Kya Karun Dard Kam Nahi Hota By Umm E Haani

 


Urdu Nonvillains is a platform for all social media writers. Here you find variety of novels having different plot and concept about life of a human being who faces difficulties in every walk of life. 

Each story has its own moral every story teaches us a new lesson as it contains experience of every human life.

Here you find revenge based, Islamic based, Rude hero, Doctor, Lawyer based with many more exciting tragedies.


Kya Karun Dard Kam Nahi Hota  is one of the fabulous novel that get attention by readers after reading it you will love this novel. Download this novel by clicking below the given link.


Kya Karun Dard Kam Nahi Hota By Umm E Haani



If you have any queries regarding downloading let us know by commenting below. After reading this novel also leave your precious comments below and let us know about your thoughts and novel selection which type of novels would you like to read????? and which type you want to be posted here we will try to bring novels according to your choice of selection. Thanks for Reading!!!!!!


Sneak Peak No: 1

پھر دروازہ دھڑکتے دل کے ساتھ کھولا تھاوہ سامنے بیڈ پر ہی بیٹھی تھی ۔۔۔۔ وہی آدھے چہرے کو چھپائے ۔۔۔۔ عبدالباسط نے دروازہ بند کیا اور اسکے پاس بیٹھ گیا لیکن لفظ ذہن سے محو تھے کیا کہے کیا نا کہے ۔۔۔۔ جب خاموشی نے طول پکڑا تو آرء نے ہی بات ،شروع کی


" کاہے چپ ہو بابو ۔۔۔۔ گونگے ہو کا " اس کا لب ولہجہ الگ تھا...۔۔
"نہیں جی۔۔۔۔ بس یقین۔ نہیں آ رہا کہ ۔۔۔۔آ۔۔۔آپ سچ میں سامنے ہیں ۔۔۔ کیا میں آپ کو دیکھ سکتا ہوں " عجیب سی فرمائش تھی ۔۔۔۔ عجیب سا ادب تھا ۔۔۔ بھلا پیسے سے خریدی ہوئی عورت کے ساتھ کون آپ جناب کرتا ہے ۔۔۔ پھردیکھنے کی اجازت ۔۔۔۔ کون مانگتا ہے ؟۔۔۔۔ قیمت ادا کر کے بھی اجازت مانگ رہا تھا ۔۔۔ عجیب شخص تھا ۔۔۔ اور مروت برت بھی لی تھی تو اجازت بھی صرف دیکھنے کی مانگی ۔۔۔۔ ڈوپٹے کی آڑ سے تو آراء بھی اسے دیکھ نہیں پائی تھی اس لئے اپنا گھوگھٹ خود ہی الٹ دیا ۔۔۔۔۔ عبدالباسط سانس لینا بھول گیا تھا جتنے تصوراسکے حسن کے باندھ کے آیا تھا وہ ان سب سے ذیادہ حسین تھی ۔۔۔۔۔ آرء کی نظر اس لڑکے کے چہرے سے ہوتی ہوئی بس پیشانی پر جا کر رک گئ تھی ۔۔۔۔

ماتھے پر واضع سجدے کا گہرا نشان موجود تھا ۔۔۔۔ ایک پل کو ٹھٹکی تھی ۔۔۔۔ لیکن عبدالباسط کی نظریں ہٹنے سے انکاری تھیں ۔۔۔۔ آراء نے اسے سر سے پیر تک دیکھا ۔۔۔۔ سفید شلوار قمیض میں ملبوس تھا ۔۔۔۔ چہرے اور آنکھوں میں ہواس کا شائبہ تک نہیں تھا بس دیکھنے کی تاب تھی ۔۔۔۔ نوجواں کے منہ سے نا شراب کی بو آ رہی تھی نا پان کی پیک کی بھرت۔۔۔ کہ جس کے بولنے سے چھینٹے آرء کے منہ پر آتے نا چہرے پر خباثت نا نظروں میں آر پار چیرتی تیزی ۔۔۔ چہرہ پر نور تھا ۔۔۔۔ کچھ پل تو سمجھ نہیں پائی کہ وہ ہے کون۔۔۔۔ کوئی نیک خدا کا بندہ لگ رہا تھا ۔۔۔ اگر واقع بندہ خدا تھا تو یہاں کیوں تھا ۔۔۔ اسی جگہ پر۔۔؟ جہاں نیک لوگ دور سے دیکھتے ہی راستہ پلٹ لیتے ہیں
"مولوی ہو کا۔۔۔؟ آرء نے دل میں آنے والا پہلا خدشہ بیان کیا


