Raah E Yaar By Mehwish Ghaffar

 


Urdu Nonvillains is a platform for all social media writers. Here you find variety of novels having different plot and concept about life of a human being who faces difficulties in every walk of life. 

Each story has its own moral every story teaches us a new lesson as it contains experience of every human life.

Here you find revenge based, Islamic based, Rude hero, Doctor, Lawyer based with many more exciting tragedies.

Raah E Yaar  is one of the fabulous novel that get attention by readers after reading it you will love this novel. Download this novel by clicking below the given link.


Raah E Yaar By Mehwish Ghaffar


Download


If you have any queries regarding downloading let us know by commenting below. After reading this novel also leave your precious comments below and let us know about your thoughts and novel selection which type of novels would you like to read????? and which type you want to be posted here we will try to bring novels according to your choice of selection. Thanks for Reading!!!!!!


Sneak Peak No: 1


آپ کے کہنے کا کیا مطلب ہے انچارج صاحبہ صاف صاف کہیں جو بھی بات کرنی ہے ۔
سر میرے کہنے کا مطلب ہے ۔شاہ میر کے لہجے سے وہ ڈگمگائی تھیں اپنی ہی بات سے ۔
دیکھیں میڈم میری فیملی میں میرا سات سالہ بھتیجا، باون سالہ میرے والد صاحب اور اسی سالہ میرے والد کے والد صاحب ہیں جو اس عمر میں یہ کام کرنے سے رہے نیچے بچا میں اور مجھے شاہ میر ہمدانی لڑکیوں کی کوئی کمی ہے کیا جو وہ آپ کے مڈل کلاس ہاسٹل کی کسی لڑکی کو پرینک کال کرکے اسے پریشان کرے گا ۔وہ ایک ایک لفظ جتا کر بول رہا تھا ۔
وہیں ہاسٹل کی انچارج شرمندگی سے سر جھکا گئی تھی ۔
اب جب آپ سیدھے سے مجھ پر اور میرے کیریٹر پر انگلی اٹھائی رہی ہیں ۔
تو کیوں نا ایسا کیا جائے جو اس سال ہمدانی کنسٹرکشن آپ کے کالج اور ہاسٹل کو ڈونیشن کرنے کا ارداہ رکھتے تھے اب اسے کینسل کردیں۔ کنفرٹ کاؤچ پر اپنی ٹانگیں سیدھی کرتا ہوا ان کی دکھتی رگ پر پیر رکھتا ہوا زندگی سے بھرپور مسکرایا تھا ۔
نہیں سر ایسی کوئی بات نہیں ہے شاید ۔ اپنے سامنے کھڑی لڑکی کو گھورتی ہوئی وہ فورا سے بولی تھیں۔
شاید اب بھی ۔شاہ میر نے انچارج کو بیچ میں ٹوکا تھا ۔
ایم ویری سوری ہمدانی سر ۔۔۔
یقینا اس لڑکی کو غلط فہمی ہوئی ہوگی ورنہ آپ جیسا شریف انسان ایسے گرے ہوئے کام تھوڑی کریں گے ۔آپ بس ڈونیشن ملتوی مت کریں ۔اپنے مفاد پر آتی ہوئی انچارج اب بھی منزہ کو گھور رہی تھیں جو حیرت سےآنکھیں پھاڑے ہوئے ان کے بدلتے رنگ دیکھ کر چونکی تھی ۔
آپ کے کہنے سے کیا ہوگا میڈم ۔جس نے مجھ جیسے شریف انسان پر یہ بیچ الزام لگایا ہے میں ان سے ہی معذرت کے الفاظ سننا پسند کروں گا ۔لہجے میں مضنوئی سچائی لیے وہ حقارت سے مسکرا رہا تھا ۔
پھر ہی میں ڈونیشن کے بارے میں سوچوں گا ۔شاہ میر ہمدانی کا ایم تھا لوگوں کی دکھتی رگ کو پیروں تلے روندنے کا۔
اور اتنا تو وہ جانتا تھا کہ ہو نا ہو منزہ اس وقت انچارج کے پاس ہی موجود تھی جب ہی تو وہ یہ ڈیمانڈ رکھ گیا تھا ۔
اوکے سر وہ ابھی آپ سے ایکسکیوز کریں گی ۔وہ کہتی ہوئی فورا حیرت کا مجسمہ بنی کھڑی منزہ کو اپنے قریب آنے کا اشارہ کرگئی تھیں ۔
ہمارے کالج کے لیے ان کی ڈونیشن بہت ضرورت ہے ۔آنکھوں میں نمی لیے وہ انچارج میڈم سے فون لیتی ہوئی لمبے سانس بھر کر خود کو پرسکون کرنے لگی تھی ۔
وہیں شاہ میر ہمدانی سیدھا ہو بیٹھا تھا اس کی سانسوں کی ہلکی سی آواز پر ہی اس کا دل چار سو چالیس والڈ کی اسپیڈ پر دھڑکنے لگا تھا ۔
ایسا کیا تھا مبزہ میں جس نے شاہ میر ہمدانی کو زیر کردیا تھا ۔
بے صبری سے اس کے بولنے کا انتظار کرتا ہوا اپنی کیفیت پر مسکرا رہا تھا ۔
ایم سوری منزہ وقار ،، منزہ کے سوری بولنے سے پہلے ہی وہ بولا تھا ۔جس پر منزہ لب کاٹ گئی تھی ۔
ویسے ہوگیا شوق پورا میری شکایت کرنے کا ،، پل بھر میں بدلتے شاہ میر کے انداز پر منزہ کی آنکھیں پھٹی تھی جس پر انچارج میڈم نے اسے دیکھا تھا ۔
منزہ بیٹا سوری کہوں سر کو ،، منزہ کو خاموش دیکھ انچارج نے التجائی لہجے میں کہا تھا ۔
سوری ،،، خود پر ضبط کرتی ہوئی وہ بھرائی آواز میں بولی تھی ۔
روم میں جاکر کال پک کرو میری ورنہ یاد ہے ناں تھوڑی پہلے میں نے کیا کہا تھا ،، ضبط کے آخری مرحلے پر کھڑی منزہ اس کی دھمکی سن ریسور انچارج کو تھماتی وہاں سے بھاگی تھی ۔ وی آر ویری سوری سر ،،
اٹس اوکے میڈم ،، اب بس منزہ بہت ہوگیا یہ چوہے بلی کا کھیل اب وقت آگیا ہے روبرو ملنے کا ۔۔

