Ana Parast By Hamna Tanveer

 



Urdu Nonvillains is a platform for all social media writers. Here you find variety of novels having different plot and concept about life of a human being who faces difficulties in every walk of life. 

Each story has its own moral every story teaches us a new lesson as it contains experience of every human life.

Here you find revenge based, Islamic based, Rude hero, Doctor, Lawyer based with many more exciting tragedies.

 Hamna Tanveer is one of the fabulous novel that get attention by readers after reading it you will love this novel. Download this novel by clicking below the given link.


Ana Parast By Hamna Tanveer



If you have any queries regarding downloading let us know by commenting below. After reading this novel also leave your precious comments below and let us know about your thoughts and novel selection which type of novels would you like to read????? and which type you want to be posted here we will try to bring novels according to your choice of 
selection. Thanks for Reading!!!!!!


Sneak Peak No: 1

"یہ طلاق کے کاغذ ہیں.... سائن کر دینا۔"
وہ پیپرز اس کے سامنے رکھتا ہوا بولا۔
رانیہ نے دیوار کا سہارا لے لیا مبادہ گر ہی نہ جاےُ۔
آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئیں۔

"معاف کر دینا مجھے.... میں بہت مجبور ہوں۔"
وہ مجرمانہ انداز میں بول رہا تھا۔
وہ اور بھی کچھ کہہ رہا تھا مگر رانیہ کو کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔
وہ اسے طلاق دے چکا تھا۔

رانیہ کو لگا اب وہ کچھ نہیں سن پاےُ گی کبھی۔
اس کے کان میں طلاق کا لفظ سائیں سائیں کر رہا تھا۔

اشک تواتر بہتے ہوئے اس کے رخسار کو بھگو رہے تھے۔
وہ دھندلاتی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

"الله کے واسطے معاف کر دو مجھے.... "
وہ اس کے قدموں میں گر چکا تھا۔

رانیہ کی زبان کنگ ہو گئی۔
لفظ دم توڑ گئے۔

"معاف کر دینا مجھے... "
وہ رو رہا تھا۔

رانیہ دم سادھے اسے دیکھ رہی تھی۔
کتنے پل کتنی ساعتیں یونہی بیت گئیں۔

اسے لگ رہا تھا ہر شے منجمد ہو گئی ہے۔
وہ خاموش کیا ہوا مانو پوری دنیا ہی خاموش ہو گئی۔

رانیہ نے کپکپاتے ہاتھوں سے پیپرز اٹھاےُ اور مرے مرے قدم اٹھانے لگی۔
فہد زمین پر بیٹھے اسے دیکھنے لگا۔

"کچھ نہیں کہو گی مجھے؟ لعنت ملامت نہیں کرو گی... بد دعا ہی دے دو کہ مر جاؤں میں۔"
وہ اشک بہاتا کھڑا ہو گیا۔

رانیہ نے لب سی لئے تھے۔
اشک مسلسل اس کی آنکھوں سے ٹوٹ رہے تھے۔

وہ چادر لے رہی تھی۔
فہد کو اس کی چپ مار رہی تھی۔

"کچھ تو بولو....رانیہ یوں خاموش تو مت رہو۔"
وہ تڑپ کر اس کے سامنے آ گیا۔

وہ خاموش افسردہ نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔
"کچھ تو بولو... چاہے گالیاں دے دو,, برا بھلا بولو لیکن کچھ بولو تو.... "
وہ التجا کر رہا تھا۔

رانیہ نے نظریں جھکائیں پیپرز دوبارہ اٹھاےُ اور دروازے کی سمت بڑھ گئی۔
"چپ رہ کر کیسی سزا دینا چاہتی ہو مجھے.... "
وہ اس کی پشت کو دیکھتا ہوا بولا۔

وہ صدمے میں تھی یا کسی اور کیفیت میں فہد سمجھنے سے قاصر تھا۔
رانیہ کمرے سے باہر نکل چکی تھی۔