"نہیں۔۔۔۔ مولوی کا بیٹا ہوں " عبدالباسط نے جواب دیا ۔۔۔ لیکن نظریں نہیں ہٹائیں تھیں ایک ٹک دیکھ رہا تھا بنا آنکھ چھپائے ۔۔۔ آرء بے ساختہ ہنسی تھی
"بابو۔۔۔ مولوی کے بیٹے کا کوٹھے پے کا کام ؟" آرء متذبذب سی ہوئی تھی
" مجھے اچھی لگی تھیں آپ " وہ اب بھی کسی وژن میں بول رہا تھا آرء اسے دیکھتے ہوئے بولی
"ہممم اچھا چل تیری مرجی ۔۔۔۔ " آرء نے ڈوپٹہ اتار کر سائیڈ پر رکھ دیا ۔۔۔ تنگ اور چست لباس اسکے وجود کو ظاہر کرنے لگا ۔۔۔ عبدالباسط بدک کر پیچھے ہٹا تھا نظریں بھی آرء سے ہٹا لیں ۔۔۔ آرء کو اسکی اس حرکت پر حیرت ہوئی تھی


"سنو اپنا ڈوپٹہ اوڑھوں"چہرے کا رخ بدل کر نظریں دوسری جانب کر کے سرخ چہرے سے عبدالباسط نے کہا آرء جتنا بھی حیران ہوتی کم تھا
"کاہے ڈوپٹہ اوڈھو بابو ۔۔۔۔" آرء اس لڑکے کو سمجھ نہیں پارہی تھی ۔۔۔ لیکن اگلے ہی لمحے
عبدالباسط نے سائیڈ پر رکھا ڈوپٹہ اسکی طرف کھول کر پھینکا ۔۔۔ ڈوپٹہ اسے دوبارہ سے چھپا چکا تھا
"میں صرف تمہیں دیکھنے کے ارادے سے آیا ہوں۔۔۔۔ بے حجاب کرنے نہیں آیا ۔۔۔ "حیرت ہی حیرت تھی آتی کی آنکھوں میں ۔۔۔ سامنے بیٹھا شخص پاگل تھا ۔۔۔۔ یا دیوانہ۔۔۔ "
"اماں کو کتنے نوٹ دے کر آیا ہے بابو ؟ آرء کو لگا شاید پیسوں کی کمی ہو گی ہو گی مولوی ہے تو کچھ ایمانداری دیکھا رہا ہے ۔۔۔۔
" پتہ نہیں جتنے جیب میں تھے سارے دے دیےشاید دو ہزار " اسکی بات پر آتے حیران ہوئی تھی
"دو ہجار ۔۔۔دیے تو نے اماں کو ۔۔۔ اتنے سارے پیسے دے کر تجھے بس دیکھنے کی اجازت ملی ہے ۔۔۔ ٹہر پوچھتی ہوں میں اماں سے "
آرء اٹھنے لگی لیکن عبدالباسط کی پکار پر رک گئ
" نہیں انہوں نے مانگے نہیں تھے بس میں نے خود دیے ہیں ۔۔۔ اور مجھ پر پابندی بھی نہیں لگائی ۔۔۔"
"تو پھر کاہے کو مغج ماری کرتا ہے آرء کے ساتھ۔۔۔۔" آرء واپس بیٹھ گئ
" میں آپ کوصرف دیکھنا چاہتا ہوں " آرء کو لگا شاید دماغ کا کچھ کھسکا ہوا ہے اس لئے بار بار اسے جانچتی نظروں سے دیکھ رہی تھی


"میں نے تو سنا تھا کہ موفت کی شراب تو قاری بھی نہیں چھوڑتا ۔۔۔۔ تو نے اس رات کے پیسے بھرے ہیں بابو۔۔۔۔ پھر کیا صرف دیکھ کر جی بھر جائے گا تیرا ۔۔۔۔ ؟ آرء کو حیرت ہوئی تھی