Sneak Peak No: 2


فون رکھووووو ،،،،
وقت آگیا ہے منزہ اب ۔۔ فون بیڈ پر پھینکتا ہوا پل بھر میں فیصلہ کرتا ہوا وہ اٹھ کر کبرڈ سے پیپرز نکالتا ہوا مسکرایا تھا ۔
کککککوننن ہے وہاں ۔ڈر سے کانپتی آواز میں بولتی ہوئی وہ ہلتے ہوئے پردوں سے خوفزدہ ہورہی تھی ۔
میں نے پوچھا کون ہے وہاں ۔۔ پردے پر ابھرتا سایہ نمودار ہوا تھا اس کے پکارنے پر ۔
ڈر سے لرزتی ہوئی وہ دونوں آنکھیں خوف سے میچے وہ ونڈو کی جانب بڑھ رہی تھی ۔
جنننن تو نہیں ہے نہیں جن کا سایہ تھوڑی ہوگا ۔ ونڈو کی جانب دیکھتی ہوئی وہ ڈر سے بڑبڑائی تھی ۔
ہمت باندھتی ہوئی وہ ونڈو کے پاس آکر رکی تھی ۔
کہ اچانک سے سامنے کھڑے دراز قد کے حامل شخص کو دیکھ کر اس کی آواز حلق میں پھنسی تھی ۔
کوننننننن ۔ منزہ کی بچی کچی آواز بھی وہ اپنے بھاری ہاتھ سے دبا گیا تھا ۔
ششش۔ آواز بھی نا نکلے تمہاری ۔ منہ پر انگلی رکھے وہ آنکھوں میں سرخ ڈورے لیے جبڑے بھینچے ہوئے غرلایا تھا ۔
پیچھے ہو پیچھے ،،شاہ میر کی دبی آواز میں کہتا ہوا آگے کی سمت بڑھا تھا ۔
یہ غلط کررہے ہیں آپ ۔ شاہ میر کے ہاتھ ہٹانے پر اس سے دور ہوتی سرخ آنکھوں میں ڈر لیے وہ غرلائی تھی ۔
کیا صحیح ہے کیا غلط ہے یہ تو میں نے اپنے ٹیچر سے بھی اچھے نہیں سیکھا بہتر ہے تم بھی کوشش مت کرو مجھے صحیح غلط کا فرق بتانے کی ۔ ہاتھ میں پکڑی ریوالور کو دیکھتا ہوا وہ جذبات سے عاری لہجے میں بولتا ہوا اسے مزید حواس باختہ کرگیا تھا ۔
جو پہلے ہی اس کے ڈر سے کافی فاصلے پر سمٹ کر فرش پر بیٹھی ہوئی تھی ۔
کیا ہوا ڈر کیوں رہی ہو مجھ سے اس طرح جیسے میں انسان نہیں کوئی آدم خور ہوں ،، اس کی سمت قدم بڑھاتا ہوا منزہ کے خوفزدہ چہرے کو دیکھ کر مسکرایا تھا ۔
ددددوررر، ،، رہوووو، شاہ میر کے اپنی طرف بڑھتے قدم اسے مزید خوفزدہ کررہے تھے ۔
سنا نہیں دور رہو ،، وہ حلق کے بل چلائی تھی ۔
اب ممکن تم سے دور رہنا ،، خمارزدہ لہجے میں کہتا ہوا شاہ میر فرش پر بیٹھی ہوئی منزہ کے مقابل آکر زانوں کے بل بیٹھ گیا تھا ۔
یہ غلط کررہے ہو تم ایسے زبردستی محبت نہیں کروائی جاسکتی ،، اسے سمجھانے کی ادنی سی کوشش کررہی تھی جس کے دماغ پر محبت کا ان دیکھا بھوت سوار تھا ۔
اپنے لبوں پر ریوالور رکھے وہ منزہ کے خوف سے لرزتے وجود کو بڑی دلچسپی سے دیکھتا ہوا خاموش بیٹھا ہوا تھا ۔
اس جاذب آرائیں سے محبت کرتی ہو تم ۔ شاہ میر کے اچانک سے پوچھے گئے سوال پر وہ نفی میں گردن ہلا گئی تھی ۔
