” فارمولے یاد ہو گۓ ہیں آگے پڑھیں اب “
مدھر سی آواز ابھری تھی ، وہ جھجکتے ہوۓ آہستہ آواز میں کہہ رہی تھی ۔
” تمہیں تو پڑھنا نہیں تھا رو رو کر اس دن یہی کہا تھا تم نے مجھے “
تقی نے ہنوز سپاٹ چہرے کے ساتھ اب لہجہ بھی سپاٹ رکھا ہوا تھا ، کیونکہ اب بھی اسے تھوڑا رعب دکھانا لازمی تھا کیونکہ اس کی تھوڑی سی بھی ڈھیل پر اور خوشی ظاہر کرنے پر وہ پنترا بدل سکتی تھی ۔
” ہاں کہا تھا پر اب مجھے پڑھنا ہے “
مالا نے ملاٸم سے لہجے میں التجا کی اور دھیرے سے نچلے لب کو اس کی خفگی کے پیش نظر دانت میں دبا کر چھوڑا ، وہ اتنا خفا تھا کہ اب اس کے پڑھنے پر آمادہ ہونے کے بعد بھی اسے پڑھانا نہیں چاہتا تھا
” کیوں اب کیا ایسا ہوا ہے جو پڑھنا ہے تمہیں “
تقی نے بھنویں اچکاۓ سوال کیا ، نرم سے نگاہیں اس کے ہر نقش کو بغور دیکھ رہی تھیں ، وہ بہت حسین تھی آج سے پہلے کبھی توجہ ہی نہیں گٸ تھی اس طرف
” کیونکہ ۔۔۔۔ “
مالا نے سر نیچے جھکا لیا تھا ، تقی نے مسکراہٹ دباٸ اسے وہ یوں نادم سی اچھی لگ رہی تھی لیکن اپنی سختی اسے برقرار رکھنی تھی ۔
” کیونکہ میں آپ کو ناراض نہیں کر سکتی “
مالا کی آواز بہت آہستہ تھی اور پلکیں ہنوز جھکی ہوٸ تھیں ۔ اس کی یہ بات تقی کو اندر تک سرشار کر گٸ اور اسے اپنے اندر ہونے والے اس انوکھے سے احساس نے حیران کر دیا ۔
” نہیں صرف میری ناراضگی کو لے کر تم اتنی بڑی قربانی مت دو “
تقی نے اپنے سامنے کھلی اس کی کاپی کو بند کرتے ہوۓ سنجیدہ سے لہجے میں کہا اور کتاب کی طرف متوجہ ہوا ، مالا نے بیچارگی سے دیکھا اس کی ناراضگی سوہان روح تھی ۔
” کیوں نا کروں ناراضگی کی پرواہ کروں گی میں “
مالا نے ایک دم سے چہرہ اوپر اٹھاۓ وثوق سے کہا نگاہیں سیدھا تقی کی نگاہوں سے ملیں تھیں ۔
” پر میں اب تمہیں پڑھانا نہیں چاہتا “
تقی نے لب بھینچے مصنوعی روکھے سے لہجے میں جواب دیا تو مالا کی منہ کھل گیا پھر آنکھیں سکوڑ کر تقی کی طرف دیکھا ۔
” آپ نا پڑھاٸیں یہیں پاس بیٹھ کر پڑھتی رہوں گی “
مالا نے ناک پھلاتے ہوۓ کہا اور پھر جلدی سے انگلش کی کتاب کھول کر اپنے سامنے رکھی اور پڑھنا شروع کر دیا ۔
تقی نے بے اعتناٸ برتتے ہوۓ اپنی کتاب پر نگاہ جماٸ ، پر وہ اتنے غلط تلفظ ادا کرتے ہوۓ پڑھ رہی تھی کہ تقی کی برداشت جواب دے رہی تھی ۔ تقی نے کھینچ کر کتاب اپنے پاس کی
” سارا غلط پڑھ رہی ہو کرسی پاس کرو “
تقی نے رعب سے کہا تو مالا بے ساختہ مسکرا دی اور پھر کرسی قریب کرتے ہوۓ نظریں کتاب پر جما دیں اب تقی اسے پڑھا رہا تھا اور آج پہلے دن وہ تقی کے بجاۓ کتاب پر مکمل توجہ دیے ہوۓ تھی