Khushboo Dhanak Ki By Komal Ahmed

 



Urdu Nonvillains is a platform for all social media writers. Here you find variety of novels having different plot and concept about life of a human being who faces difficulties in every walk of life. 

Each story has its own moral every story teaches us a new lesson as it contains experience of every human life.

Here you find revenge based, Islamic based, Rude hero, Doctor, Lawyer based with many more exciting tragedies.

Komal Ahmed is one of the fabulous novel that get attention by readers after reading it you will love this novel. Download this novel by clicking below the given link.


Khushboo Dhanak Ki By Komal Ahmed



If you have any queries regarding downloading let us know by commenting below. After reading this novel also leave your precious comments below and let us know about your thoughts and novel selection which type of novels would you like to read????? and which type you want to be posted here we will try to bring novels according to your choice of 
selection. Thanks for Reading!!!!!!


Sneak Peak No: 1


"انشراح جبران ولد جبران حاکم آپکو احد سکندر ولد سکندر رحمان اپنے نکاح میں قبول ہیں؟؟؟؟"
اس بار جواب تو آیا مگر نفی میں،
"نہیں مجھے احد سکندر باحیثیت شوہر قبول نہیں ہیں۔" کمرے میں موت سہ سکوت پھیل گیا۔ بے یقینی سی بے یقینی تھی احد نے انشراح کی طرف دیکھا۔

"انشراح بچے آپ کیا بول رہی ہیں؟ یہ نکاح آپ کو پوچھ کر ہی رکھا تھا نا؟" نبیل نے نرمی سے پوچھا۔
"مگر بھائی اب مجھے احد نہیں چاہئیے " وہ ضدی بچی کی طرح بولی۔ جیسے احد نہیں کوئی کھلونا ہو۔ جو اب اسے پسند نہیں رہا۔

آسیہ جبران جو کہ انشراح کی ماں تھیں شرمندگی اور غصے سے اٹھیں۔ انکو انشراح نے شرم سار کر دیا تھا۔ وہ قدرے غصے سے بازو دبوچ کر انشراح سے پوچھنے لگیں۔
"آیا کہ تمہیں کس سے نکاح کرنا ہے اگر احد قبول نہیں تو کون قبول ہے۔"؟

احد ششد سہ بیٹھا تھا اس کے پاس تو الفاظ ہی نہ تھے۔ اسکی بہترین دوست اسکے ساتھ یہ سب کرے گی اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ یہ انکار یہ نفی اسکی انا پر کی گئی تھی اسکی انا پر کاری ضرب تھی۔ یہ اسکے وجود کی نفی تھی اسکی مردانگی پر اٹھا حرف تھا۔

انشراح نے اپنا بازو چھڑوایا۔انشراح نے شکوے سے بھری پانی سے لبریز سرمئی آنکھیں اٹھائیں اور انگشت شہادت اٹھا کے بولی" اس سے"۔
سب نے چونک کے پیچھے دیکھا تو وہاں کوئی اور نہیں احد سکندر کا چھوٹا بھائی موحد سکندر تھا۔۔ اور سب اس قدر حیران تھے۔ اگر کوئی سوچتا تھا کہ انشراح کسی بات پر خفا ہے اور یہ سب بچپنے میں بول رہی ہے تو اسکی غلط فہمی ختم ہو چکی نبیل تو خود انشراح کی ضد پر ششد رہ گیا۔

موحد سب کے اسطرح دیکھنے پہ گڑبڑا گیا۔
اور "احد " نے جس نظر سے موحد کو دیکھا اس پہ اسکی رنگت میں ذردی گھلنے لگی۔ وہ بھائی سے نظر ملانے کے قابل نہ رہا تھا۔

سب سے پہلے ہوش آسیہ جبران کو آیا۔ انہوں نے ایک تھپڑ انشراح کے خوبصورت گال پہ جڑ دیا۔ یہ انشراح کو اپنی زندگی میں لگا پہلا تھپڑ تھا۔

اور وہ اپنی ماں کے اس عمل پہ پتھرا گئی کسی نے اس سے صفائی نہیں مانگی تھی۔ سب نے اپنی ہی کی تھی۔ کسی ایک نے بھی اس سے نا پوچھا وہ اس وقت کیوں انکاری ہے۔

