Dhanak By Rabia Khan

 


Urdu Nonvillains is a platform for all social media writers. Here you find variety of novels having different plot and concept about life of a human being who faces difficulties in every walk of life. 

Each story has its own moral every story teaches us a new lesson as it contains experience of every human life.

Here you find revenge based, Islamic based, Rude hero, Doctor, Lawyer based with many more exciting tragedies.

Dhanak is one of the fabulous novel that get attention by readers after reading it you will love this novel. Download this novel by clicking below the given link.


Dhanak By Rabia Khan


Download


If you have any queries regarding downloading let us know by commenting below. After reading this novel also leave your precious comments below and let us know about your thoughts and novel selection which type of novels would you like to read????? and which type you want to be posted here we will try to bring novels according to your choice of selection. Thanks for Reading!!!!!!

Sneak Peak No: 1

"اس وقت تم یہاں کیا کررہی ہو۔۔؟ اور رو کیوں رہی ہو۔۔؟"
اس نے حیرت سے بس یہی پوچھا تھا۔ اس نے جلدی سے نفی میں سر ہلایا تھا۔۔ پھر آنکھیں رگڑ کر کانپتی آواز میں بولی۔۔
"م۔۔ میں۔۔ کتاب لینے آئ تھی۔ مجھے مل نہیں رہی۔۔"
"تو کتابوں کے نہ ملنے پر کون روتا ہے۔۔؟"
اسفند کی حیرت اپنے عروج پر تھی۔ رامین نے اسے ایسے دیکھا جیسے کہہ رہی ہو۔۔ "آپکو یہ نہیں پتہ۔۔"
"کتابوں کے نہ ملنے پر بھی بہت سے لوگ روتے ہیں اسفند لالہ۔۔ جب کبھی انسان ساتھ نہیں ہوتے اور کتابیں بھی اپنے الفاظ اپنے اندر ہی سمیٹ کر دبیز خاموشی اوڑھ لیتی ہیں۔۔ تب رونا آتا ہے۔۔"
اسکے جواب پر وہ مزید حیران ہوا تھا۔
"کونسا انسان نہیں مل رہا تمہیں۔۔؟"
اب کہ حیرت کے ساتھ سنجیدگی بھی گھل گئ تھی۔۔ قدیم لائبریری میں وقت اپنے مدھم اقدام ثبت کیۓ جارہا تھا۔۔
"سب مل گۓ ہیں۔۔ پھر بھی نہیں ملے۔۔"
