Mehka Jaise Rawaan Rawaan By Hina Asad




Urdu Nonvillains is a platform for all social media writers. Here you find variety of novels having different plot and concept about life of a human being who faces difficulties in every walk of life. 

Each story has its own moral every story teaches us a new lesson as it contains experience of every human life.

Here you find revenge based, Islamic based, Rude hero, Doctor, Lawyer based with many more exciting tragedies.

Hina Asad is one of the fabulous novel that get attention by readers after reading it you will love this novel. Download this novel by clicking below the given link.


Mehka Jaise Rawaan Rawaan By Hina Asad




If you have any queries regarding downloading let us know by commenting below. After reading this novel also leave your precious comments below and let us know about your thoughts and novel selection which type of novels would you like to read????? and which type you want to be posted here we will try to bring novels according to your choice of 
selection. Thanks for Reading!!!!!!


Sneak Peak No: 1

"مجھے سکون چاہیے ۔۔۔۔۔ملے گا ؟؟؟؟
اس کی گھمبیر آواز سن کر اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنا ہٹ ہوئی ۔۔۔۔
یارق کا سرسراتا ہوا ہاتھ اس کی کمر کے گرد بازو حمائل کرتا ہوا محسوس ہوا ۔۔۔


وہ اس کے چہرے پر جھکا تھا۔اپنے ہونٹوں پر یارق کے ہونٹوں کا لمس محسوس کر نور کے جسم میں ایک سنسی کی لہر دوڑ گئی تھی۔دل رکنے لگا تھا۔اسے اپنے اتنے قریب دیکھ کر اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں لیکن یارق پر اس کی حالت کا کوئی اثر نہیں تھا۔


وہ اس کی گرفت میں سوکھے پتے کی مانند لرزنے لگی تھی ۔۔پیشانی پر پسینہ چمکنے لگا تھا دھڑکنوں کی آواز کانوں میں سنائی دینے لگی۔


وہ خود کو کسی اور ہی دنیا میں پہنچا ہوا تصور کر رہی تھی۔ جبکہ یارق اس کے بالوں کو جوڑے سے آزاد کرتا اس کی گردن میں چہرہ چھپا گیا۔۔۔۔


کچھ دیر بعد جب نور کو اپنی گردن بھیگی ہوئی محسوس ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ رو رہا ہے ۔۔۔۔۔
نور نے اسے رونے دیا ۔۔۔۔۔آج وہ اپنے اندر کا سارا غبار نکال باہر کرے ۔۔۔۔۔


جب غبار چھٹے گا تو ہی اس کے لیے نئی جگہ بن پائے گی ۔۔۔۔۔
وہ اس کے سلکی بکھرے ہوئے بالوں میں دھیرے دھیرے انگلیاں چلانے لگی ۔۔۔۔۔


یارق شاید ہوش میں نہیں تھا یا آنا نہیں چاہتا تھا ۔۔۔۔۔یارق کی لو دیتی گرم سانسیں اسے جھلسائے دے رہی تھی ۔۔۔۔۔
یارق نے ہاتھ بڑھا کر سائیڈ لیمپ بھی آف کر دیا اور نور العین کو اس کی گرفت میں کچھ بھی سمجھنے کا موقع نہیں ملا ۔۔۔۔۔

 

Sneak Peak No: 2



"سوری..... اگر آپ کو برا لگا کہ میں آپ کے بستر پر بیٹھی ۔"وہ جھجھکتے ہوئے بولی تو یارق کی آنکھیں کھلیں جو ضبط کی شدت سے خون چھلکاتے ہوئے سرخی مائل دکھائی دے رہی تھی۔۔۔۔


نورالعین نے ایک نظر اس کے چہرے کے تاثرات دیکھے پھر جلدی سے بولی۔
"میں نیچے سو جاؤں گی۔آپ مجھے معاف کر دیجیے۔مگر ناراض مت ہوئیے گا"
"اگر آپ کہتے ہیں تو میں واپس اپنے روم میں چلی جاتی ہوں ۔۔۔۔۔۔


