Dil E Muztar By Mahwish Chaudhary

 


Urdu Nonvillains is a platform for all social media writers. Here you find variety of novels having different plot and concept about life of a human being who faces difficulties in every walk of life. 

Each story has its own moral every story teaches us a new lesson as it contains experience of every human life.

Here you find revenge based, Islamic based, Rude hero, Doctor, Lawyer based with many more exciting tragedies......

Dil E Muztar is one of the fabulous novel that get attention by readers after reading it you will love this novel. Download this novel by clicking below the given link.


Dil E Muztar By Mahwish Chaudhary


Download


If you have any queries regarding downloading let us know by commenting below. After reading this novel also leave your precious comments below and let us know about your thoughts and novel selection which type of novels would you like to read????? and which type you want to be posted here we will try to bring novels according to your choice of selection. Thanks for Reading!!!!!!


Sneak Peak

چٹاخ۔۔۔خ۔۔۔خ۔۔۔۔خ۔۔۔۔الحان کے بھاری ہاتھ کا تھپڑ اسکے چودہ طبق روشن کر چکا تھا۔وہ گال پر ہاتھ رکھے بےیقینی سے الحان کی سرخ آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔
الحان ملک اسے تھپڑ بھی مار سکتا ہے وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔۔۔۔آنسو ایک تسلسل میں اسکے گالوں پر بکھر رہے تھے۔
کیا تم چار دن پہلے اس محتشم ابراہیم کیساتھ لنچ کر کے نہیں آئی ہو۔۔۔؟؟؟وہ دانت رگڑتا طنزیہ بولا
الحان کی بات پر اب کے دوسرا جھٹکا نبیہہ کو پڑا۔۔
ہاں۔۔۔۔اسنے فورا اثبات میں سر ہلایا۔
تو پھر مجھ سے جھوٹ کیوں بولا تم نے کہ تم لنچ اپنی کسی کولیگ کیساتھ کرو گی۔۔۔۔
الحان میں تمہیں۔۔۔۔
چپ رہو تم۔۔۔۔بلکل چپ۔۔۔الحان نے اسکے منہ کو اپنے ہاتھ میں بہت بری طرح سے جکڑا۔۔۔میں تمہیں بتاتا ہوں تمہاری اصلیت کیا ہے۔۔
تمہارا افئیر تھا اسکے ساتھ شادی سے پہلے بھی اور شادی کے بعد اب بھی۔۔۔
نن۔۔۔نہیں یہ۔۔۔یہ جھوٹ ہے۔۔۔نبیہہ اپنے دونوں ہاتھوں کی مدد سے الحان کے شکنجے سے آزاد ہو کر چیخی۔
یہ سچ ہے نبیہہ عباسی کہ تمہارا نہ صرف افئیر ہے بلکہ اس کے علاوہ تم۔۔۔وہ رکا
نبیہہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے الحان کو دیکھ اور سن رہی تھی۔
تمہارے اور اسکے ناجائز تعلقات بھی ہیں ناجانے کب سے اور میں الو کا پٹھا ایک یوز لیس ،چیٹڑ اور کریکٹر لیس لڑکی کیساتھ پیچھلے چھ ماہ سے رہ رہا ہوں۔
الحان کی بات پر نبیہہ بلکل ساکت ہو چکی تھی۔۔۔۔اس سمیت اسکی آنکھوں سے نکلتا آنسؤں کا ریلا بھی ساکت ہو چکا تھا۔۔۔وہ منہ کھولے الحان کو اسکی سوچ سمیت سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔
چند منٹ بعد اسکے ساکت وجود میں حرکت ہوئی اور اس نے آستین سے آنکھیں رگڑیں۔
تم مجھ پر شک کر رہے ہو۔۔۔۔وہ بمشکل بڑبڑائی۔
نہیں شک نہںیں مجھے یقین ہے تم پر کہ تم ایسا کر سکتی ہو۔۔۔وہ ٹھوس لہجے میں بولا
کیا پروف ہے تمہارے پاس۔۔۔۔؟
اونہہ۔۔چوری اور سینہ زوری۔۔۔وہ استہزائیہ ہنسا اور ہاتھ میں پکڑا پیکٹ پوری طاقت سے اسکے منہ پر دے مارا۔
یہ ہے پروف تمہاری بدکرداری کا۔۔۔۔!
پیکٹ نبیہہ کے منہ سے ٹکرا کر زمین بوس ہو چکا تھا جس سے تصویریں نکل کر ادھر أدھر پھیل چکیں تھیں۔
نبیہہ نے جھک کر ان دو ایک تصویروں کو دیکھا اور آنکھیں سختی سے میچ لیں۔۔کیا انسانیت اتنا بھی گر سکتی ہے۔۔۔۔وہ بند آنکھوں سے سوچ رہی تھی۔
کیا ہوا۔۔۔۔بہت زور سے دھچکا لگا خود کی اصلیت بے نقاب ہونے پر غلیظ عورت۔۔۔۔
میں غلیظ نہیں ہوں۔۔۔۔وہ تڑپ کر الحان کے سامنے آئی۔
بلکل تم تو ستی ساوتری ہو جو روز دودھ سے نہاتی ہے ہیے ناں۔۔۔۔وہ استہزایہ ہنسا
یہ سب جھوٹ ہے الحان۔۔۔۔وہ تحمل سے بولی۔
یہ سب سچ ہے مگر میری سوچ سے بھی بڑا۔۔۔۔
میں تمہیں اتنا گرا ہوا نہیں سمجھتا تھا نبیہہ۔۔۔۔میں نے تم سے محبت کی تھی اور تم نے مجھے ، میری محبت کو چیٹ کیا دھوکہ دیا مجھے کیا کمی ہے مجھ میں اور کیا اچھائی ہے اس میں جسکی خاطر تم اس حد تک گر گئی۔۔۔۔صرف شکلوں کا ڈیفرینس ہے باقی سب تو میرے پاس بھی وہی تھا۔۔۔۔۔
نبیہہ اسکی بات کی گہرائی کو سمجھتی دو قدم پیچھے ہٹی تھی۔۔۔۔انسانیت واقعی گر سکتی ہے اسے یقین آ چکا تھا۔