اسکا جواب بہت گہرائ لیۓ ہوۓ تھا۔ وہ ایک پل کو ٹھہر سا گیا۔۔ پھر چند قدم آگے بڑھ آیا۔ لیکن اس سے ایک فاصلے پر رک بھی گیا۔
"طبیعت ٹھیک ہے تمہاری۔۔؟"
"ج۔۔ جی طبیعت بالکل ٹھیک ہے۔۔ میں جاتی ہوں۔۔ مجھے سونا چاہیۓ۔۔"
اس نے کانپتے ہاتھوں سے کتاب شیلف کے اوپری حصے میں رکھنا چاہی۔۔ لیکن عجلت کے باعث بہت سی کتابیں ایک ساتھ ہی نیچے گریں تو اسفند بجلی کی سی تیزی سے آگے بڑھا اور پھر ساری کتابیں رامین پر گرنے کے بجاۓ اس پر گریں۔ وہ آنکھیں بند کیۓ۔۔ اسکے ساتھ لگی کھڑی تھی۔۔ اسفند کا ایک شیلف پر جما تھا اور دوسرا رامین کے گرد تھا۔۔ اس نے اسے ہاتھ نہیں لگایا تھا۔۔ لیکن پھر بھی وہ ان ساعتوں میں بہت کچھ محسوس کرنے لگا تھا۔۔
جب کتابیں گرچکیں تو وہ گہرا سانس لے کر پیچھے ہٹا۔۔ اپنا ہاتھ اسکے اطراف سے ہٹا لیا۔۔ وہ اس بے وقت کی آفتاد سے خوفزدہ ہوئ وہیں جمی تھی۔۔ جب اسفند کی نگاہ اسکے اوپری شیلف پر پڑی۔۔ وہاں ایک موٹی سی کتاب غلط رکھی ہوئ تھی۔۔ اور ۔۔ اور اس سے پہلے کہ وہ رامین کے سر پر گرتی اس نے بے اختیار ہو کر اسکی کلائ پکڑی اور اسے اپنی جانب کھینچا۔ وہ کتاب دھم سے زمین پر آگری۔۔ رامین نے چونک کر اپنے پیچھے گری کتاب کو دیکھا تھا۔۔ پھر اگلے ہی لمحے نگاہیں اسفند کی جانب پھیریں۔۔ سرمئ ارتکاز۔۔ پانی پانی سے ارتکاز کے ساتھ گڈ مڈ سا ہوگیا۔۔
"صرف انسانوں کا ہی نہیں بلکہ کتابوں کا ساتھ بھی اکثر زخمی کردیتا ہے۔ بلکہ۔۔ انسانوں سے زیادہ زخمی اور بے رحم ساتھ ہوتا ہے یہ تو۔۔"
اس نے آہستگی سے کہا تھا۔ پھر وہ بے ساختہ ہی پیچھے ہوگیا۔ اسکی کلائ چھوڑدی۔۔
"انسان رلاتے ہیں۔۔"
اس نے اپنے پیچھے اسکی کمزور سی آواز سنی تھی۔ پھر سنجیدگی سے اسکی جانب مڑا۔ وہ کتابیں اٹھارہی تھی۔
"کتابیں اس سے بھی زیادہ رلاتی ہیں۔۔"
اسکی بات سن کر اسکے چلتے ہاتھ ساکت ہوۓ تھے۔ یہ اسکا انداز نہیں تھا۔۔ وہ کسی سے ایک سے زائد بات نہیں کرتا تھا لیکن ابھی۔۔ اس وقت۔۔ وہ اسے جواب دے رہا تھا۔۔
"ظاہر ہے۔۔ کتابیں بھی تو انسان ہی لکھتے ہیں۔۔ بھلا ان میں بے رحمی کی کاٹ کیوں نہ ہو۔۔"
اب کہ وہ تلخ ہوئ تھی۔ اسفند پہلی بار ہولے سے مسکرایا تھا۔۔ پھر جھک کر اسکے ساتھ کتابیں اٹھانے لگا۔