"آپکو دیکھنے کے لئے ہی تو پورا مہینہ محنت مزدوری کی ہے اینٹیں پتھر اٹھائے ہیں ۔۔۔۔ پھر جا کر یہ دن نصیب ہوا ہے ۔۔۔۔ " عبدالباسط کی بات سن کر آرء کو لگا غش کھا کر گر پڑے گی کون تھا یہ شخص کیسی باتیں تھیں اسکی کئ سالوں سے آنے والے مردوں سے الگ۔۔۔۔ یہاں نواب۔۔۔ ریئس ۔۔۔ امیر زادے دولت مند اپنے پیسے لوٹانے اور دل بہلانے تو آتے رہتے تھے یہ کیسا شخص تھا جو مہینہ بھرمحنت مزدوری کر کے اپنی جمع پونجی ایک ہی رات میں تھما کر صرف اسے دیکھنا چاہتا تھا ۔۔۔۔ آرء نے بے ساختہ اسکے ہاتھ پکڑ کر دیکھے جو کام کے باعث چھالوں سے بھرے ہوئے تھے ۔۔۔۔ پھر اسکے چہرے کو دیکھا ۔۔۔۔ جہاں نا خباثت تھی نا نوچ کھانے کی کوئی آرزو ۔۔۔ بس دیکھنے کی تاب تھی آنکھوں کی پیاس تھی ۔۔۔۔ پہلی بار آرء کی آنکھیں نم ہوئی تھیں ۔۔۔۔لیکن آنسوں کہیں اندر گرے تھے ۔۔۔۔ عبدالباسط کی نظریں اب بھی اس کا طواف کر رہیں تھیں ۔۔۔۔
Sneak Peak No: 2

چوری دار پائجامہ۔۔۔ انار کلی فراک ۔۔۔ ہاتھوں کی آگے پیچھے دونوں جانب لال سرخ مہندی کے گول گول ٹکیاں لگائے ۔۔۔۔ہاتھوں میں کانچ کی چوڑیاں بالوں میں کلیوں کے گجرے کی لڑیاں کانوں میں بڑے سے آوایزے۔۔۔ پاؤں میں گھنگروں پہنے وہ لڑکی ڈھول کی تھاپ پر بڑی مہارت سے پاؤں چلا رہی تھی گانے کے بول پر کمر لچکاتی کبھی ہاتھوں کو لہراتی وہ وہاں بیٹھے اپنے مداحوں۔ کا دل لبھانے میں لگی ہوئی تھی واہ واہ کے نعرے منہ میں پان دبائے اسکے مداح ہوس بھری نظروں سے اسکے وجود کو نوچ اور کھا جانے والے انداز سے دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔


عطر اور گلاب کے پھولوں میں شراب کی رچی بسی خوشبوں سے کوٹھے کا وہ بیرونی ہال نما صحن اسوقت مردوں سے کچا کچ بھرا ہوا تھا ۔۔۔ ان میں سے ایک رئیس زادہ شراب کے نشے میں چور اٹھ کر جیب سے پیسے نکال کر اس مہ جبین پر لٹاتے ہوئے اپنی بانہوں کے گھیرے میں لینے لگا
نور جہاں بیگم کی با رعب آواز گونجی


"یوں ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں میری چھوکریوں کو سیٹھ صاحب ۔۔۔۔ اپنے جذبات پر ذرا دھیرج رکھیے اور بیٹھ کر بس دور دور سے نظارہ کیجیے "شراب سے چور بھی وہ جھٹ سے پیچھے ہٹ کر اپنی نشت پر ڈھے گیا ۔۔۔۔۔