یارق خاموش رہا ۔۔۔۔آخر کہنے کو تھا ہی کیا اس کے پاس ۔۔۔۔۔
"میں آپ کے دوسرے کپڑے نکال دوں؟"وہ اس کے خالی نظروں سے دیکھنے پر وہ جزبز سی ہوتی بولی تھی۔


نئے رشتے کے تحت وہ اسے یارق کی بجائے آپ کہہ رہی تھی معا کہیں اسے یہ بات بھی بری نا لگ جائے کہ وہ اسے نام لے کر کیوں بلا رہی ہے ۔۔۔۔نورالعین کو اس کی کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔اگر اس کے سامنے کھڑی رہی تو ڈانٹ پڑنے کے زیادہ چانسز ہو سکتے تھے۔


اس لیے اس نے کھسکنے میں ہی عافیت جانی۔جب وہ یارق کے قریب سے گزر کر کبرڈ کی طرف بڑھنے لگی تو یارق نے اس کی کلائی زور سے پکڑ لی۔


"آہ!"ڈر کے مارے اس کے منہ سے کراہ نکلی اور حیرت سے چہرہ موڑ کر یارق کی طرف دیکھا۔وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا کلائی کو کھینچ کر اسی طرح اپنے سامنے لے آیا جیسے وہ پہلے اس کے سامنے کھڑی تھی۔


نور العین کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا تھا۔وہ سرخ پڑتے چہرے کو جھکا گئی تھی۔اب تو یارق کے تاثرات دیکھنے کی بھی ہمت نہیں رہی تھی۔یارق نے اس کی کلائی چھوڑی تو اس نے شکر کا سانس لیا لیکن اگلے ہی پل یارق نے اسے کسی قیمتی متاع کی طرح خود میں شدت سے بھینچ لیا۔۔۔۔۔۔
۔وہ ابھی ٹھیک سے حیران بھی نہیں ہو پائی تھی۔۔۔۔۔


"میں بکھر گیا ہوں مجھے سمیٹ لو ۔۔۔
میں بگڑ گیا ہوں مجھے سنوار دو ۔۔۔۔


اس کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ اس کے اندر کے کرب کی آگاہی دے رہے تھے ۔۔۔۔
وہ سرگوشی نما دھیمی آواز میں اس کے کان کے قریب چہرہ کیے بولا۔۔۔۔۔
یارق کے لب اس کے کان کی لو سے مس ہوئے ۔۔۔۔۔
وہ ہربڑا کر بولی ۔۔۔


"میں۔۔۔میں ۔۔ آپ کے ساتھ ہوں "
آپ خود کو تنہا مت سمجھیے ۔۔۔۔میں زندگی کے ہر موڑ پر آپ کا ساتھ دوں گی ۔۔۔یقین رکھیے ۔۔۔۔۔
یارق کا شکستہ سا ڈھیلا پڑتا وجود دیکھ کر وہ اسے سہارا دئیے اپنے ساتھ بستر پر لائی ۔۔۔


"آپ یہاں بیٹھیں "
بھاری بھرکم لہنگا اور اور اوپر سے زرتار آنچل مزید سنبھالنا مشکل ہوا تو خود ڈریسنگ کی طرف بڑھی تیزی سے دوپٹہ اتار کر ایک طرف رکھا پھر خود کو جیولری سے آزاد کیا۔۔۔۔



Sneak Peak No: 3



سرخ زرتار عروسی لباس میں ملبوس ننگے پاؤں وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا بھاری ملبوس اٹھائے سر پٹ بھاگتی ہوئی بنا پاؤں میں آنے والے پھتروں کی فکر کیے بس کسی بھی طرح وہاں سے غائب ہو جانے کے لیے سرگرداں تھی ۔۔۔
دوڑتے ہوئےپیچھے مڑ کر ایک بار اسی گھر پر آخری نگاہ ڈالی جہاں اس کا کل سرمایہ تھا۔۔۔۔