"میں نے خدا کی کتاب پڑھتے بھی بہت سے لوگوں کو روتے دیکھا ہے رامین۔۔ جو زمینی نہیں آسمانی ہے۔۔ جو اتاری گئ ہے۔۔ وہ بھی رلاتی ہے۔۔ رلاۓ گی نہیں تو اتارنے والے سے کیسے جوڑے گی۔۔؟"
اگلے ہی لمحے رامین نے آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔ وہ بھی ایک گھٹنا زمین پر رکھے کتابیں اٹھاتا، رکا تھا۔۔
"آپ مجھے میری کتابوں سے بدظن کررہے ہیں۔۔؟"
اسکے لہجے میں۔۔ اسکی نم آنکھوں میں۔۔ ہر جگہ خفگی پھیلنے لگی تھی۔ وہ ٹھہر ہی تو گیا تھا۔۔ اس نے کبھی کسی کو ایسے خفا ہوتے نہیں دیکھا تھا۔۔
"حسنِ ظن رکھ کر بھی تکلیف ہی ملے تو کیا فائدہ بھلا!"
"بات تکلیف کی نہیں ہوا کرتی لالہ۔۔ بات محبت کی ہوا کرتی ہے۔۔ مجھے اپنی کتابوں سے محبت ہے۔۔ اور جن سے محبت ہو۔۔ انکی دی گئ تکلیف بھی قبول ہوتی ہے۔۔"
اور اس سے پہلے کہ اسفند کوئ اور دلیل رکھ کر اسے لاجواب کردیتا وہ وہاں سے بھاگ آئ۔۔ اسفند اپنی جگہ ہی جما رہا۔۔ پھر اس نے اپنی ہتھیلی نگاہوں کے سامنے کی۔۔ معصوم سا نرم لمس اسکی ہتھیلی پر سلگنے لگا تھا۔۔ اس نے پستول ایک طرف رکھا اور بالوں کو یونہی ماتھے پر مزید بکھیرا۔۔
بیڈ پر دراز اسفند نے آج جان لیا تھا کہ وہ کونسا لمحہ تھا جو اسکے اور رامین کے درمیان ٹھہر گیا تھا۔ اس نے دوبارہ پلٹ کر اسکی جانب دیکھنا ہی چھوڑ دیا۔۔ پھر وہ باہر پڑھتا رہا اور رامین کا رشتہ کہیں اور طے ہوگیا۔۔ وہ واپس پلٹا تو حیران رہ گیا کہ وہ کسی اور کی ہوچکی ہے۔۔ چند دن تو وہ بے حد سن رہا لیکن پھر دھیرے دھیرے اس نے یہ حقیقت بھی قبول کر ہی لی کہ وہ اب اسکی نہیں ہوسکتی۔ وہ اس سے پیچھے ہوگیا۔۔ انکے یہاں رشتے توڑنا ناقابلِ قبول عمل تھا۔۔ پٹھان لوگ رشتہ کر کے توڑنے کو خود پر حرام کیۓ رکھتے تھے۔۔ اس نے بھی روایات کے آگے گردن جھکادی۔۔ لیکن پھر یہ سب لالہ رُخ کب جان گئ۔۔ کب وہ اسکی آنکھیں پڑھ گئ۔۔ کب وہ اسکی بے حد پوشیدہ سی خواہش کو یوں سامنے لے آئ۔۔ کچھ پتہ ہی نہ چلا۔۔
اس نے گہرا سانس لیا اور بوجھل دل کے ساتھ بستر پر اٹھ بیٹھا۔۔ اس میں کچھ شک نہیں تھا کہ رُخ اسکی شاگرد رہی تھی۔۔ وہ اس جیسی کیوں نہ ہوتی۔۔ لاپرواہ اور بیک وقت باریک بین۔۔!