پچاس کے لگ بھگ عمر کی نور جہاں بیگم سرخ سفید رنگ کی حسین عورت تھی ۔۔۔۔تنگ چست قمیض پہنے ہونٹوں پر لال سرخ لیپ اسٹک گالوں پر گلابی بلش ان ۔۔۔ہاتھ میں سونے کے کڑے اور چوڑیاں دونوں ہاتھوں کی ساری انگلیوں میں انگوٹھیاں پہنے منہ میں پان ڈالے پہلے اس نے اگلدان میں پان تھوکا پھر اس شخص کو لڑکی سے الگ ہونے کا حکم نامہ جاری کر کے آرام سے بیٹھ گئ ۔۔۔۔ڈھول کی تھاپ پر نور جہاں کے پاؤں ہل رہے تھے آنکھیں اور بھنور بھی ناچ رہیں تھیں ۔۔۔۔گانے کے سروں کو وہ ہونٹوں سے گنگنا رہی تھی ۔۔۔اس ۔محفل میں کونے بیٹھا ایک پچیس چھبیس سالہ نوجوان دور سے بس نورجہان بیگم کو ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔ٹکٹکی باندھے ۔۔۔۔۔


پھرنظریں پھیر کر سامنے ناچنے والی لڑکی کودیکھنے لگا ۔۔۔۔جو حسن کا پیکر بنی سب کا دل لبھا رہی تھی ۔۔۔۔۔
اس عمر میں نور جہاں کا حسن ہوش اڑاتا تھا ۔۔۔۔۔


بالوں کے جوڑے میں کئ موتیوں کی کلیاں لٹک رہیں تھیں ۔۔۔۔۔ گانے کی دھنوں میں اس کاسر بھی دائیں بائیں ناچ رہا تھا وہ لڑکا نور جہاں بیگم کی ہر ادا بڑے انہمانک سے دیکھ رہا تھا باقی ہر چیز سے اسکی دلچسپی نا ہونے کے برابر تھی ۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں محفل ختم ہو چکی ۔۔۔۔۔ ناچنے والی لڑکی آداب میں ہاتھ اٹھا کر سر جھکا کر پیچھے قدم لیتی ہوئی ایک کمرے میں جا گھسی ۔۔۔لوگ بھی اب واپسی راہ لینے لگے


لوگ چھٹنے لگے تھے ۔۔۔۔۔۔جن کا ارادہ لڑکی کے ساتھ وقت گزارنے کا تھا بس وہی وہاں رک کر نور جہاں بیگم سے اس لڑکی کی ایک رات کی قمیت پر ۔۔۔۔تول مول کر رہے تھے ۔۔۔مگر اپنی بات کی بڑی پکی تھی وہ عورت
"نا بابو ایک آنہ بھی کم نا ہی لوں گی ۔۔۔۔ارے نئ نئ چھوکریوں کو کتنی ادائیں سیکھانی پڑتی ہیں دل لبھانے کی مجھے۔۔۔ تم کیا جانو ۔۔۔نور جہاں بیگم کا ایک ہی اصول ہے روپیہ آنہ کم نا کرے ہے ۔۔۔باقی ببوا تیری مرجی "منہ میں پان دبائے مہندی والے ہاتھ سے اس نے بات ہی ختم کر دی تھی ریئس کی آنکھوں میں وہ حوس کی آگ لو دیکھ چکی تھی اس لئے دونوں آبرو چڑھائے بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔رئیس نے بھی مزید بحث نہیں کی ۔۔۔۔۔جیب سے پیسوں کاایک بنڈل نکال کر نور جہاں بیگم کے سامنے رکھا


"گن لے نورو پورے ہیں "وہ شخص بھی نورجہاں کی عمر کا تھا ۔۔۔۔اور شاید پرانہ گاہک تھا اس لئے کافی بے تکلف تھا ۔۔۔نور جہاں کی آنکھیں پیسوں کو دیکھ کر چمک سی گئیں جلدی سے پیسے اٹھائے اور سائیڈ پر رکھ دئیے


"ارے ہم کو اتنا بھروسہ ہے تھارے پر ببوا ۔۔۔۔کاہے شرمندہ کرتا ہے " نورجہاں بیگم نے اسکے کندھے پر مسکراتے ہوئے ہاتھ مار کر بات کو ادا سے سنبھالا ۔۔۔۔پھر اسکے کچھ قریب ہو کر رازدارانہ انداز سے بولی
"یہی۔ انتجام کر دوں یا کہیں اور لے جاؤں گئے میری چنبلی کو " نور جہاں نے پان چباتے ہوئے کمینگی ہنسی ہنس کر پوچھا
"ساتھ لیکر جاؤں گا کل چھوڑ جاؤں گا نورو " وہ آدمی نورجہاں بیگم کے گال پر اپنی انگلی رکھ کر بولا نور جہاں نے اس کا ہاتھ جھٹکا


