا اور خود پر قابو پاتے بولے مگر جو انھیں آگے سے سننے کو ملا تھا وہ ان کے جسم میں جیسے نئی روح پھونک گیا تھا فون بند ہو چکا تھا مگر وہ خوشی کے مارے ہل بھی نہیں پا رہے تھے
"بابا کیا ہوا کس کا فون تھا۔۔؟"
طلال نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر انہیں زرا سا ہلایا تو وہ ہوش ہی دنیا میں واپس آۓ
"تمہاری دادی ہمیں حویلی بلا رہی ہیں آج ہی۔۔"
وہ آنسو بھری آنکھوں سے مسکرا کر بولے تو طلال کو خوشگوار حیرت ہوئی
"تو دیر کس بات کی ہے آپ آج ہی جائیں میرا ڈرائیور آپ کو لے جاۓ گا۔۔"
طلال نے انہیں خوشی سے گلے لگاتے ہوۓ کہا تو وہ اسے دیکھنے لگے
"تم نہیں جاؤ گے۔۔؟"
انھوں نے حیرت سے پوچھا
"بابا مجھے کچھ ضروری کام ہے میں جلد ہی آ جاؤں گا لیکن آپ دید نہ کریں فوراً حویلی چلے جائیں۔۔"
وہ انہیں تسلی دیتا ہوا بولا تو وہ مطمئن ہوتے شکرانے کے نوافل ادا کرنے چلے گئے


Sneak Peak No 3:

"ماشاءاللہ ہمیں یہی امید تھی تم سے طلال بے شک تم ایک قابل اور نڈر آفیسر ہو ہماری طرف سے تمہیں مکمل مدد دی جاۓ گی اور دوسری بات تم اپنی ٹیم خود سلیکٹ کر لو جو بھی کرنا چاہو۔۔"
انھوں نے فخر سے کہتے آخر میں سب آفیسرز کی طرف اشارہ کیا تو طلال نے بھی ایک بھرپور نظر سب پر ڈالی
"ایس پی کرن افضل اور انسپیکٹر امام کو میں شامل کرنا چاہتا ہوں باقی ٹیم ہم بعد میں مل کر ڈیسائڈ کر لیں گے۔۔"
طلال نے کہا تو امام اور کرن اٹھ کھڑے ہوۓ،، امام تو کافی پرجوش تھا مگر کرن نے خونخوار نظروں سے اسے گھورا مگر وہ بھی طلال تھا شانِ بے نیازی سے دوبارہ کمیشنر کی طرف متوجہ ہو گیا اور ان سے باقی کے معملات طے کرنے لگا جبکہ وہ اس کی حرکت پر سر تا پا سلگ کر رہ گئی
"آفیسر یہ ہے اس کیس کی مکمل فائل جس میں ساری ڈیٹیلز کے ساتھ ساتھ کچھ اہم ثبوت بھی ہیں اور ہاں ایک اور بات اس کیس کے بعد آپ کو بہت طریقوں سے پریشان کیا جاۓ گا مگر آپ نے ثابت قدم رہنا ہے۔۔"
اس کو فائل تھماتے کمیشنر صاحب نے کہا تو وہ مسکرا دیا
"تھینک یو سو مچ سر اس مدد کے لیے آپ بلکل پریشان نہ ہوں میں سنبھال لوں گا اور اگر کسی بھی قسم کی کوئی مدد چاہئے ہوئی تو آپ سے رابطہ ضرور کروں گا۔۔"
وہ پر اعتماد لہجے میں کہتا انہیں سلیوٹ کرتا باہر نکل آیا اور قدم کینٹین کی طرف بڑھائے جہاں کرن اور امام کو اس نے انتظار کرنے کا کہا تھا
کینٹین میں داخل ہوا تو وہ چاۓ پینے میں مصروف تھی اور ساتھ ہی ساتھ موبائل پر سکرولنگ کرنے میں اتنی مہو تھی کہ آس پاس کا کوئی دیھان ہی نہیں تھا جبکہ امام ادھر ادھر دیکھ کر ٹائم پاس کر رہا تھا جبھی نظر طلال پر پڑی تو جلدی سے اٹھ کر اسے سلوٹ کیا جب کہ وہ ہنوز ویسے ہی بیٹھی اپنے آپ میں مگن تھی
طلال نے امام کو چاۓ لینے بھیجا اور خود اس کی جگہ پر بیٹھ کر کرن کو دیکھنے لگا
پولیس یونیفارم میں سر پر حجاب باندھے کیپ ٹکاۓ پولیس کے ہی بھاری بوٹ پیروں میں پہنے وہ بلکل لاپروا سی بیٹھی تھی آنکھوں پر لمبی گھنی پلکیں سایہ فگن تھیں اور خوبصورت سے ہونٹ سنجیدگی سے آپس میں پیوست تھے
کبھی رُک گئے کبھی چل دئیے
کبھی چلتے چلتے بھٹک گئے
یونہی عمر ساری گزار دی
یونہی زندگی کے ستم سہے
کبھی نیند میں کبھی ہوش میں
تُو جہاں ملا تجھے دیکھ کر
نہ نظر ملی نہ زباں ہلی
یونہی سر جھکا کے گزر گئے
کبھی زلف پر کبھی چشم پر
کبھی تیرے حسیں وجود پر
جو پسند تھے میری کتاب میں
وہ شعر سارے بکھر گئے
مجھے یاد ہے کبھی ایک تھے
مگر آج ہم ہیں جدا جدا
وہ جدا ہوئے تو سنور گئے
ہم جدا ہوئے تو بکھر گئے
کبھی عرش پر کبھی فرش پر
کبھی اُن کے در کبھی در بدر
غمِ عاشقی تیرا شکریہ
ہم کہاں کہاں سے گزر گئے
گھمبیر بوجھل لہجے میں طلال نے غزل پڑی تو کرن نے حیرانگی سے پلکیں اٹھا کر اسے دیکھا جو خوبصورت سی مسکراہٹ کے ساتھ ایک کہنے ٹیبل پر رکھے چہرہ ہاتھ پر ٹکاۓ اسے ہی دیکھنے میں مصروف تھا
حیرت لے کہ آنکھوں میں وہ ان کا دیکھنا توبہ
الہٰی اُن کو دیکھیں یا پھر ان کا دیکھنا دیکھیں
ایک اور شعر پڑھا تو کرن سٹپٹا گئی اور غصے میں اسی پر چڑ دوڑی
"یہ کیا بے ہودگی ہے آپ کو شرم نہیں آتی ڈی ایس پی صاحب اپنی کولیگ سے اس طرح کی بے ہودہ گفتگو کرتے ہوۓ۔۔؟"
وہ اپنی شہد رنگ آنکھوں میں غصہ سماۓ نیچی آواز میں غرائی تو طلال نے پیار سے اس کا یہ بپھرا ہوا روپ دیکھا جو بلکل شیرنی لگ رہی تھی جو ابھی اس پر جھپٹ پڑے گی
ہم تو نادم ہیں اندام پر اپنے
رحم آتا ہے اب حال پر اپنے
تجھے دیکھا تو یہ محسوس ہوا
تو بھی الجھن زدہ ہے انداز پر اپنے
نمیش شاہ
🖤
اس نے ایک دفعہ پھر شعر پڑھا تو کرن زچ ہو کر اٹھ کھڑی ہوئی کیوں کہ اب اگر وہ مزید بیٹھتی تو ضرور رو دیتی اور یہی وہ نہیں چاہتی تھی
"میرے خیال سے میٹنگ کا ٹائم ختم ہو گیا باقی کی ڈیٹیلز میں امام سے لے لوں گی اللہ حافظ۔۔"
وہ بول کر مڑی تھی جب طلال نے غصے سے اس کی کلائی دبوچی
"خبردار اگر تم نے امام سے بات بھی ہی سمجھی طلال چوہدری کو یہ بات پسند نہیں کہ اس کی ملکیت پر کوئی غیر نظر رکھے ورنہ اس کی حالت کی زمہ دار تم خود ہو گی۔۔"
شعلہ بار نگاہوں سے اسے گھورتے طلال نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا تو کرن کی ریڑھ کی ہڈی سنسنا اٹھی اس کے تیور دیکھ کر مگر پھر بھی ہمت کر کے گویا ہوئی
"میں آپ سے ڈرتی نہیں سمجھے اور نہ ہی میں آپ کی ملکیت یا کوئی زر خرید غلام ہوں جس پر آپ اپنی مرضی تھوپ دیں گے اور میں کسی گاۓ کی طرح چپ رہوں گی میں کرن بیگ ہوں سمجھے۔۔"
وہ غصے سے اپنی کلائی چھڑوا کر بولی تو طلال مسکرا دیا
"ابھی نہیں ہو لیکن بہت جلد ہو جاؤ گی اور دوسری بات مجھے ضد نہیں دلاؤ ورنہ تمہاری ننھی سی جان کے لیے اچھا نہیں ہو گا کیوں کہ میں کافی شدت پسند انسان ہوں جو اپنی چیزوں اور اپنے سے جڑے رشتوں کے لیے پاگل ہے اور اگر میں ضد پر آ گیا تو تمہیں بے بس کرنے میں مجھے بلکل وقت نہیں لگے گا۔۔"
اس کے قریب ہوتے وہ گھمبیر سرگوشی میں معنی خیزی سے بول رہا تھا جبکہ کرن کا دل اس کی باتوں پر کانوں میں دھڑکتا سنائی دے رہا تھا کان کسی دھوکنی کی طرح چل رہی تھی جب اسنے گھبرا کر اسے پیچھے دھکیلا اور قدم پیچھے کو اٹھاۓ
"ڈرتی نہیں ہو لال بیگ کہیں کہ اور نہ ہی کوئی مجھے بے بس کر سکتا ہے۔۔ اوووو۔۔"
وہ کہہ کر باہر بھاگ گئی تو طلال اس کی حرکت پر قہقہہ لگا اٹھا جو جاتے ہوۓ اسے منہ چڑھانا نہیں بھولی تھی