Sneak Peak No: 2

"میں تو سمجھا تھا کہ جھانسی کی رانی کو محض رلانا آتا ہے لیکن اوہ۔۔ دیکھو۔۔ اسے تو رونا بھی آتا ہے۔۔"
اسکی بات سن کر وہ روتے روتے ہی ہنسی تھی۔ چمکتے آنسوؤں کے ساتھ نم سی ہنسی لیۓ وہ لڑکی بہت خوبصورت تھی۔
"میرا مزاق اڑارہے ہیں آپ۔۔؟"
"میرا دماغ خراب نہیں ہے کہ میں رات کے اس پہر تمہارا مزاق اڑاؤنگا۔۔ مجھے اس کمرے میں ابھی زندہ رہنا ہے۔۔ ایک صوفہ مل گیا ہے سونے کے لیۓ غنیمت نہیں۔۔ اگر تم نے یہ بھی مجھ سے چھین لیا تو پھر میں غریب کہاں جاؤنگا۔۔؟"
اور اسکی بیچاری سی شکل دیکھ کر وہ یکدم اور ہنس پڑی تھی۔ ارسل اسے دیکھ کر مسکرایا۔۔
"اتنی بھی ظالم نہیں ہوں اب میں۔۔"
اس نے زکام زدہ سی سانس اندر کھینچ کر کہا تھا۔ ارسل نے "بالکل" والے انداز میں سر ہلایا تھا۔۔
"سچ بتاؤ۔۔ کیوں رو رہی تھیں۔۔ دیکھو مجھے عجیب لگتا ہے جب کوئ میرے آس پاس روتا ہے تو۔۔ یہ بھی عجیب سی بات ہے لیکن مجھے بھی آگے والے کو دیکھ کر رونا آجاتا ہے۔۔ اور تم نے رُخ۔۔ تم نے ابھی مجھے روتے ہوۓ نہیں دیکھا۔۔ میں بہت خوفناک لگتا ہوں روتے ہوۓ۔۔ تم چاہتی ہو تمہاری رات کی نیند واقعی اڑجاۓ۔۔"
اور اب اس کی ہنسی ہرگز بھی نہیں رک رہی تھی۔ وہ چہرہ چھپا کر ہنسنے لگی تھی۔ پھر ہاتھوں سے چہرہ اٹھایا۔۔ سامنے بیٹھے میمنے کو دیکھا۔۔ وہ بہت کئیرنگ تھا۔۔ کوئ تو اسے بتاۓ کہ وہ ایسے نہ کرے۔۔ وہ ایسے کرے گا تو کیسے چلے گا۔۔؟
"میں بس رامین کی وجہ سے پریشان تھی۔ میں آج تایا کے گھر گئ تھی انہیں بلانے۔۔ تو میں نے دیکھا ارسل کہ وہ۔۔ وہ اپنے کمرے میں جاۓ نماز پر بیٹھے رو رہے تھے۔۔ میں نے انہیں ہمیشہ بہت۔۔ بہت مضبوط دیکھا تھا۔۔ انہوں نے کبھی کسی بھی دکھ پر اف تک نہیں کہا لیکن آج۔۔ آج انہیں اس قدر شکستہ دیکھ کر۔۔ میرا تو دل ہی ٹوٹ گیا ارسل۔۔ میری ہمت نہیں ہوئ کہ میں اندر جا کر انہیں بلاسکوں۔۔ بس تب سے میرے دل پر بوجھ ہے۔۔ مجھے پتہ نہیں کیوں رونا آۓ جارہا ہے۔۔"
اسکی آواز ایک بار پھر سے بھرائ تو ارسل نے اپنے ہاتھ میں قید اسکا ہاتھ ہولے سے دبایا۔ پھر مسکرا کر اسے دیکھا۔۔
"ہوتا ہے ایسے۔۔ پتہ ہے۔۔ میری چھوٹی پھپھو تھیں نازنین۔۔ بہت پیار کرتی تھیں مجھ سے وہ۔۔ میں انکے لیۓ بالکل چھوٹا سا تھا۔۔ بلکہ دوسرے الفاظ میں کہنا چاہیۓ کہ انہوں نے ہی بڑا کیا تھا مجھے۔۔ وہ بابا کی اکلوتی بہن تھیں۔۔ چھوٹی تھیں تو انکی شادی بھی نہیں ہوئ تھی۔۔ میں انکے بغیر کچھ کھاتا نہیں تھا۔۔ کہیں جاتا نہیں تھا۔۔ کچھ کرتا نہیں تھا۔۔ اور پھر ایک دن۔۔ وہ مرگئیں۔۔"
اسے لگا گویا اسکے اوپر سے کوئ ٹرک سا گزر گیا ہو۔ وہ کتنے آرام سے بتارہا تھا۔۔ شاید وہ اپنے حصے کا غم رو چکا تھا۔
"ک۔۔ کیوں۔۔ کیسے۔۔؟"