"ہٹ رے کمینے ۔۔۔۔۔شراب کا نشہ ذیادہ ہی چڑھ گیا ہے تجھ پر ۔۔چل اب جا وہ رہا دروازہ میری چنبلی کا ۔۔۔"ایک دروازے کی طرف اشارہ کر کے نورجہان نے اسےاٹھنے کی راہ دیکھائی۔۔۔۔وہ لڑکھڑاتا ہوا وہاں اٹھ کر سامنے لائن سے بنے کئ کمروں میں سے ایک کے اندر گھس گیا ۔۔۔۔باقی سب جا چکے تھے سوائے اس ایک لڑکے کے جو پچھلے ایک مہنے سے وہاں آرہا تھا مگر چپ چاپ جب تک مجرا چلتا رہتا وہ بیٹھا رہتا آخر میں اٹھکر واپس چلا جاتا ۔۔۔۔


لیکن آج وہیں موجود تھا ۔۔۔نور جہاں نے ایک ذریک نظر اس نوجوان پر ڈالی پھر اگالدان میں پان کی پیک پھنک کر اسے انگلی سے اپنی جانب آنے کا اشارہ کیا وہ لڑکا خاصا خوش شکل تھا ۔۔۔۔۔مگر حلیہ کچھ بکھرا بکھرا تھا شیو بڑھی ہوئی ۔۔۔بال بکھرے ہوئے کالی سی پینٹ شرٹ پہنے ایک ہاتھ میں چھوٹا سا کالا بیگ تھامنے وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر نور جہاں بیگم کے سامنے بیٹھ گیا ۔۔۔۔


"آج واپس نہیں جانا تو نے ببوا " نورجہان اب پیچھے رکھے پیسوں کے بنڈل کو پکڑے تیزی سے ہاتھ چلاتے گننے لگی
"آج جیب میں پیسے لایا ہوں "لڑکے کی بات پر نورجہاں کے متحرک ہاتھ رکے پھر اس لڑکے کو دوبارہ سے تنقیدی نظر سے دیکھا دیکھنے میں وہ کہیں سے نواب اور رئیس امیزادہ نہیں لگ رہا تھا کچھ توقف کے بعد نور جہاں نے پوچھا


"اچھا ۔۔۔۔۔ تو رات گزرنی ہے تو نے ۔۔۔دیکھ ببوا ابھی والی کا سودا ہو چکا ۔۔۔۔لیکن باقی کی بھی کسی سے کم ناہی ہیں بس نورجہان بیگم پیسوں میں تول بھاوں نہیں کرتی ۔۔۔۔"وہ حتمی انداز سے ہاتھ ہلا کر بولی
"رات نہیں... ہمیشہ کے لئے چاہیے "روئی روئی آنکھوں سے وہ لڑکا بے بسی سے بامشکل بولا تھا مگر نور جہاں کو تو گویا سانپ سونگھ گیا تھا کچھ دیر تذبذب سی ہو کر اسے دیکھنے لگی
"دیکھ لڑکے میرا گھر تو یہ چھوکریاں ہی چلاتی ہیں ۔۔۔ہمیشہ کا سودا نہیں کر سکتی میں "نور جہاں نے مدافعانہ انداز سے کہا


"میں اپنا سب کچھ بیچ کر بہت سارے پیسے لایا ہوں۔۔۔۔بس ایک چھوٹا سا مکان ہی بچا ہے میرے پاس " نور جہاں کی آنکھیں پھر سے چمکیں
"کہیں محبت وحبت کا چکر تو نا ہی ہےببوا "


"وہی ہے۔۔۔ بہت محبت کرتا ہوں اتنی کے اب رہ نہیں سکتا اس لئے اپنی کل متاع بیچ کر آیا ہوں "
"دیکھ میں ایک رات کے پچاس ہجار لیتی ہوں ۔۔۔۔بیچنے کا سوچ بھی لوں تو کیا دے گا تو
مجھے"
"میرے پاس ستر لاکھ ہیں ۔۔۔۔اسکے علاوہ اور کچھ نہیں ۔۔۔۔۔"
نور جہاں کے منہ میں پانی بھر آیا تھا ۔۔۔۔