بی ۔ایم ۔ڈبلیو میں سے اپنی شاندار وجاہت سمیت برینڈڈ ڈارک بلیو تھری پیس سوٹ پہنے سکائی شرٹ پر ڈارک بلیو کلر کی ٹائی لگائے بالوں کو جیل سے سیٹ کیے شرٹ کی بازوؤں پر امپورٹڈ کف لنکس لگائے مہنگی ترین خوشبو میں بسا بسایا وجود اپنے چمچاتے ہوئے جوتوں سمیت اس بیک ورڈ ایریا کے مین روڈ پر اتر چکا تھا۔۔۔۔


"سر گاڑی آگے نہیں جائے گی "ڈرائیور کی مؤدب سی آواز آئی ۔۔۔۔
"تم رکو ادھر ہی ۔۔۔۔میں تھوڑی دیر میں آیا۔۔۔۔


وہ گاڑی سے باہر نکل کر اپنے کوٹ کا درمیانہ بٹن بند کرتے ہوئے گھمبیر آواز میں بولا۔
اور شاہانہ چال چلتا ہوا گلی میں داخل ہوا ۔۔۔


وہ جو پچھے دیکھتے ہوئے آگے کو دوڑ رہی تھی ۔۔۔۔اچانک کسی زور دار ٹکر لگنے پر خود کو سنبھال نا پائی ۔۔۔۔
مقابل نے اسے بچانے کے لیے تیزی سے اس کے گرد اپنا ہاتھ ڈالا۔۔۔۔


جو سیدھا اس کی کمر پر رکھا گیا۔۔۔۔
اس کو اپنی برہنہ کمر پر کسی کے گرم ہاتھوں کا لمس محسوس ہوا تو جی جان سے کانپ کر رہ گئی۔۔۔۔۔


بظاہر تو عروسی لباس کے بڑے سے دوپٹے میں خود کو کور کیے ہوئے تھی مگر اس موالی کاشی نے ایسا بیہودہ عروسی لباس اسے پہننے پر مجبور کیا تھا ۔۔۔۔۔جس سے اس کی کمر اور پیٹ عریاں ہورہا تھا اسی لیے وہ خود کو چھپائے ہوئے تھی۔۔۔۔۔


اس نے ایک نظر اس سجی سنوری ہوئی دلہن کے لباس میں ملبوس اس حسین مورت کو دیکھا ۔۔۔۔فورا نظروں کا زاویہ پھیر لیا۔۔۔۔


ہاتھ اس کی کپکپاتی ،لرزتی ہوئی مرمریں گداز کمر سے فورا ہٹائے ۔۔۔۔
مگر اس کے وجود سے اٹھتی ہوئی صندلی مہک اسے پل بھر میں اپنے حصار میں لے گئی۔۔۔


وہ خود کو سرزنش کرتے ہوئے اس سے ایک پل میں دوری بنا گیا۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کے وہ پھر سے بھاگتی ۔۔۔۔
مقابل نے اس کی نازک کلائی پر اپنی گرفت مضبوط کی ۔۔۔


"شرم نہیں آتی اپنے بوڑھے باپ کی عزت کو مٹی میں ملاتے ہوئے ۔۔۔۔وہ دھاڑا۔۔۔۔
"مجھے جانے دو ۔۔۔۔۔پلیز ۔۔۔۔وہ منت بھرے انداز میں اپنی سیاہ غزال چشماں سے آنسو جاری کیے بولی ۔۔۔۔۔
مگر وہ ان سنی کیے اسے اپنے ساتھ گھسیٹتا ہوا واپس وہیں لے جانے لگا جہاں سے وہ بھاگتی ہوئی باہر نکلی تھی۔۔۔۔


"مجھے وہاں واپس نہیں جانا۔۔۔چھوڑو مجھے ۔۔۔۔"
وہ اس کی مضبوط ترین گرفت سے اپنے دوسرے ہاتھ سے زور لگا کر چھڑوانے کی کوشش کرتے ہوئے اس کے ساتھ گھسٹتی چلی جا رہی تھی۔۔۔

Post a Comment

Previous Post Next Post