Safr E Yaqeen By Kinza Mustafa

 



Urdu Nonvillains is a platform for all social media writers. Here you find variety of novels having different plot and concept about life of a human being who faces difficulties in every walk of life. 

Each story has its own moral every story teaches us a new lesson as it contains experience of every human life.

Here you find revenge based, Islamic based, Rude hero, Doctor, Lawyer based with many more exciting tragedies......

Safr E Yaqeen is one of the fabulous novel that get attention by readers after reading it you will love this novel. Download this novel by clicking below the given link.


Safr E Yaqeen By Kinza Mustafa


Download


If you have any queries regarding downloading let us know by commenting below. After reading this novel also leave your precious comments below and let us know about your thoughts and novel selection which type of novels would you like to read????? and which type you want to be posted here we will try to bring novels according to your choice of selection. Thanks for Reading!!!!!!


Sneak Peak

"میں بہت چھوٹی ہوں یہ کیسے پہنوں!؟"
"اوئے میں سات سال کی تھی جب یہاں لائی گئی تھی تو تو پھر دس کی ہے شکر منا اور اب جلدی کر وقت نہیں ہے چل اٹھ!"
وہ اسے کھینچ کر کھڑا کرتی کمرے سے باہر نکل گئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ اسے تقریباً گھسیٹتے ہوئے ایک عورت کے پاس لائی تھی جو ایک بڑے سے کشادہ صحن میں ایک تخت پر بیٹھی تھی تخت پر سرخ رنگ کا کپڑا بچھایا گیا تھا اور اطراف میں پیلے رنگ کے تکیے رکھے گئے تھے۔ پورا صحن شیشوں کی لڑیوں سے سجایا گیا تھا ہر طرف چمک دمک تھی۔
"میرا نام مہ جبین ہے! اور یہ میرا کوٹھا ہے اس شہر میں سب سے مشہور!"
اس عورت نے خدیجہ کا چہرہ اوپر کرتے ہوئے اپنا تعارف کروایا۔
"جو لڑکی تمہارے ساتھ ہے اسکا نام جینا بائی ہے اب سے یہ تمہیں سارا کام سمجھائے گی! تمہارا نام کیا ہے؟"
مہ جبین نے اب اسے اپنے پاس بٹھاتے ہوئے پوچھا۔
"خ۔۔۔۔خدیجہ!"
اسے ان عورتوں سے اور اس ماحول سے بہت خوف محسوس ہورہا تھا حالانکہ وہ ابھی تمام حالات سے ناواقف تھی۔ اسکا جواب سن کر جینا بائی کا فلک شگاف قہقہہ پورے صحن میں گونجا۔
"خدیجہ۔۔۔۔خدیجہ ہائے اللّٰہ کتنا پاکیزہ نام ہے!"
وہ اب باقاعدہ بری طرح ہنس رہی تھی جس پر مہ جبین نے اسے گھورا۔
"بس خبردار جینا بائی اس طرح تم لڑکی کو خوفزدہ کررہی ہو! بہت حسین ہو تم میری بچی تمہارا نام۔۔۔۔تمہارا نام کیوں نا تمہاری ہی طرح ہو؟ تمہارا نام آج سے حسن آراء ہے! اور اب سب سن لو اسے اسی نام سے پکارا جائے گا!"
"نہیں میرا نام خدیجہ ہے مجھے میرا نام بہت پسند ہے میں اپنا نام نہیں بدلوں گی اور وہ بھی اتنے عجیب نام سے! اور نہ ہی میں یہاں رکوں گی مجھے گھر جانا ہے امی ابو کے پاس!"
خدیجہ نے اپنی تمام تر ہمت اکھٹی کرکے احتجاج کیا تھا جس پر مہ جبین نے اسکا منہ اپنے ہاتھوں میں لے کر دبوچا گرفت میں اتنی سختی تھی کہ آنسو زاروقطار اسکے رخسار پر بہہ رہے تھے۔
"جینا بائی اسے لے کر جا یہاں سے گاہک انتظار کررہا ہے!"
مہ جبین کے حکم پر جینا بائی نے اسے تقریباً گھسیٹتے ہوئے ایک کمرے میں لاکر پٹخا جہاں پر ایک ادھیڑ عمر آدمی خباثت سے اسے دیکھ رہا تھا۔
"میں بھائی کو بتاؤں گی! شاکر بھائی تمہیں نہیں چھوڑیں گے! وہ گاؤں میں جب کوئی مجھے تنگ کرتا تھا اسے خوب مارتے تھے! بھائی تمہیں بھی نہیں چھوڑیں گے! شاکر بھائی! شاکر بھائی! امی! ابو!"
وہ گلا پھاڑ کر چیخ رہی تھی ہاتھ پیر مار رہی تھی مگر وہاں کوئی انسان موجود ہی کہاں تھا سب درندے تھے۔
----------------------
وہ اس وقت گہرے سبز رنگ کے لہنگے اور قمیض میں ملبوس سیاہ شیشوں والا دوپٹہ اوڑھے دونوں ہاتھوں میں کالی ریشم کی چوڑیاں پہنے قیامت ڈھا رہی تھی۔
"منگنی مبارک ہو دراب صاحب!"
اس نے آئینے میں اپنے پیچھے کھڑے دراب کا عکس دیکھتے ہوئے کہا۔
"تمہیں کیسے پتہ!؟"
دراب کو شدید حیرت نے آگھیرا تھا جبکہ وہ ایک طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ پلٹی۔
"شہر کے معتبر مردوں کو شہر کی طوائفوں سے زیادہ کوئی نہیں جانتا!"
اس کے جواب پر دراب جھینپ کر رہ گیا تھا۔
"فکر مت کرو تمہارے لیے چھوڑ دوں گا بس ایک بار سہی سے تمام اختیارات میرے پاس آجائیں۔"
دراب نے اسکا نرم و ملائم ہاتھ اپنی گرفت میں لیتے ہوئے کہا۔
"میرے لیے اسے چھوڑ رہے ہو تو پھر کسی کے لیے مجھے بھی چھوڑ سکتے ہو!"
حسن آراء نے ایک ادا سے اپنا ہاتھ چھڑوایا جبکہ دراب اسے شرمندگی سے دیکھ رہا تھا۔
"ایسا نہیں ہوگا!"
دراب نے اسے یقین دلاتے ہوئے ایک بار پھر اسکا ہاتھ اپنی گرفت میں لیا۔