احد نے ایک پر شکوہ نگاہ انشراح پہ ڈالی جو اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ اسکے دیکھنے پہ نظروں کا زاویہ بدل لیا۔ سب لوگ اب انشراح سے اس حرکت کی وضاحت مانگ رہے تھے ثانیہ بھابی نے موحد سے بھی پوچھا اس نے لاعلمی سے کندھے اچکا دیے۔ وہ کس طرح احد کی وہ بات سرے عام بتا دیتا جس سے سب کچھ ختم ہو جائے۔

باپ نے اپنی شفقت اور تینوں بھائیوں نے اپنی محبت کے حصار میں لے کر انشراح سے وضاحت مانگی مگر اب اسے کوئی وضاحت نہ دینی تھی اسے زندگی میں پہلا تمانچہ ایک ہرجائی کی وجہ سے مارا گیا تھا۔ جس نے اسکے اعتبار اسکی پوشیدہ محبت کا قتل کیا تھا۔ ہر طرح کی تسلی محبت اور کافی ہنگامے کے بعد بھی وہ کچھ نہ بولی تو مما نے حکم دیا۔

"سچ بولو نہیں تو چپ چاپ نکاح پڑھوالو اور انشراح وہ حیران اور ششد تھی کہ وہ کیوں اس بے وفا کا سچ نہیں بتا پا رہی۔ وہ کیوں نہیں بول دیتی کہ محبت میں شرک نہیں ہوتا۔

جانے نبیل کا جھکا تھا سر یا دل میں چھپی محبت انشراح نے نکاح کی حامی بھر لی۔
"آپ نے مجھے تھپڑ مارا ہے نا مما تو میری زندگی کی تباہی اس تھپڑ کی سزا ہوگی۔ "
نکاح دوبارہ پڑھایا گیا اور اس بار قبول کر لیا گیا۔ بہت ہی خاموشی بھرے ماحول میں سب نے کھانا کھایا احد نکاح ہوتے ہی چلا گیا۔ سب نے سوچا فل وقت اس کا چلے جانا ہی بہتر ہوگا۔



Sneak Peak No: 2


"شرم آتی ہے مجھے آپ کو اپنا شوہر کہتے ہوئے اس قدر گھٹیا اور گری ہوئی سوچ آپ کے مالک ہیں!
'یہ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔"
"یہی گرا ہوا شخص تمہاری بے وفائی کے باوجود تمہیں مان عزت محبت دینا چاہتا تھا جو تم نے جھٹک دیا۔" احد نے تنفکر سے کہا۔

"ہوں، محبت" انشراح نے ہنکارہ بھرا۔ "سب جانتی ہوں میں آپکی محبت کو، بٹی ہوئی محبت کسی اور کے ساتھ آئسکرئم پالر بیٹھ کر اس سے بوسے لینے کی محبت اپنی بسٹ فرینڈ کو دوکھا دینے کی محبت۔، اگر آپکی زندگی میں وہ لڑکی تھی تو مجھ سے نکاح کے لئے ہاں کیوں کی؟ منع کر دیتے آپ میں ہمت نہیں تھی تو مجھے کہا ہوتا میری زندگی تو نہ تباہ ہوتی۔ آپ بھی خوش رہتے اور میں بھی، میں نے صرف اپنی محبت ہی نہیں سب سے اچھا دوست بھی کھویا ہے میرے حصے میں نارسائی زیادہ ہے۔ ! جانتے بھی ہیں کس قدر کرب ناک ہوتا ہے اپنی محبت کو کسی اور کے ساتھ اس طرح دیکھنا۔" احد کے لئے یہ انکشاف حیران کن تھا وہ ششد رہ گیا۔

"اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے میں نے محبت کو وہاں اس شام ذلیل اور رسوا ہوتے ہوئے۔"
"انشراح تم اس لئے ناراض تھی، ریکلس مائے گرل! میں سمجھاتا ہوں وہ اس دن میرے ساتھ۔۔۔"

"مجھے کچھ نہیں سمجھنا۔" جو سمجھنا سمجھانا تھا وہ میں اسی دن سمجھ چکی تھی ایسی ہی محبت تھی تو مجھے اس حالت میں کچن بھیجا جب میں خود آپ پر ڈیپنڈ کرتی تھی یہ ہے آپکی محبت ؟" انشراح نے جلی ہتھیلی پھیلائی۔

انشراح اور بھی کچھ کہہ رہی تھی احد سنے بنا باہر نکل گیا


Post a Comment

Previous Post Next Post