Sneak Peak No 4:

"اوووووو تو آپ ڈرتے ہیں میری شیرنی سے سہی کہتی تھی وہ آپ نقلی وکیل ہی ہیں۔۔"
وہ کہتی ہوئی لب دانتوں میں دبا گئی جب حیدر نے گھما کر اس کا رخ اپنی طرف کیا
"تو کیا خیال ہے ایک ثبوت دے نہ دوں کہ میں نقلی وکیل ہوں یا اصلی۔۔؟"
اس کے ہونٹوں کو دیکھتا وہ معنی خیزی سے بولا تو روہاب گھبرا گئی اور فوراً خود کو چھڑوانا چاہا مگر اتنا بھی آسان نہیں تھا کیوں کے حیدر اسے کے دونوں بازو کمر کر لاک کرتا اس کی سانسوں کو خود میں الجھا چکا تھا اور اب وہ دونوں ایک دوسرے میں کھوۓ مکمل مدہوش ہو چکے تھے
"ویسے آج کے بعد گرین کلر میرا زیادہ فیورٹ ہو گیا ہے کیوں کہ گرین سبزیاں صحت کے لیے کافی اچھی ہوتی ہیں۔۔"
اس کی سانسوں کو آزادی بخشتے وہ شرارت سے بولا تو وہ گھور کر رہ گئی
"اچھا کل تیار رہنا تمہارے بابا کی قبر پر جائیں گے۔۔"
اس کے ماتھے کو چومتا وہ محبت سے بولا تو روہاب نے مشکور نظروں سے اسے دیکھا کیوں کہ وہ کافی دن سے وہاں جانا چاہتی تھی مگر جھجھک کی وجہ سے بول نہیں پا رہی تھی
"تھینک یو سو مچ۔۔"
وہ آنکھوں میں آنسو لاتی اس کے گلے لگ کر بولی تو حیدر نے اسے تسلی دیتے ہوۓ مزید خود میں بھینچ لیا
تجھ سے جو دھیان کا تعلق ہے
پکّے ایمان کا تعلق ہے
میری چپ کا' تیری خاموشی کا
روح اور جان کا تعلق ہے
تو سمجھتا ہے میرے لہجے کو
اور یہ مان' کا تعلق ہے
تجھ سے میرا خیال کا رشتہ
یعنی وجدان' کاتعلق ہے
کوئی رہتا ہے دل میں یوں، جیسے
گھر سے سامان کاتعلق ہے
بن کہے' بن سنے ہی اپنے بیچ
عہد و پیمان کا تعلق ہے
🍂
خوبصورتی سے نظم پڑھتے حیدر نے اسے باور کروایا تھا کہ وہ کتنی خاص ہے اس کے لیے

Post a Comment

Previous Post Next Post