"اچھا چل بول کون ہے وہ لڑکی ۔۔۔۔گلاب۔۔۔ کلی ۔۔۔نرگس ۔۔۔سدا بہار ۔۔۔۔رانی ۔۔۔"وہ انگلیوں میں گننے لگی
"آپ "
لڑکے کے اگلے جمعلے نے گویا نور جہاں کے ہوش اڑا دیے تھے



Sneak Peak No: 3

"م۔۔میں پہلے کہہ چکی ہوں کے میرے پاس مت آنا ۔۔۔ آپ نہیں جانتے کیا ہوا ہے میرے ساتھ اگر جان جاؤں تو چھونا بھی پسند نا کروں مجھے ہاتھ بھی نہین لگاو گئے.. نفرت کرو مجھ سے " وہ رو دینے کو تھی
"تو ٹھیک مجھے نہیں جاننا کہ آپ کے ساتھ کیا ہوا ۔۔۔ اس لئے کہ مجھے تو ہاتھ لگانا ہے اور نفرت بھی نہیں کرنی۔۔۔ بس محبت کرنی ہے ۔۔۔۔ جو حق میں رکھتا ہوں ۔۔۔۔۔ مجھے اس میں دلچسپی ہے ۔۔۔۔ رات کو آپ کا انکار نہیں سنو گا ۔۔۔


تیار رہیے گا ۔۔۔ " یہ کہہ کر وہ جا چکا تھا تانیہ پریشان سی ہو کر رہ گئ تھی ۔۔۔ کیسا شخص ہے یہ کیوں نہیں سمجھتا میں کوئی عام سی لڑکی نہیں ہوں جو ایسی خواہشات رکھے ۔۔۔۔۔ کیوں مجھے اذیت دینے کے در پر ہے ۔۔۔۔ " تانیہ رونے لگی تھی پورا دن وقفے وقفے سے روتی ہی رہی تھی نا دوپہر کو بھوک لگی نا کچھ کھایا ۔۔۔ نا ہی رات کو تیار ہوئی تھی اسے ہر بات بتانے کے لئے خود میں حوصلہ مجتمع کرتی رہی ۔۔۔ باہر ڈرو بیل پر کانپ سی گئ تھی ۔۔۔ با مشکل اپنے آنسوں صاف کیے اور باہر کا دروازہ کھولا ۔۔۔ اسکے ہاتھ میں چند شوہر تھے ۔۔ ایک نظر اس نے تانیہ پر ڈالی اسکے چہرے کی مسکراہٹ پل میں غائب ہوئی تھی اسے صبح والے حلیے میں دیکھ کر ۔۔۔۔


اندر داخل ہو کر اس نے تمام شوہر سامنے ٹیبل پر رکھ دیے ۔۔۔ بس ایک شوہر کچن میں لے گیا ۔۔۔ دو منٹ میں کچن سے واپس آیا تھا مگر خالی ہاتھ ۔۔۔
" بہت بھوک لگ رہی ہے مجھے۔۔۔ جلدی سے کھانا لگائیں ٹیبل پر ۔۔۔۔میں بس دو منٹ میں فریش ہو کر آ رہا ہوں ۔۔۔ "یہ کہہ کر وہ کمرے میں چلا گیا ۔۔۔ تانیہ کچن میں چلی گئ شلف پر رکھے شوہر کو کھول کر دیکھا تو اس میں بریانی کے دو بکس تھے ساتھ رائتہ اور سلاد بھی تھا ۔۔۔ اس نے بریانی ایک ڈش میں ڈالی اور باہر ٹیبل پر رکھنے لگی جب تک اس نے ہر چیز ٹیبل پر رکھی تھی ۔۔۔ وہ نہا کر اپنے ٹرازر شرٹ میں ملبوس اپنے گیلے بالوں کو ہاتھ سے پیچھے کرتا ہوا ٹیبل پر بیٹھا تھا ۔۔