ایک چھٹانک بھر کی لڑکی نہیں سنبھالی جا رہی تم سے تف ہے تم پر الحان ملک۔۔۔۔
ملکوں کے نام پر دھبہ ثابت ہو رہے ہو تم۔۔۔۔۔ملک سلطان نے کف اڑاتے ہوئے قریب کھڑے الحان ملک کو جھاڑ پلائی
وہ چھٹانک بھر کی لڑکی فلحال میری ملکیت میں نہیں ہے جب آئے گی تو سنبھال لوں گا لہذا اب آپ کو جو بھی شکایت ہے ہاشم انکل سے کریں انکی ہی بیٹی ہے وہ۔۔۔۔۔الحان نے بمشکل تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے باپ کو جواب دیا
بیوی ہے تمہاری نکاح ہو چکا ہے جب چاہے اٹھا کر لا سکتے ہو اپنی ملکیت میں مگر تم میں مردوں والی کوئی بات ہو تو کر سکو کچھ۔۔۔
الحان باپ کے طعنے پر سلگ اٹھا۔۔۔
ملک صاحب میں آپ کا اپنا بیٹا ہوں۔۔۔۔وہ دانت پیس کر بولا
بیٹے ہو اسی لیے زمین کے اوپر ہو ورنہ اب تک زمین کے اندر ہو چکے ہوتے۔۔۔انہوں نے مطمعین انداز میں دھمکی دی
میں کیا کر سکتا ہوں اس سارے معاملے میں آپ ہاشم انکل سے کیوں نہیں کہتے سنبھالیں اپنی لاڈلی کو۔۔۔۔وہ زچ ہو کر بولا
وہ تو خود تنگ آ چکا ہے اس سے۔۔۔۔ایک دفعہ تم بات کر کے سمجھاؤ مان گئی تو ٹھیک ورنہ پھر میں اپنے طریقے سے سمجھاؤں گا اسے۔۔۔۔ہاشم سے بات ہو چکی ہے میری اس سلسلے میں۔۔۔۔۔
کر لو گے بات اس سے۔۔۔۔۔ملک صاحب نے ملامتی انداز میں پوچھا جیسے انہیں امید نہ ہو کہ ان کا بیٹا کوئی بات کر سکے گا۔۔۔
عجیب متضاد طبیعت کے مالک تھے دونوں باپ بیٹا باپ جتنا غصیلہ اور بے مروت تھا بیٹا اتنا ہی دھیما اور لحاظ کرنے والا تھا
جی کر لوں گا۔۔۔۔!
کل تک کر لینا۔۔۔۔ملک صاحب ایک اچٹتی نظر بیٹے پر ڈال کر سگار منہ میں دبائے اسٹڈی سے نکل گئے۔
پیچھے الحان ملک بیٹھا سوچ رہا تھا وہ اس چھٹانک بھر کی لڑکی سے کیسے بات کرے گا۔۔۔۔!
………………………………………………………
وہ بار بار گھڑی کو دیکھتی ہوئی سڑک کنارے کھڑی تھی۔
جب چڑ۔۔۔ڑ۔۔۔ڑ کی آواز سے بلیک ہونڈا اسکے عین سامنے آ کر رکی۔۔۔
نبیہہ نے ایک نظر گاڑی میں موجود شخص کو دیکھا اور نظریں پھر سے گھڑی اور گھڑی سے سڑک پر چلتی پھرتی گاڑیوں پر ٹکا دیں۔
اسلام علیکم۔۔۔۔۔! الحان نے پاس آ کر آہستگی سے سلام کیا
ہوں۔۔۔۔نبیہہ نے زبان کی بجائے سر استعمال کرتے ہوئے سلام کا جواب دیا
کیسی ہو۔۔۔۔؟؟؟
یہ پوچھنے کے لیے گاڑی روکی ہے۔۔۔۔؟؟ وہ بھنویں اچکا کر اپنے مخصوص اکھڑ لہجے میں بولی
نہیں وہ تم یہاں کیوں کھڑی ہو گاڑی کہاں ہے تمہاری۔۔۔۔؟؟
