ایک چھٹانک بھر کی لڑکی نہیں سنبھالی جا رہی تم سے تف ہے تم پر الحان ملک۔۔۔۔
ملکوں کے نام پر دھبہ ثابت ہو رہے ہو تم۔۔۔۔۔ملک سلطان نے کف اڑاتے ہوئے قریب کھڑے الحان ملک کو جھاڑ پلائی
وہ چھٹانک بھر کی لڑکی فلحال میری ملکیت میں نہیں ہے جب آئے گی تو سنبھال لوں گا لہذا اب آپ کو جو بھی شکایت ہے ہاشم انکل سے کریں انکی ہی بیٹی ہے وہ۔۔۔۔۔الحان نے بمشکل تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے باپ کو جواب دیا
بیوی ہے تمہاری نکاح ہو چکا ہے جب چاہے اٹھا کر لا سکتے ہو اپنی ملکیت میں مگر تم میں مردوں والی کوئی بات ہو تو کر سکو کچھ۔۔۔
الحان باپ کے طعنے پر سلگ اٹھا۔۔۔
ملک صاحب میں آپ کا اپنا بیٹا ہوں۔۔۔۔وہ دانت پیس کر بولا
بیٹے ہو اسی لیے زمین کے اوپر ہو ورنہ اب تک زمین کے اندر ہو چکے ہوتے۔۔۔انہوں نے مطمعین انداز میں دھمکی دی
میں کیا کر سکتا ہوں اس سارے معاملے میں آپ ہاشم انکل سے کیوں نہیں کہتے سنبھالیں اپنی لاڈلی کو۔۔۔۔وہ زچ ہو کر بولا
وہ تو خود تنگ آ چکا ہے اس سے۔۔۔۔ایک دفعہ تم بات کر کے سمجھاؤ مان گئی تو ٹھیک ورنہ پھر میں اپنے طریقے سے سمجھاؤں گا اسے۔۔۔۔ہاشم سے بات ہو چکی ہے میری اس سلسلے میں۔۔۔۔۔
کر لو گے بات اس سے۔۔۔۔۔ملک صاحب نے ملامتی انداز میں پوچھا جیسے انہیں امید نہ ہو کہ ان کا بیٹا کوئی بات کر سکے گا۔۔۔
عجیب متضاد طبیعت کے مالک تھے دونوں باپ بیٹا باپ جتنا غصیلہ اور بے مروت تھا بیٹا اتنا ہی دھیما اور لحاظ کرنے والا تھا
جی کر لوں گا۔۔۔۔!
کل تک کر لینا۔۔۔۔ملک صاحب ایک اچٹتی نظر بیٹے پر ڈال کر سگار منہ میں دبائے اسٹڈی سے نکل گئے۔
پیچھے الحان ملک بیٹھا سوچ رہا تھا وہ اس چھٹانک بھر کی لڑکی سے کیسے بات کرے گا۔۔۔۔!
………………………………………………………
وہ بار بار گھڑی کو دیکھتی ہوئی سڑک کنارے کھڑی تھی۔
جب چڑ۔۔۔ڑ۔۔۔ڑ کی آواز سے بلیک ہونڈا اسکے عین سامنے آ کر رکی۔۔۔
نبیہہ نے ایک نظر گاڑی میں موجود شخص کو دیکھا اور نظریں پھر سے گھڑی اور گھڑی سے سڑک پر چلتی پھرتی گاڑیوں پر ٹکا دیں۔
اسلام علیکم۔۔۔۔۔! الحان نے پاس آ کر آہستگی سے سلام کیا
ہوں۔۔۔۔نبیہہ نے زبان کی بجائے سر استعمال کرتے ہوئے سلام کا جواب دیا
کیسی ہو۔۔۔۔؟؟؟
یہ پوچھنے کے لیے گاڑی روکی ہے۔۔۔۔؟؟ وہ بھنویں اچکا کر اپنے مخصوص اکھڑ لہجے میں بولی
نہیں وہ تم یہاں کیوں کھڑی ہو گاڑی کہاں ہے تمہاری۔۔۔۔؟؟