" کل مجھے راشن کی لسٹ بنا دیجیے گا ۔۔۔ میں آپ کو لا دوں گا ۔۔۔ ماں باپ میرے ہیں نہیں جو پندرہ دن آپ کو بیٹھا کر کھلائیں اور ایسی کوئی رسم نبھائیں ۔۔۔۔اور میں پندرہ دن کی بازار کی عیاشی بھی نہیں کروا سکتا ۔۔۔ اس لئے کل سے کچن سنبھالنے کی زمہ داری آپ کی ہے ۔۔۔ "اپنی پلیٹ میں بریانی ڈالتے ہوئے وہ بولا ۔۔۔ تانیہ ویسے ہی کرسی کے سامنے کھڑی تھی


"تانیہ بیٹھ جائیے ۔۔۔ ذمہ داری کل سے دی ہے آج سے نہیں " اس نے اسے یوں کھڑے دیکھ کر کہا
"مجھے بھوک نہیں ہے " وہ رخ بدل کر بولی اس کا چمچ منہ میں جاتے جاتے رکا تھا کچھ دیر اسے دیکھتا رہا
" چپ چاپ بیٹھیے اور کھانا کھائیے ۔۔۔۔۔ اسکے علاؤہ کچھ بھی سننا نہیں چاہتا ہوں میں " اس بار وہ سنجیدگی سے بولا چہرہ بھی اسپاٹ تھا ۔۔۔ تانیہ چپ چاپ سے بیٹھ گئ ۔۔۔۔ پلیٹ میں ذرا سی بریانی ڈالی اور کھانے لگی
" میں جتنا آپ سے محبت سے بات کرنے کی کوشش کر رہا ہوں آپ میرا ضبط آزما رہیں ہیں ۔۔۔


یہ بات میرے مزاج کے خلاف ہے کہ میں اونچی آواز میں چلا کر اپنی موجودگی کا احساس دلاؤں ۔۔۔۔ لیکن انسان ہوں ۔۔۔ اور کوشش یہی کی ہے کہ بہترین انسان ہی بنا رہوں ۔۔۔۔ آپ سے بھی یہی توقع ہے کہ آپ مجھے سختی کرنے پر
مجبور نہیں کریں گئیں " وہ ساتھ ساتھ کھا رہا تھا اور ساتھ اسے بتا بھی رہا تانیہ کو اسکے ساتھ رہنا کیسے ہے لیکن بات نظریں جھکائے کر رہا تھا مگر لہجہ ذرا سخت تھا چہرے پر بھی گہری سنجیدگی تھی ۔۔۔۔۔ تانیہ کا کھانا کھانا مشکل ہو رہا تھا ۔۔۔۔ ابھی بامشکل تانیہ نے اپنی پلیٹ خالی کی تھی کہ اس نے دوبارہ سے اسکی پلیٹ بھری تھی ۔۔۔


"کم کھانے والے لوگ مجھے اچھے نہیں لگتے نا ہی اپنے ہی گھر میں تکلف برتنے والے ۔۔۔ یہ بات بھی میں آپ کو روز نہیں سمجھاؤں گا ۔۔۔ یہ گھر آپ کا ہے جو چاہیں جیسے چاہیں سجائیں سنواریں کھائیں پئیں جو چاہے کریں ۔۔۔ بس یہی چاہتا ہوں آپ سے ۔۔۔ " پانی کا خالی گلاس بھر کر اسکے سامنے رکھا ۔۔۔ اور اپنی پلیٹ کی طرف متوجہ ہو گیا ۔۔۔ باقی کاوقت خاموشی سے ہی گزرا تھا ۔۔۔ تانیہ کھانے کے بعد برتن دھو کر کچن صاف کرنے لگی اتنا کام تو تھا بھی نہیں کے گھنٹوں لگتے ۔۔۔ اس لئے سب سمیٹ کر کمرے میں چلی گئ ۔۔۔ کمرہ خالی تھا صبح جو ڈریس اس نے تانیہ کے لئے نکالا تھا تانیہ واپس الماری میں رکھ چکی تھی ۔۔۔ لیکن وہ اب پھر بیڈ پر پڑا تھا ۔۔۔