یہ سڑک ملک سلطان کی نہیں ہے جو تم مجھ سے پوچھنے آئے ہو کے میں یہاں کیوں کھڑی ہوں۔۔۔اور جہاں تک گاڑی کی بات ہے تو میری مرضی میں گاڑی سے جاؤں یا پبلک ٹرانسپورٹ سے۔۔۔۔وہ کندھے اچکا کر کہتی اپنے تھیلے نما بیگ سے موبائل تلاشنے لگی جس پر بجتی رنگ ٹون نے حشر برپا کر رکھا تھا۔
دو چار دفعہ ہاتھ مارنے کے بعد وہ بالآخر اپنے تھیلے سے سیل دریافت کرتی سیدھی ہوئی
ہیلو۔۔۔۔جی مرزا صاحب۔۔۔۔۔اسلام علیکم۔۔۔وہ تھوڑا پیچھے ہٹ کر دوسری طرف موجود شخص سے بات کرنے میں مصروف ہو چکی تھی جبکہ الحان وہیں کھڑا اسے دیکھنے میں مصروف ہو چکا تھا۔
بالوں کو پونی ٹیل میں باندھے۔۔۔۔بلیو جینز کیساتھ کھلا ڈولا بلیک کرتا پہنے۔۔۔۔ڈوپٹے کو مفلر کے انداز میں گلے کے گرد لپیٹے۔۔۔کندھے پر تھیلے نما بیگ ڈالے۔۔۔سیل کان سے لگائے قینچی کی طرح تیز چلتی زبان سے فر فر بات کرتے ہوئے وہ واقعی جرنلسٹ ہی لگ رہی تھی۔
نبیہہ نے اسے اپنی طرف مسلسل تکتے پا کر محتصر بات کر کے کال بند کی اور الحان کی طرف بڑھی۔
پبلک پلیس پر کھڑے ہو کر اس طرح سے گھور رہے ہو تمہیں شرم نہیں آتی۔۔۔۔؟؟
الحان ہلکا سا مسکرا دیا۔۔۔
مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے کیا ہم کسی پرسکون جگہ پر بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں۔۔۔وہ اسکی بات کو نظرانداز کرتا بولا
نہیں۔۔۔۔لٹھ مار جواب آیا
کیوں۔۔۔۔؟؟؟
کیونکہ میں تم سے کوئی بھی بات نہیں کرنا چاہتی۔۔۔۔۔
تو مت کرنا مجھے کرنی ہے میں کر لوں گا تم چپ چاپ سن لینا بس۔۔۔۔۔
نبیہہ نے اسکی بات پر سوالیہ نظریں اسکے چہرے پر ٹکائیں یوں جیسے پوچھ رہی ہو۔۔۔کیا تمہیں لگتا ہے میں چپ چاپ رہ کر بات سن سکتی ہوں۔۔۔۔؟؟
پلیز صرف چند منٹ۔۔۔میں جانتا ہوں اس شہر کی بہت مصروف جرنلسٹ ہو تم لیکن بس چند منٹ۔۔۔۔وہ ملتجی ہوا
کہو میں سن رہی ہوں۔۔۔ وہ احسان کرتی بولی
یہاں۔۔۔۔۔الحان نے حیرانگی سے اردگرد چلتی پھرتی گاڑیوں کو اور گزرتے لوگوں کو مشکوک نظروں سے خود کو گھورتے دیکھ کر کہا
ہاں۔۔۔میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ پہلے تمہارے ساتھ کسی پرسکون جگہ پر جاؤں اور پھر خود بھی پرسکون ہو کر تمہاری بات سنوں اس لیے جو بھی کہنا ہے جلدی کہو مجھے دیر ہو رہی ہے۔۔۔نبیہہ نے پھر سے گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے تیزی سے کہا
الحان نے ایک نظر اسکے بے زار چہرے کو دیکھا اور لمبی سی سانس لیتا گاگلز پہن کر واپس گاڑی کیطرف پلٹ گیا۔
نبیہہ نے حیرت سے اسے واپس گاڑی میں بیٹھتے اور گاڑی کو نظروں سے دور ہوتے دیکھا۔
الحان ملک میں بھی اتنی اکڑ ہو سکتی ہے وہ حیران تھی۔۔

Post a Comment

Previous Post Next Post