مطلب وہ تم سے محبت کرتا ہے تم نہیں کرتی۔ نفی میں گردن ہلاتی ہوئی شاہ میر کی مسکراہٹ کو دیکھ دنگ رہ گئی تھی ۔
مجھے نہیں پتا، ،، بھرائی آواز میں جواب دے گئی تھی ۔
پھر اس کے گھر والوں سے کیوں ملنے ملانے کی باتیں کیوں ہورہی ہیں ۔
اسے کچھ مت کرنا ،،، منزہ کے اس طرح منت کرنے پر شاہ میر کا دل مٹھی میں آیا تھا ۔
اتنی فکر ،،اتنی پروا، ، یہ محبت نہیں ہے تو کیا ہے منزہ ،،،، بھاری روبدار آواز میں اپنے دل میں اٹھتی درد کی ٹھیسوں پر قابو پاتا ہوا وہ خود پر کمال کا ضبط کیے ہوئے تھا ۔
ہم عزت کرتے ہیں ایک دوسرے کی ۔ آنکھوں میں خوف لیے وہ بے خوف لہجے میں بولی تھی ۔
عزت ،،،، قہقہ لگاتا ہوا وہ کوئی دیوانہ لگ رہا تھا ۔
اس عزت کی میری زندگی اور میری شخصیت میں کوئی جگہ نہیں ہے منزہ وقار ،،اور اس کی عادت تم بھی ڈال لو تو بہتر رہے گا تمہارے لیے ۔ سرخ متورم آنکھیں لیے وہ شاہ میر کو نا سمجھی میں بنا پلکیں جھپکائے دیکھ رہی تھی ۔
یہ پیپر سائن کرو ۔ اپنی جیکٹ سے پیپرز نکالتا ہوا وہ منزہ کے سامنے بڑھاتا ہوا سنجیدگی سے بول رہا تھا ۔
کککوننن سے پیپر ہیں یہ ،، لڑکھڑاتے لہجے میں پوچھتی ہوئی وہ پیپرز دیکھ کر گھبرائی تھی ۔
اگر میں یہ کہوں کہ نکاح کے پیپر ہیں یہ تو ،، منزہ کے چہرے کے قریب چہرہ کیے وہ چہرے پر بلا کی سنجیدگی طاری کیے ہوئے تھا ۔
جس سے منزہ اسٹل ہوئی تھی ۔
ڈر گئیں تم ، ،، منزہ کے ساکت چہرے کو دیکھ کر وہ قہقہ لگا گیا تھا ۔
ویسے ڈرنا بھی چاہیے تمہیں کیونکہ یہ نکاح کے پیپرز ہی ہیں ،، منزہ کے چہرے کے رنگ فق ہوئے تھے ۔
مممی،،مممیں نہیں کروں گی یہ سائن ۔۔
نہیں کرو گی پیپر سائن ،،،، منزہ کے انکار پر قہقہ لگاتا شاہ میر اگلے ہی لمحے میں چہرے پر سنجیدگی آنکھوں میں غصے کے سرخ دوڑے لیے ریوالور اس تھوڑی کے نیچے رکھ کر اس کے آنسوؤں سے بھیگے چہرے کو تھوڑا اوپر کرگیا تھا ۔
پلیزززز مجھے بخش دیں ،، ریوالور کے بڑھتے زور سے خوفزدہ ہوتی ہوئی وہ شاہ میر کی غصے سے سرخ انگارہ ہوتی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی منت سماجت پر اترتی تھی مگر شاہ میر کسی بھی منت سماجت سننے کے موڈ میں نہیں لگ رہا تھا اسے ۔
بخش تو رہا ہوں تمہارے جاذب کو اور اس کی جان کو ، اور کیا کروں کیسے بخشوں تمہیں ،،
ہاں تمہاری مما ، بابا اور وہ کیا نام ہے تمہارے بھائی کا ،،،،،
ہاں مزمل ان سب کو بخش دیا تمہارے لیے ،،،ویسے اس ہی شہر میں شفٹ ہوگئے ہیں ناں اب تو تمہاری فیملی اور تمہاری یہاں اس ہاسٹل میں آخری رات ہے جب ہی تو آیا ہوں یہاں یہ پیپر لے کر ۔