سمجھ گئ تھی کہ اسی نے نے رکھا ہے ۔۔۔ اس بار چپ چاپ پہن کر بیڈ پر بیٹھ گئ ۔۔۔۔۔ قسمت نے پہلے کب اسکی سننی تھی جو اب کچھ اختلاف کرتی ۔۔۔ خود کو وقت کے حوالے کی کر دینے کا سوچ کر خاموش ہو گئ تھی ۔۔۔ آدھے گھنٹے بعد وہ کمرے میں داخل ہوا تھا ۔۔۔ دروازہ بند کر کے اس کے سامنے بیٹھ گیا ۔۔۔ وہ نظریں جھکائے بیٹھی تھی ۔۔۔


" مجھے بیوی سجی سنوری اچھی لگتی ہے ۔۔۔ بے شک آپ سادگی میں بھی حسین ہیں لیکن اگر کچھ زحمت کر لیتی تو اور بھی پیاری لگتیں" ۔۔۔ یہ کہہ کر سامنے دراز میں سے ایک ڈبیہ نکال کر اس نے اس میں سے دو سونے کے کنگن نکالے ۔۔۔ تانیہ کا ہاتھ تھام کر اسے پہنائے ۔۔۔۔ وہ بڑے ضبط سے بیٹھی ہوئی تھی لیکن جیسے جیسے اسکی قربت کا سوچتی حالت غیر سی ہو رہی تھی


" تانیہ ادھر میری طرف دیکھیں " تانیہ کو اس قدر بد حواس دیکھ کر وہ بولا لیکن وہ نفی میں سر ہلا نے لگی
"تانیہ میں آپ کا شوہر ہوں کوئی غیر نہیں ہوں ۔۔۔۔۔ ادھر میری طرف دیکھیں ۔۔۔ ماضی میں آپ کے ساتھ کیا ہوا ہے میں جانتا ہوں ۔۔۔ "اس بات بے ساختہ تانیہ نے اسکی طرف دیکھا تھا
" نہیں جانتے ۔۔۔ کچھ نہیں جانتے آپ ۔۔۔۔ آ۔۔۔ پ ۔۔ک۔۔کچھ بھی نہیں جانتے " کئ آنسوں اسکی آنکھوں سے اذیت سے نکل کر رخسار پر آئے تھے ۔۔۔
اس نے آگے بڑھ کر اسکے آنسوں صاف کیے تھے


"ہر شخص زخم دینے والا نہیں ہوتا کچھ لوگ ہر زخم کا مداوا بھی کرنے والے ہوتے ہیں ۔۔۔۔ ہر شخص کو ترازو کے ایک ہی پلڑے میں ڈال دینا تو غلط بات ہے ۔۔۔۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے آزمائیں ضرور آزمائیں ۔۔۔ مجھے بھی پرکھ لیں ۔۔ یقینا آپکی سوچ بدل جائے گی ۔۔۔ "
" میں نے کب کہا کہ آپ برے ہیں ۔۔۔ " تانیہ نے ہچکچاتے ہوئے کہا


"منہ سے نہیں کہاں لیکن انداز سے تو یہی احساس دلا رہیں ہیں کہ میں بہت برا ہوں آپ کے ساتھ زبردستی کر رہا ہوں ۔۔۔۔ اور ہمیشہ صرف تکلیف اور اذیت ہی دونگا ۔۔۔۔ "
"میں بے بس ہوں ۔۔۔۔ میرے اختیار ۔میں نہیں ہے ۔۔۔ آپ کو سمجھا نہیں سکتی کہ مجھے کسی بھی مرد کی قربت نہیں چاہیے نا کسی برے کی نا کسی اچھے کی ۔۔ مجھے نفرت سی ہو گئ ہے ۔۔۔۔۔ لفظ مرد سے ۔۔۔۔ " وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی


" میں بھی آپ کو لفظوں میں شاید سمجھا ہی نہیں سکتا ہوں ۔۔۔ بس یہ چاہتا ہوں کہ اگر زندگی حال میں خوبصورتی سے گزارنے کا موقع دے رہی ہے تو وائے ناٹ ۔۔۔ کیا حرج ہے کہ ماضی کو بھلا دیا جائے " یہ کہتے ہوئے وہ اسکے ہاتھ تھامے اپنے ہونٹوں پر لگا چکا تھا

Post a Comment

Previous Post Next Post