اس نے بے یقینی سے بس یہی پوچھا تھا۔ ارسل کی آنکھوں میں سرخی سی ابھری۔۔
"کسی نے قتل کردیا تھا انکو۔۔"
اف۔۔ ہر جانب جیسے سرخی سی پھیلنے لگی تھی۔ وہ آنکھیں میچ کر یکدم پیچھے ہوئ تھی۔ اسے جیسے سانس نہیں آرہا تھا۔۔
"بابا کے زمینی مسائل کے باعث انکے دشمنوں نے پھپھو کو نشانہ بنایا اور انہیں قتل کردیا۔۔ پھر کیس چلتا رہا۔۔ قصاص لیا جاتا رہا۔۔ پھپھو واپس نہیں آئیں بس۔۔"
آخر میں وہ مسکرایا تھا۔۔ وہ ارسل تھا ناں۔۔ وہ مسکرا سکتا تھا۔۔ اس نے گہرے گہرے سانس لے کر دل پر جمی کثافت جیسے باہر نکالی تھی۔
"بہت بری طرح ٹرماٹائز ہوگیا تھا میں۔ کئ دنوں تک ہاپسٹل میں داخل رہا۔ اور پھر میں ہر ساۓ سے خوفزدہ رہنے لگا۔۔ مجھے بندوقوں سے خوف آنے لگا۔۔ مجھے فائر کی آواز پر دورہ پڑ جاتا تھا۔۔ کئ کئ دنوں تک بیسمنٹ میں چھپ کر روتا رہا تھا میں لیکن پھر ۔۔ پھر سب ٹھیک ہوگیا۔۔ زندگی اپنی جگہ واپس آگئ۔۔ کچھ بھی نہیں بدلا۔۔ میں سمجھ سکتا ہوں تمہاری تکلیف۔۔ تم اپنے تایا سے بہت مانوس ہو۔۔ ان سے بہت گہرا رشتہ ہے تمہارا اسی لیۓ اس طرح انہیں دیکھ کر ہرٹ ہونا نارمل ہے تمہارے لیۓ۔۔بٹ تم خوش نصیب ہو۔ تمہارے تایا تمہارے پاس ہیں۔ تم انکے لیۓ بہت کچھ کرسکتی ہو۔۔ اور جو تم کرسکتی ہو وہ تمہیں کرنا چاہیۓ۔۔ "
وہ خاموشی سے دیکھتی رہی تھی اسے۔ جبھی وہ اتنا ڈرتا تھا۔۔ یہ ماضی تھا اسکا۔۔ بھلا وہ خوفزدہ کیوں نہ رہتا۔۔
"آپ اسی لیۓ ہر چیز سے ڈرتے ہیں۔۔؟"
اسکے پوچھنے پر وہ سر کھجاتا ہنسا تھا۔ پھر گردن اثبات میں ہلائ۔
"اسی لیۓ میں تمہارے اسفند اور فرقان لالہ جتنا بہادر نہیں ہوں۔ میں ڈر جاتا ہوں۔۔ ایک پھپھو کو کھودینے کے خوف نے مجھے ہر اس چیز سے خوفزدیا کردیا جسے میں کھوسکتا ہوں۔ میں شاید حساس بھی اسی لیۓ ہوں۔۔ مجھے لوگوں کے کھو جانے سے ڈر لگتا ہے۔"
اس نے کبھی اتنا پیارا انسان نہیں دیکھا تھا۔
"اب تم سوجاؤ۔ اور ٹینشن نہیں لو۔ سب اچھا ہوگا۔ اگر تایا یاد آرہے ہیں تو میں لے جاؤنگا تمہیں صبح۔۔ بات کرلینا ان سے۔۔ بات کرلینے سے ہر مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔"
وہ اٹھا اور جیسے ہی لیمپ کی لائٹ آف کرتا پلٹنے لگا، رُخ نے اسکے کرتے کی آہستین تھام لی۔ وہ چونک کر اسکی طرف مڑا۔
"تھینکس ارسل۔۔ آپ اچھے ہیں۔۔"
وہ ہنسا تھا۔ پھر سر اثبات میں ہلاتا اپنے صوفے کی جانب بڑھ آیا۔ رُخ نے بھی آہستہ سے اپنا سر تکیۓ سے ٹکایا اور سونے لیٹ گئ۔۔ لیکن اب نیند آنکھوں سے بہت دور تھی۔۔ ارسل کی ہنسی۔۔ ارسل کی آنکھوں۔۔ اور اسکی باتوں نے رُخ کی نیند بہت چپکے سے چرالی تھی۔ پگھلتی رات کی تاریکی میں دل روشن ہونے لگے تھے اور زندگی۔۔ اپنے انداز سے چلنے لگی تھی۔

Post a Comment

Previous Post Next Post