Shehr e Khamoshan By Qanita Khadija (UN)


Urdu Nonvillains is a platform for all social media writers. Here you find variety of novels having different plot and concept about life of a human being who faces difficulties in every walk of life. 

Each story has its own moral every story teaches us a new lesson as it contains experience of every human life.

Here you find revenge based, Islamic based, Rude hero, Doctor, Lawyer based with many more exciting tragedies.

Qanita Khadija  is one of the fabulous novel that get attention by readers after reading it you will love this novel. Download this novel by clicking below the given link.


Shehr e Khamoshan By Qanita Khadija




If you have any queries regarding downloading let us know by commenting below. After reading this novel also leave your precious comments below and let us know about your thoughts and novel selection which type of novels would you like to read????? and which type you want to be posted here we will try to bring novels according to your choice of 
selection. Thanks for Reading!!!!!!


Sneak Peak No:1

’’پہلے صرف تمہارے جسم پر اپنی جنونیت کی چھاپ چھوڑی تھی آج اپنے نام کی چھاپ بھی چھوڑو گا۔۔۔۔۔ تاکہ دنیا کہ ساتھ ساتھ تمہیں بھی اس بات کا علم ہوجائے کہ تم میری ہوں‘‘ اسکے کان میں صور پھونکتے رستم نے ایک جھٹکے اسکی پیچھے سے کمیز پھاڑ دی
انا کی آنکھیں یکدم کھلی۔۔۔۔۔ اسے اپنی کمر پر کچھ چبھتا محسوس ہوا


’’رر۔۔۔رستم‘‘ انا کی ڈری ہوئی آواز رستم کے کانوں سے ٹکڑائی
’’ششش!! آواز نہیں نکلے‘‘ رستم اسکے کان میں بولا اور چاقو کی نوک سے انا کی کمر پر اپنا نام لکھنا شروع کردیا۔۔۔۔۔ انا نے اپنا ہاتھ اپنے منہ پر جمائے اپنی چیخوں کو روکا۔۔۔۔ انا کو چیختے نا دیکھ کر رستم نے چاقو مزید بےدردی سے اسکی کمر میں گھونپ دیا


سرخ سیال اسکی کمر کو لال کرچکا تھا مگر ابھی رستم کا جی نہیں بھرا تھا۔۔۔۔ اسنے فورا پاس پڑی کینڈل ماچس سے جلائی اور پگھلتی موم کو اپنے نام کے اوپر پھینکنا شروع کردیا
اب کی بار انا کی چیخیں بےقابو ہوئی تھی۔۔۔۔
’’ششش۔۔۔۔۔ بس تھوڑا سا درد۔۔۔۔۔ سب ٹھیک ہوجائے گا‘‘ رستم اسکے بالوں پر بوسہ دیتے بولا۔۔۔۔۔۔۔ مگر انا کی چیخیں بےقابو ہورہی تھی۔۔۔۔۔ اسکی چیخوں نے پورے ولا کے در و دیوار کو ہلا ڈالا تھا


’’اب تم مجھ سے کبھی دور نہیں جاسکوں گی‘‘ رستم ہنسا تھا
اسنے کینڈؒل کو بجھا کر زمین پر پھینکا تھا۔۔۔۔۔ رستم اب خوشی سے اپنا سر انجام دیا کارنامہ دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ مگر ابھی بھی اسکا دل بھرا نہیں تھا
’’آج تم بہت حسین لگ رہی ہوں پرنسز!!‘‘ اسکی گردن میں منہ چھپائے رستم مخمور لہجے میں بولا اور ایک بار پھر اسکا وجود اپنے قبضے میں لے گیا



Sneak Peak No:2

رستم!!!" پیٹ پر ہاتھ رکھے اس نے حیرانگی سے اسے دیکھا جو آنکھوں میں نفرت اور سب کچھ راکھ کردینے کا جنوں لیے کھڑا تھا


"رستم۔۔۔۔۔مم۔۔میرا بچہ" ایک ہچکی اسکے منہ سے نکلی۔۔۔۔۔اسکا سفید کلیوں والا فراک لال ہوچکا تھا۔۔۔۔اسکے جسم کا نچلا حصہ خون سے بھر چکا تھا۔۔۔۔۔پیٹ میں درد کی لہر دوڑ اٹھی تھی۔۔۔۔اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھے اسنے دھندلی آنکھیں لیے اس ستم گر کو دیکھا جو سرد نگاہوں سے اسکے بےجان ہوتے وجود کو دیکھ رہا تھا


"رستم۔۔۔۔مم۔۔میرا بچہ۔۔۔ہمارا بچہ ۔۔۔۔۔ببب۔۔۔۔بچالو اسے" اسکے پیروں میں گری وہ تڑپ رہی تھی۔۔۔۔سسک رہی تھی مگر وہ تو مانوں پتھر ہوچکا تھا۔۔۔۔


"تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا پرنسس" اسکے خون میں بھیگتے وجود کو دیکھ کر وہ بولا
"ہہہ۔۔ہمارا بچہ رستم۔۔۔۔مر۔۔۔مر جائے گا" وہ سسکی


"میں بھی یہی چاہتا ہوں۔۔۔۔تمہارے پیٹ میں پلتا یہ ناجائز وجود ختم ہوجائے۔۔۔۔۔بہت محبت ہے نا تمہیں اس بچے سے ۔۔۔۔۔ختم کردیا میں نے اسے" سرد لہجہ اسکے ہوش اڑانے کو کافی تھا۔۔۔۔۔مگر وہ کچھ نہیں کرسکی اور دھیرے دھیرے موت کی وادی کی جانب چل دی


"مم۔۔میں۔۔۔۔۔میرا بچہ۔۔۔۔۔مرجائے گے" وہ نیند میں جانے سے پہلے بڑبڑائی


"نہیں پرنسس میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔تم محبت ہوں میری۔۔۔۔۔مگر تمہیں سزا ضرور ملے گی۔۔۔۔۔مجھے دھوکا دینے کی۔۔۔میرے پیار کو ٹھکڑانے کی۔۔۔۔میری دسترس میں ہوتے ہوئے کسی اور کی سیج سجانے کی۔۔۔۔تمہیں سزا ضرور ملے گی" اسکا وجود باہوں میں بھرے ماتھا محبت سے چومتے اسنے کسی قیمتی شے کی طرح اسے اپنی باہوں میں اٹھا لیا اور گاڑی کی جانب چل دیا۔


Sneak Peak No:3

’مجھے یقین نہیں آتا کہ تم میری ہوچکی ہوں۔۔ میرے قریب ہوں۔۔۔۔ مجھے یقین دلا دوں ۔۔۔۔۔ مجھے یقین دلا دوں انا کہ تم واقعی میں میری ہوچکی ہوں‘‘ اسکا چہرہ دونوں ہاتھوں سے تھامے وہ خمار آلود لہجے میں بولا
’’رر۔۔۔۔رستم‘‘ انا کو وہ کچھ عجیب سا لگا


اس سے پہلے انا کچھ بول پاتی رستم نے ایک جھٹکے سے اسکا دوپٹا سر سے کھینچا جس پر انا چیخ اٹھی
’’رستم!!‘‘ انا زور سے چلائی تو رستم ہوش میں آیا


’’وہ۔۔۔وہ میں ۔۔۔۔کنٹرول نہیں رکھ پایا۔۔۔۔۔۔ یہ تمہاری منہ دکھائی‘‘ اسکے سامنے ایک ڈبہ رکھتے وہ بولا
’’شکریہ‘‘ انا صرف اتنا کہہ سکی


’’کھول کر نہیں دیکھو گی؟‘‘ رستم دوبارہ سے نرمی سے مسکرایا
انا کو وہ کچھ زیادہ ہی عجیب لگ رہا تھا۔۔۔۔ انا نے ناچارا اسے کھولا۔۔۔۔۔ اس میں ڈائمنڈ کا ایک بریسلیٹ موجود تھا۔۔۔۔ جو اصلی ہیروں کا تھا اور اتنا روشن کے انا کی آنکھیں چندھیاں گئی


’’اسکی۔۔۔۔۔ اسکی کیا ضرورت تھی؟‘‘ انا اسے ٹیبل پر رکھتے بولی
’’یہ تحفہ ہے جو ہر شوہر اپنی بیوی کو دیتا ہے‘‘ رستم نے ساتھ ہی بریسلیٹ اٹھایا اور اسکی کلائی میں باندھتے کلائی پر بوسہ دیا


انا نے جھٹکے سے کلائی کھینچی۔۔۔ رستم نے ضبط سے مٹھیاں بھینچی اور ایک جھٹکے سے انا کو اپنی پناہوں میں لیا۔
’’آئیندہ سے مجھے انکار مت کرنا‘‘ یہ کہتے ہی رستم اس پر جھک گیا جبکہ انا خود کو آزاد کروانے کی کوشش کرنے لگی


’’رستم نہیں۔۔۔۔۔ رستم پلیز۔۔۔۔ میں۔۔۔ میں ابھی تیار نہیں ہوں ان سب کے لیے‘‘ مگر رستم کو اس سے سب کچھ لینا دینا نہیں تھا
’’تم اب میری بیوی ہوں انا اور اب میں تم پر حق رکھتا ہوں۔۔۔‘‘ اسے جواب دیتے رستم اس پر حاوی ہوگیا



 

Post a Comment

Previous Post Next Post