Sneak Peak No: 2

"عمر کیسے ڈھونڈیں گے مجھے... مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم ہم ہیں کہاں؟"
وہ آنکھوں میں ابھرتی نمی کو پیچھے دھکیلتی ہوئی بولی۔

آواز اس قدر مدھم تھی کہ اس کے سواء کوئی نہ سن سکا۔
"ابو سے خوف آنے لگا ہے.... کیا معلوم کب کیا کر دیں۔"
اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔

"پلیز مجھے میرے گھر واپس بھیج دیں.... مجھے اپنے گھر جانا ہے۔"
وہ دونوں ہاتھ چہرے پر رکھے ہوئے تھی۔
سورج اپنی مسافت طے کر مغرب کی جانب بڑھ رہا تھا۔

عروج سے زوال کی جانب آ رہا تھا۔
دھیرے دھیرے سیاہی پھیلتی جا رہی تھی۔ اجالے کی جگہ تاریکی لے رہی تھی۔
عائشہ نے کھڑکی سے باہر دیکھا تو آنکھوں میں خوف تیرنے لگا۔

یہ اجڑا ہوا جنگل رات کی تاریکی میں مزید خوفناک معلوم ہو رہا تھا۔
"یہیں روک دو...."
وہ کافی دیر بعد گویا ہوےُ۔

عائشہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے انہیں دیکھ رہی تھی۔
"یہاں کیوں رک گئے؟"

وہ چاہ کر بھی خود کو بولنے سے باز نہ رکھ سکی۔
"چلو آؤ باہر.... "

وہ اس کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے گاڑی سے نکل گئے۔
"یہاں کیا کام؟"
وہ متوحش سی باہر دیکھ رہی تھی۔

"اب تم نکلو گی یا.... "
وہ کھڑکی کے سامنے آتے ہوئے چلاےُ۔
عائشہ نہ چاہتے ہوئے بھی باہر نکل آئی۔

خشک پتوں پر پاؤں رکھا تو ان سے سرسرانے کی آواز آنے لگی؟
عائشہ نے گردن گھما کر چاروں اطراف کا جائزہ لینا چاہا۔
ہر طرف سناٹا اور تاریکی کا راج تھا۔

کہیں کہیں خشک اور بوسیدہ درخت دکھائی دے رہے تھے۔
یہاں کی ہر شے اجڑی ہوئی معلوم ہو رہی تھی۔
نجانے کس پرندے کے بولنے کی آواز تھی کہ اس خوف میں وہ پہچان نہ سکی۔
وہ فدا حسین کے ہمراہ چل رہی تھی۔

یکدم اسے اپنے پیچھے کسی چیز کا گمان ہوا۔
وہ جھٹ سے مڑی لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔
دل کی دھڑکن معمول سے بڑھ گئی۔

وہ لمبے لمبے سانس لیتی اِدھر اُدھر دیکھنے لگی لیکن وہاں کسی ذی روح کا کوئی نام و نشان تک نہ تھا۔
"شاید میرا وہم ہو... "
وہ سینے پر ہاتھ رکھے خود کو تسلی دینے لگی۔
"رک کیوں گئی ہو؟"
فدا حسین مڑ کر اسے ناگواری سے دیکھ رہے تھے۔

عائشہ خاموشی سے ان کی جانب بڑھنے لگی۔
ڈرائیور نے اس مکاں کا دروازہ کھولا جو آدھا تو شاید ٹوٹا ہوا تھا۔

ٹارچ آن کر کے وہ اندر داخل ہو گئے۔
دیواریں اتنی کمزور معلوم ہو رہی تھی مانو ابھی گر جائیں گیں۔
اندر ہر شے پر دھول جمی ہوئی تھی۔

سامنے لکڑی کا فریم تھا جسے دیمک نے کھا کر بگاڑ رکھا تھا۔
دیواروں پر جالے لٹک رہے تھے۔
وہ ناک پر ہاتھ رکھے فدا حسین کے پیچھے تھی۔



Post a Comment

Previous Post Next Post