Sneak Peak

"ویسے ماننا پڑے گا تو ہے بڑی خوبصورت!"
وہ لڑکی اب بغور اسکا جائزہ لے رہی تھی۔ آخر اٹھ کر اسکے پاس آکر بیٹھی اور اسے ایک سلور رنگ کا لہنگا تھمایا۔
"یہ لے جلدی سے تیار ہوجا کام شروع کرنا ہے تیری وجہ سے ویسے ہی دیر ہوگئی ہے!"
خدیجہ کی تو آنکھیں ہی پھٹ گئیں تھیں اس لباس کو دیکھ کر اسے لباس کہنا بھی شاید لباس کی توہین تھی۔
"میں بہت چھوٹی ہوں یہ کیسے پہنوں!؟"
"اوئے میں سات سال کی تھی جب یہاں لائی گئی تھی تو تو پھر دس کی ہے شکر منا اور اب جلدی کر وقت نہیں ہے چل اٹھ!"
وہ اسے کھینچ کر کھڑا کرتی کمرے سے باہر نکل گئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ اسے تقریباً گھسیٹتے ہوئے ایک عورت کے پاس لائی تھی جو ایک بڑے سے کشادہ صحن میں ایک تخت پر بیٹھی تھی تخت پر سرخ رنگ کا کپڑا بچھایا گیا تھا اور اطراف میں پیلے رنگ کے تکیے رکھے گئے تھے۔ پورا صحن شیشوں کی لڑیوں سے سجایا گیا تھا ہر طرف چمک دمک تھی۔
"میرا نام مہ جبین ہے! اور یہ میرا کوٹھا ہے اس شہر میں سب سے مشہور!"
اس عورت نے خدیجہ کا چہرہ اوپر کرتے ہوئے اپنا تعارف کروایا۔
"جو لڑکی تمہارے ساتھ ہے اسکا نام جینا بائی ہے اب سے یہ تمہیں سارا کام سمجھائے گی! تمہارا نام کیا ہے؟"
مہ جبین نے اب اسے اپنے پاس بٹھاتے ہوئے پوچھا۔
"خ۔۔۔۔خدیجہ!"
اسے ان عورتوں سے اور اس ماحول سے بہت خوف محسوس ہورہا تھا حالانکہ وہ ابھی تمام حالات سے ناواقف تھی۔ اسکا جواب سن کر جینا بائی کا فلک شگاف قہقہہ پورے صحن میں گونجا۔
"خدیجہ۔۔۔۔خدیجہ ہائے اللّٰہ کتنا پاکیزہ نام ہے!"
وہ اب باقاعدہ بری طرح ہنس رہی تھی جس پر مہ جبین نے اسے گھورا۔
"بس خبردار جینا بائی اس طرح تم لڑکی کو خوفزدہ کررہی ہو! بہت حسین ہو تم میری بچی تمہارا نام۔۔۔۔تمہارا نام کیوں نا تمہاری ہی طرح ہو؟ تمہارا نام آج سے حسن آراء ہے! اور اب سب سن لو اسے اسی نام سے پکارا جائے گا!"
"نہیں میرا نام خدیجہ ہے مجھے میرا نام بہت پسند ہے میں اپنا نام نہیں بدلوں گی اور وہ بھی اتنے عجیب نام سے! اور نہ ہی میں یہاں رکوں گی مجھے گھر جانا ہے امی ابو کے پاس!"
خدیجہ نے اپنی تمام تر ہمت اکھٹی کرکے احتجاج کیا تھا جس پر مہ جبین نے اسکا منہ اپنے ہاتھوں میں لے کر دبوچا گرفت میں اتنی سختی تھی کہ آنسو زاروقطار اسکے رخسار پر بہہ رہے تھے۔
"جینا بائی اسے لے کر جا یہاں سے گاہک انتظار کررہا ہے!"
مہ جبین کے حکم پر جینا بائی نے اسے تقریباً گھسیٹتے ہوئے ایک کمرے میں لاکر پٹخا جہاں پر ایک ادھیڑ عمر آدمی خباثت سے اسے دیکھ رہا تھا۔
"میں بھائی کو بتاؤں گی! شاکر بھائی تمہیں نہیں چھوڑیں گے! وہ گاؤں میں جب کوئی مجھے تنگ کرتا تھا اسے خوب مارتے تھے! بھائی تمہیں بھی نہیں چھوڑیں گے! شاکر بھائی! شاکر بھائی! امی! ابو!"
وہ گلا پھاڑ کر چیخ رہی تھی ہاتھ پیر مار رہی تھی مگر وہاں کوئی انسان موجود ہی کہاں تھا سب درندے تھے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post