یہ سڑک ملک سلطان کی نہیں ہے جو تم مجھ سے پوچھنے آئے ہو کے میں یہاں کیوں کھڑی ہوں۔۔۔اور جہاں تک گاڑی کی بات ہے تو میری مرضی میں گاڑی سے جاؤں یا پبلک ٹرانسپورٹ سے۔۔۔۔وہ کندھے اچکا کر کہتی اپنے تھیلے نما بیگ سے موبائل تلاشنے لگی جس پر بجتی رنگ ٹون نے حشر برپا کر رکھا تھا۔
دو چار دفعہ ہاتھ مارنے کے بعد وہ بالآخر اپنے تھیلے سے سیل دریافت کرتی سیدھی ہوئی
ہیلو۔۔۔۔جی مرزا صاحب۔۔۔۔۔اسلام علیکم۔۔۔وہ تھوڑا پیچھے ہٹ کر دوسری طرف موجود شخص سے بات کرنے میں مصروف ہو چکی تھی جبکہ الحان وہیں کھڑا اسے دیکھنے میں مصروف ہو چکا تھا۔
بالوں کو پونی ٹیل میں باندھے۔۔۔۔بلیو جینز کیساتھ کھلا ڈولا بلیک کرتا پہنے۔۔۔۔ڈوپٹے کو مفلر کے انداز میں گلے کے گرد لپیٹے۔۔۔کندھے پر تھیلے نما بیگ ڈالے۔۔۔سیل کان سے لگائے قینچی کی طرح تیز چلتی زبان سے فر فر بات کرتے ہوئے وہ واقعی جرنلسٹ ہی لگ رہی تھی۔
نبیہہ نے اسے اپنی طرف مسلسل تکتے پا کر محتصر بات کر کے کال بند کی اور الحان کی طرف بڑھی۔
پبلک پلیس پر کھڑے ہو کر اس طرح سے گھور رہے ہو تمہیں شرم نہیں آتی۔۔۔۔؟؟
الحان ہلکا سا مسکرا دیا۔۔۔
مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے کیا ہم کسی پرسکون جگہ پر بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں۔۔۔وہ اسکی بات کو نظرانداز کرتا بولا
نہیں۔۔۔۔لٹھ مار جواب آیا
کیوں۔۔۔۔؟؟؟
کیونکہ میں تم سے کوئی بھی بات نہیں کرنا چاہتی۔۔۔۔۔
تو مت کرنا مجھے کرنی ہے میں کر لوں گا تم چپ چاپ سن لینا بس۔۔۔۔۔
نبیہہ نے اسکی بات پر سوالیہ نظریں اسکے چہرے پر ٹکائیں یوں جیسے پوچھ رہی ہو۔۔۔کیا تمہیں لگتا ہے میں چپ چاپ رہ کر بات سن سکتی ہوں۔۔۔۔؟؟
پلیز صرف چند منٹ۔۔۔میں جانتا ہوں اس شہر کی بہت مصروف جرنلسٹ ہو تم لیکن بس چند منٹ۔۔۔۔وہ ملتجی ہوا
کہو میں سن رہی ہوں۔۔۔ وہ احسان کرتی بولی
یہاں۔۔۔۔۔الحان نے حیرانگی سے اردگرد چلتی پھرتی گاڑیوں کو اور گزرتے لوگوں کو مشکوک نظروں سے خود کو گھورتے دیکھ کر کہا
ہاں۔۔۔میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ پہلے تمہارے ساتھ کسی پرسکون جگہ پر جاؤں اور پھر خود بھی پرسکون ہو کر تمہاری بات سنوں اس لیے جو بھی کہنا ہے جلدی کہو مجھے دیر ہو رہی ہے۔۔۔نبیہہ نے پھر سے گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے تیزی سے کہا
الحان نے ایک نظر اسکے بے زار چہرے کو دیکھا اور لمبی سی سانس لیتا گاگلز پہن کر واپس گاڑی کیطرف پلٹ گیا۔
نبیہہ نے حیرت سے اسے واپس گاڑی میں بیٹھتے اور گاڑی کو نظروں سے دور ہوتے دیکھا۔
الحان ملک میں بھی اتنی اکڑ ہو سکتی ہے وہ حیران تھی۔۔