اب اچھی بچی کی طرح فٹا فٹ سائن کردو ، پل بھر میں بدلتے شاہ میر کے سرد گرم لہجے سے اپنی قسمت پر ماتم کناں تھی ۔
اگر اس بات کی ٹینشن ہے کہ تمہارے ہاتھوں پر مہندی نہیں لگی میرے نام کی یا مایوں میں بیٹھی بنا دلہن بنے نکاح ہورہا ہے تو بے فکر رہو اتنی دھوم دھام سے ہماری شادی ہوگی نا سب دیکھیں گے بس یہ پیپر سائن کردو اس کے بعد سب ٹھیک کردو گا میں ،، دیوانہ وار کہتا وہ ریوالور کو اب منزہ کے رخسار پر پھیرتا ہوا لب دبائے ہوئے تھا ۔
کرب سے آنکھیں میچے وہ اپنے رخسار پر ریوالور محسوس کرتی ہوئی اپنی بے بسی پر کر لائی تھی ۔
منزززززہ ۔۔۔ خاصا زور دیتا ہوا بولا تھا ۔
منزہ سنا نہیں تم نے میں نے کیا کہا ابھی تم سے تمہاری فیملی اس ہی شہر میں شفٹ ہوگئی ہے پر میں انہیں کچھ نہیں کروں آئی سوئیر ،،
اپنی چلتی سانسوں کی قسم کھاتا ہوا شاہ میر سچ بول رہا تھا ۔
آنکھیں میچے منزہ کی نفی میں ہلتی گردن کو دیکھ وہ ضبط سے لب بھینچ گیا تھا ۔
تم مجھ سے التجا کررہی ہو نا کہ میں یہ سب نا کروں ہیں ناں ، شاہ میر کی بات پر منزہ کی فورا سے آنکھیں کھلی تھیں ۔
میں تم سے التجا کرتا ہوں پلیز یہ پیپر سائن کردو، یہ دیکھو ہاتھ جوڑتا ہوں تمہارے آگے ، دونوں جڑے ہاتھوں کے بیچ میں ریوالور پر منزہ کی نگاہیں ٹکی تھیں ۔
اگر نہیں تو یہ لو ختم کردو مجھے کیونکہ تمہارے انکار سے تو ویسے ہی مر رہا ہوں ،مار دو مجھے ،، شاہ میر کے انداز پر منزہ کی متورم آنکھوں میں حیرت گھلی تھی اس کے بدلتے رنگ سے ۔
تم سائن نہیں کرو گی، منزہ نے نفی میں گردن ہلائی تھی ۔
ٹھیک ہے میں مر جاتا ہوں ، اپنی کنپٹی پر ریوالور رکھتا ہوا وہ اپنی آنکھیں بند کرگیا تھا ۔
ہر دم بھرتی سانسوں میں چلتا تیرا نام ہے
آج اس قصے کو اپنی موت سے تمام کرتے ہیں ۔۔۔
پاگل ہوگئے ہیں کیا آپ، کنپٹی پر رکھی ریوالور کو دیکھ کے دم خشک ہوئے تھے ۔
پاگل ،،، قہقہ لگاتا ہوا وہ منزہ کو دیکھ کر لب دبا گیا تھا ۔
دیوانہ ہوگیا دیوانہ ،، ، پر کوئی بات نہیں تم خوش رہنا بس ایک آخری خواہش پوری کردینا میری ،، آنسوؤں سے بھری آنکھوں میں سوال ابھرا تھا ۔
بس میری قبر پر ہر زور پھول ڈالنے ضرور آنا اور اپنا بہت سارا خیال رکھنا خدا حافظ ، ریوالور پر زور دیتا ہوا منزہ کے بے داغ رخساروں پر آنسوؤں کے نشان دیکھ آنکھیں بند کرگیا تھا ۔
نیینہیں نہیں میں کروں گی سائن شاہ میر پلیز یہ نیچے کرلیں ،، دماغ میں بازگشت کرتی شاہ میر کی باتوں سے وہ ہامی بھر گئی تھی ۔



Post a Comment

Previous Post Next Post